Barf Ki Qabrain
برف کی قبریں
انگریزوں نے جب سن 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کیا، تو انھیں میدانی علاقوں کی گرمی برداشت نہ ہوسکی، انھوں نے گرمی سے بچنے کے لئے ٹھنڈے علاقوں کی تلاش شروع کردی، اور کرتے کرتے مری کے پہاڑوں تک پہنچ گئے۔ مری کے نزدیک انھوں نے ایک جگہ منتخب کرکے، سن1851ء میں پہلی بیرک(فوجیوں کے رہنے کی جگہ) تعمیر کی، پھراس کے بعد وہاں ایک بڑا چرچ بھی تعمیر کیا جو آج بھی مری میں موجود ہے، اس چرچ کے ساتھ شہر کی مرکزی سڑک گذرتی ہے، جسے مال روڈ کہا جاتا ہے۔
اس طرح ملکہ کوہسار مری جس کی بنیاد برطانوی دور حکومت میں رکھی گئی تھی، کو انگریز دور سے لے کر آج تک ایک منفرد سیاحتی مقام کی حیثیت حاصل ہے، جہاں ہر سال نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی سیاح بھی قدرت کے حسین نظاروں کو دیکھنے وہاں آتے ہیں۔ مری شہر دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباایک گھنٹہ کی مسافت پر واقع ہے، یہی فاصلہ سن 1907ء تک تانگوں پر بیٹھ کر طے کیا جاتا تھا، جس پر دو دن لگ جاتے تھے۔
مری کی تاریخ میں بہت سے اچھے اور بُرے واقعات رونما ہوئے ہونگے، لیکن حال ہی میں جو سانحہ پیش آیا ہے، ملکی تاریخ میں ایسا واقعہ کبھی بھی پیش نہیں آیا۔ اس سانحہ نے پوری قوم کوسوگوارکرکے رکھ دیا ہے۔ چند روز قبل سیزن کی پہلی برفباری جب مری میں شروع ہوئی، توبہت سے بدقسمت افراد نے مری جانے کے پروگرام بنانا شروع کردیئے، جونہی سکولوں، کالجوں میں موسم سرما کی چھٹیاں ہوئیں تولوگ اپنے بیوی بچوں، بزرگوں اور دوستوں کے ہمراہ قدرت کے نظارے دیکھنے کے لئے مری روانہ ہوگئے۔
لیکن انھیں کیا معلوم تھا کہ وہ موت کی ایسی وادی میں جارہے ہیں، جہاں قدرت کے نظارے ان کے لئے موت کا پیغام لیئے کھڑے تھے، حالانکہ محکمہ موسمیات کی جانب سے بارہا مرتبہ تنبیہ کی گئی تھی، کہ مری میں شدید برفانی طوفان آنے والا ہے اس لئے مری کا رخ نہ کیا جائے، لیکن کسی نے بھی اس وارننگ پر توجہ نہ دی اورروائتی انداز میں بغیر کسی پلاننگ، اوربغیرہوٹل کی بکنگ کروائے مری کی جانب روانہ ہوگئے۔
مقامی انتظامیہ کے مطابق مری میں تقریباچار سے چھ ہزار گاڑیوں کی پارکنگ کی گنجائش ہوتی ہے، جبکہ ٹول انتظامیہ کے مطابق سانحہ کے روز ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری میں داخل ہوچکی تھیں۔ گذشتہ جمعہ کی نماز کے بعد برفباری میں اچانک شدت آئی، جوایک بہت بڑے برفانی طوفان کی شکل اختیار کرگئی۔ مری کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ، انھوں نے زندگی میں آج تک ایسا برفانی طوفان نہیں دیکھا تھا۔
برفانی طوفان نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، سڑکوں پر گھڑی گاڑیاں برف میں دھنسنے لگیں، بڑی بڑی لگژری گاڑیوں کے انجن بند ہونا شروع ہوگئے۔ کاریں اوربسیں لوہے کے ڈبوں کی طرح فریج اور کولڈ سٹوریج بن گئیں، گاڑیوں میں سوار افراد کو ایسے لگ رہا تھا جیسے انھیں برف کی قبروں میں ڈال دیا گیا ہو، طوفان کی زد میں آکرکئی درخت گاڑیوں اور راستوں پر گرنے لگے۔ جوں جوں رات کاا ندھیرا چھانے لگا، زندگی کے آثار کم ہونے لگے۔
محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق، ان قیامت خیز دنوں کے دوران 32انچ تک برفباری اور 63 انچ تک بارش ہوتی رہی۔ کُھلے آسمان تلے بے یارومددگاربچے، خواتین، بزرگ گاڑیوں میں دبک کر بیٹھ گئے اور کسی خدائی مدد کا انتظار کرنے لگے، اس دوران کئی اپنے پیاروں کو فون کرکے دعاوں کے لئے کہتے رہے، تو کئی اپنی زندگی کی آخری سیلفی، آخری ویڈیو بناتے رہے۔ ایک طرف لاکھوں گاڑیوں کے ٹول کراس کرنے پر بڑھتی معیشت کی خوشیاں منائی جارہی تھیں، تو دوسری جانب برفانی طوفان میں پھنسے افراد اپنی زندگی کی آخری سانسیں گن رہے تھے۔
اگلی صبح جب چند افراد نے ہمت کرکے مدد کے لئے اِدھر اُدھر نظر دوڑائی، تو انھیں برف کی قبروں میں مردے نظر آنے لگے۔ اس قیامت خیز منظر پر چیخ و پکار شروع ہوگئی، کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہورہا ہے؟ ابھی بھی ان تک مدد نہیں پہنچ سکی تھی، کچھ نوجوانوں نے گاڑیوں میں مردہ افراد کی ویڈیو بنا کر، انٹرنیٹ پر اپلوڈ کی تو یکدم چاروں طرف کُہرام مچ گیا۔ شدیدبرفانی طوفان میں برف میں دھنسی لاکھوں گاڑیوں میں، زندگی کی آخری سانسیں لینے والے افرادکو ریسکیو کرنا، حکومت کے لئے ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا۔
حکومت نے مری کو آفت زدہ قرار دے کر، پاک فوج سے مدد طلب کرلی۔ کچھ مقامی رہائشی برف میں پھنسے افراد کو اپنے گھروں میں لے گئے، پاک فوج کے جوان ہمیشہ کی طرح جان کی بازی لگا کر، لوگوں کو بچانے کے لئے برف کے طوفان کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھنے لگے۔ امدادی سرگرمیاں ابھی بھی جاری ہیں، اب تک20 سے زائد افراد موت کے سفر میں زندگی کی بازی ہار چکے ہیں، جبکہ مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
محکمہ موسمیات کی رپورٹ کے مطابق ابھی بھی مری اور گلیات میں، شدید برفباری اور 50سے 70کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز ہوائیں چلنے کا امکان ہے، جبکہ 10جنوری کے بعد موسم میں بہتری آنا شروع ہوگی۔ اس سانحہ نے بہت سے ایسے سوال کھڑے کردیئے ہیں، جن کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔
حکومت اگر سیاحت کو فروغ دینا چاہتی ہے، تو اسے ہنگامی بنیادوں پر ایسے اقدامات کرنا ہونگے، کہ پھر کبھی مری کے دلکش نظاروں میں برف کی قبریں نہ بن سکیں۔ مری کے راستوں میں ریسٹ ہاوسزکا قیام، ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے سنو، کٹر اور دیگر مشینری اور امدادی ٹیموں کی تشکیل، مری ہوٹل مافیا کے خلاف ایکشن، حد سے زائد گاڑیوں کے مری میں داخلے پر پابندی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔