Nanhe Shaheedon Ka Lahoo Aaj Bhi Taaza Hai
ننھے شہیدوں کا لہو آج بھی تازہ ہے
آرمی پبلک سکول پشاور کا سانحہ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا سانحہ ہے جسے کوئی بھی پاکستانی بھلا نہیں سکتابلکہ دنیا بھی اس سانحہ کو کبھی بھلا نہ سکے گی۔ دہشت گردوں نے اپنے مذموم مقاصد کی خاطر ایک تعلیمی درس گاہ پر حملہ کرکے علم کا دیا بجھانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن ننھے شہیدوں نے اپنے خون سے علم کا دیا ایسا روشن کیا کہ اب اس علم کے دیے کو کوئی طوفان بھی بجھا نہ سکے گا۔ آج اس سانحہ کوسات برس بیت جانے کے باوجوداس پر کچھ لکھنے کی جب کوشش کی تو ہاتھ کانپنے لگے اوردل خون کے آنسو رونے لگا لیکن ایک روحانی طاقت تھی جو ان ننھے شہیدوں کے والدین کو دیکھ کر پیدا ہوئی کہ حالات کیسے بھی ہوں، ہمت کبھی نہیں ہارنی، زندگی کو جینا ہے اور آگے بڑھنا ہے اسی ہمت اور جذبے نے میری قلم کو روحانی طاقت بخشی اور میں کانپتے ہاتھوں کے ساتھ لکھنے لگا۔
2014 کے بعددنیا کے سیاہ ترین دن کا سورج جب بھی طلوع ہوتا ہے تو ہرآنکھ وہ منظر یاد کرکے اشکبار ہوجاتی ہے جب دہشت گردوں نے ماؤں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردیے۔ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی تعلیمی ادارے پر ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا ایک ایساپہلا حملہ تھاجس میں سکول کے معصوم اور بے گناہ بچوں پر بارش کی طرح گولیاں برسائی گئیں اور انھیں ان ہی کے پاک خون میں نہلادیا گیا۔
وہ دہشت گرد کیسے سفاک، کیسے سنگدل، کیسے بے رحم تھے، وہ انسان تھے یا شیطان؟ انسان کی کھال میں چھپے درندے جب سکول کے پیچھے دیوار پھلانگنے کے لئے قبرستان میں سے گذر رہے تھے تب بھی انھیں روز قیامت کا خوف نہیں آیا۔ وہ درندے قبریں پھلانگتے، ان کی بے حرمتی کرتے ہوئے گذرتے گئے اور ایک لمحہ کے لئے یہ بھی نہیں سوچاکہ ماؤں کی گود اجاڑنے کے بعدمیدان حشر میں اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی سفاکیت کاکیا جواب دیں گے۔
تاریخ کی بدترین مثال بننے والے اس سانحہ میں آٹھ سال سے اٹھارہ سال تک کی عمر کے 132معصوم طلباء سمیت 149 افراد شہید ہوئے۔ ان شہیدوں میں سے کسی ایک کی زندگی پر لکھ کر دیکھ لیں، آپ کے قلم کی روشنائی ختم ہوجائے گی، آپ کی سوچ ختم ہوجائے گی لیکن شہید کی کہانی کبھی ختم نہیں ہوگی۔ ان ننھے شہیدوں میں سے کوئی ڈاکٹر بننا چاہتا تھا تو کوئی انجینئر، کوئی حافظ قرآن تھا تو کوئی ماہرسائنس وریاضیات، ہر بچہ ذہین اورہونہار تھا۔ دہشت گرد یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں زیر تعلیم بچہ بچہ مستقبل کا روشن معمار ہے۔
درندگی کا مظاہرہ کرنے سے پہلے دہشت گردوں نے معصوم طلباء سے کبھی ان کی تعلیمی قابلیت پوچھی تو کبھی رشتہ داریاں۔ جب کوئی ننھا شہید بتاتا کہ وہ ڈاکٹربننا چاہتا ہے تواس کے سینے میں گولی ماردی جاتی، جب کوئی کہتا کہ انجینئر بننا ہے تو اس کے سر میں گولی ماردی جاتی یہاں تک کہ حافظ قرآن بچوں کے سینوں پر بھی گولیاں چلا تے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ جس سینے پر وہ گولی ماررہے ہیں اس کے اندر قرآن پاک محفوظ ہے۔
لیڈی ریڈنگ ہسپتال پشاور کی ایک نرس کی سانحہ سے متعلق بتائی ہوئی بات رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی ہے۔ نرس کے مطابق آرمی پبلک سکول کے ایک بارہ تیرہ سال کے بچے کو جب ریسکیو کرکے ہسپتال میں لایا گیا تو اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا، دہشت گردوں کی گولیاں لگنے سے اس کے سر، جسم اور ٹانگوں پر خون ایسے رس رہا تھا جیسے پانی کا نل کھل گیا ہو، باوجود کوشش کے خون رک نہیں رہا تھا، اس تشویشناک حالت میں بھی شدید زخمی بچے کے منہ سے قرآن پاک کی تلاوت کی آواز سنائی دے رہی تھی کیونکہ بچہ حافظ قرآن تھا۔
جوں جوں اس بچے کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی اس کی آواز لڑکھڑانے لگی لیکن اس نے تلاوت نہ چھوڑی یہاں تک کہ وہ بچہ شہید ہوگیا۔ اس واقعہ نے ہسپتال کے ڈاکٹر، نرس اوردیگر عملہ کو خوف میں مبتلا کردیا کہ کس طرح ایک حافظ قرآن بچے نے مرتے دم تک تلاوت نہیں چھوڑی اوردوسری جانب اس کو شہید کرنے والے کس مذہب کے ہیں کہ جنھیں معصوم اور بے گناہ بچوں کو بے دردی سے شہید کرتے ہوئے ذرا بھی رحم نہیں آیا۔
اس تاریخی سانحہ میں دل دہلا دینے والے ایسے بے شمار واقعات رونما ہوئے جنھیں کسی ایک کالم، آرٹیکل، خصوصی ایڈیشن حتیٰ کہ کتابوں میں بیان کرنا بھی ممکن نہیں ہے۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے بچوں کی چہچہاتی آوازیں، مسکراہٹیں ان کے والدین کو آج بھی سنائی دیتی ہیں، کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان کے کانوں میں اب بھی شہید پرنسپل طاہرہ قاضی کی جرات مندانہ آواز گونجتی ہے کہ"پہلے میری جان جائے گی پھر ننھی جانوں کو کچھ ہوگا۔"
دہشت گردوں کی کمر تو اسی وقت ٹوٹ گئی تھی جب سکول کے زخمی بچوں نے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ"آپ ہمیں زخمی بچہ نہیں بلکہ زخمی فوجی سمجھیں۔"ننھے شہیدوں کا لہو اور یادیں آج بھی تازہ ہیں اور ہمیشہ تازہ رہیں گی۔