Khwab Sarab Aur Yoosa Ka Fan
خواب سراب اور یوسا کا فن
صاحبِ کتاب ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن ایک اچھی تخلیق منظر عام پر لانے سے نام پیدا کیا جاسکتا ہے۔ عمارہ علی کی کتاب "خواب سراب" کا فنی و تکنیکی تجزیہ، یوسا کے تصور فن کے تناظر میں، پڑھی جس نے قلم اٹھانے پر مجبور کیا۔ عمارہ علی لیکچرار اردو ہیں اور ان دنوں اردو میں ڈاکٹریٹ کر رہی ہیں۔ کتاب ہذا ان کے ایم۔ فل کا مقالہ ہے جسے بہت عرق ریزی سے لکھا گیا ہے۔ اس میں انہوں نے انیس اشفاق عابدی (لکھنؤ والے) کے ناول "خواب سراب" کا فنی و تکنیکی جائزہ یوسا کے تصورِ فن کے تناظر میں کیا ہے۔ راقم کا ایم۔ فل کا موضوع تحقیق بھی انیس اشفاق تھے اس لیے بھی عمارہ علی کی کتاب کچھ دلچسپ لگی۔
یوسا اور انیس اشفاق دونوں ہی ہمہ جہت شخصیات ہیں۔ دونوں نے ہی ادب کے سبھی چشموں سے پانی پینے کی کوشش کی ہے۔ یوسا ایک ادیب، کالج پروفیسر، صحافی اور سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگار، ڈراما نگار، انشائیہ نگار، افسانہ نگار، مضمون نویس اور نظری نقادکے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جادوئی حقیقت نگاری کے حوالے سے وہ کافی متحرک نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے مارکیز کے ساتھ مل کر کئی مباحثے بھی کروائے۔ ان کے کئی ایک تنقیدی مضامین چھپ چکے ہیں۔ فکشن میں بھی کافی نام پیدا کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب "نوجوان ناول نگار کے نام خطوط" میں ناول کے فنی و تکنیکی رموز کو بیان کیا جو کسی بھی ناول نگار کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
یوسا کے فنی عناصر ترکیبی درج ذیل ہیں:
1۔ اسلوب
2۔ راوی اور بیانیہ مکان
3۔ زمان یا وقت
4۔ حقیقت کی سطحیں
5۔ انتقالات
6۔ چینی ڈبے
7۔ پوشیدہ حقیقت
یوسا کا خیال ہے کہ ایک اچھے ناول نگار کا تھیم طبع زاد ہو۔ اس نے کسی سے اخذ نہ کیا ہو۔ تجربے سے پیدا ہواور وہ ناول نگار کو داخلی سطح پر متحرک کرے۔ اس کے علاوہ اس میں گہرائی بھی ہو۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک اچھے ناول نگار کا ذاتی اسلوب ہونا بہت ضروری ہے۔ ناول کا راوی غیر جانبدار ہو۔ وہ کہانی میں مخل نہ ہو۔ اس کی آمریت عیاں نہ ہو۔ یوسا کی بیان کردہ ایک تکنیک "پوشیدہ حقیقت" کافی دلچسپ ہے اور کارآمد بھی۔ وہ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ایک ناول نگار کے لیے (طوالت سے بچنے کے لیے) اس تکنیک کا استعمال بے حد ضروری ہے۔ پھر یہی تکنیک ناول نگار کو فن حذف اور اختصار و اعجاز کی طرف لے جاتی ہے۔ یوسا کی تمام تر ہدایات پر مفصل بات چیت مجھے بھی طوالت کی طرف لے جائے گی۔
انیس اشفاق بھی ایک بہترین شاعر، نقاد اور مترجم ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگار اور افسانہ نویس ہیں۔ دکھیارے، پری ناز اور پرندے، خواب سراب ان تینوں ناولوں میں انیس اشفاق نے ایک جیسی تکنیک کو ہی برتا ہے۔ ناول خواب سراب ہادی رسوا کے ناول امراؤ جان ادا کا تسلسل ہے۔ آخر انیس اشفاق اس تسلسل کی طرف کیوں بڑھے؟ ہادی رسوا نے امراؤ جان ادا کے اصل قصے کو چھپایا، اسے شائع نہیں کیا۔ اصل قصے میں امراؤ جان ادا صاحبِ اولاد ہیں۔ خواب سراب کا بنیادی تھیم امیرن کی اولاد اور رسوا کے اصل قصے کو دریافت کرنا ہے۔ یہ سب کچھ دریافت کرتے کرتے انیس اشفاق نے بہترین تکنیکوں اور فن کا استعمال کیا ہے۔ عمارہ علی نے اس تحقیقی کام کو بخوبی سر انجام دیا ہے۔
مصنفہ نے پہلے باب میں یوسا کا نظریہ فن پیش کیا ہے جس کو پڑھ کر قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دوسرے باب میں انیس اشفاق کا تعارف بیان کیا گیا ہے اور خالی گوشے پر کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ تیسرے باب میں تکنیک کے تجربات راوی، زمان و مکان، سطح حقیقت اور انتقالات پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ چوتے باب میں اظہار کے سانچوں پر اظہار خیال کرکے آخر میں ایک تحقیقی محاکمہ پیش کیا گیا ہے۔ موضوع کا انتخاب، مطالعہ، تحقیق اور تسوید یہ تمام مراحل بہت مشکل ہیں، لیکن عمارہ علی اور ان کی نگران مقالہ ڈاکٹر نجیبہ عارف کی محنت کی بدولت ایک بہترین تحقیق اور تنقید قارئین کو دستیاب ہوئی ہے۔
عمارہ علی کے اس مقالہ کا شمار متنی تنقید میں ہوتا ہے۔ یوسا اور انیس اشفاق فکشن نگاری کے حوالے سے ایک جیسا خمیر رکھتے ہیں۔ دونوں نے حقیقتوں کو آشکار کیا ہے لیکن جہاں ضرورت محسوس کی وہاں حقائق کو پوشیدہ بھی رکھا۔ کتاب ہذا ایک مضبوط تحقیق اس حوالے سے بھی ہے کہ مصنفہ نے مستند حواشی و حوالہ جات کا سہارا لے کر اسے مکمل کیا ہے۔ لفاظی بہت عمدہ ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمارہ علی ایک تگڑے ڈکشن کی مالک ہیں۔ بے جا طوالت قاری کو بوریت کی طرف لے جاتی ہے جبکہ عمارہ علی نے اختصار و اعجاز سے کام لیتے ہوئے جزئیات نگاری کی ہے۔ پہلے باب میں سرا سر تاریخ نگاری اور دوسرے میں شخصیت اور تاریخ نگاری کا امتزاج ہے۔ بعد کے ابواب میں فن ناول نگاری اور ناولی تکنیکوں پر بات کی گئی ہے۔ قاری کو گمان ہوتا ہے کہ وہ ایک سپر اسٹور میں کھڑا ہے جہاں پر اسے دنیا و مافیہا کی تمام اشیاء دستیاب ہیں۔ سائنس، ادب، تاریخ، تحقیق اور تنقید کا یہ سرچشمہ بہر حال اردو ادب میں ایک نیا اضافہ ثابت ہوگا۔
عمارہ علی کا اسلوب نرالا اور جاندار ہے۔ وہ جملہ سازی اور انتقال مفہوم کا فن جانتی ہیں۔ ان کے اندر تحقیقی شعور اور تنقیدی حس موجود ہے جس سے ان کا فکشن سے لگاؤ قاری کے سامنے آ جاتا ہے۔