Begmat Ke Aansu
بیگمات کے آنسو
خواجہ حسن نظامی کے نام سے کون واقف نہیں ہے۔ ان کی نثر میں سادگی کا ذائقہ اور تصوف کی خوشبو بہرحال پائی جاتی ہے۔ بلکہ نثر میں تصوف کے حوالے سے ان کا نام فہرست میں سب سے پہلے آتا ہے۔ "بیگمات کے آنسو" میں آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عیال کی غمگین کہانیاں ہیں۔ اس خاندان کے در بدر ہونے کے قصے ہیں۔ 1857 کے غدر کے بعد ان شہزادیوں کے بے گھر ہونے کو آنسوؤں سے لکھا گیا ہے۔
نظامی صاحب کی تمام کہانیاں اس بات کی شاہد ہیں کہ انہیں لال قلعہ خالی ہونے کا افسوس ہے۔ اس لال قلعے کی تمام رونقیں برباد ہو چکی ہیں۔ کبھی لال قلعے سے راشن تقسیم ہوتے تھے لیکن اب اس کے مقیم گلیوں، بازاروں میں ایک وقت کی روٹی کے لیے آوازیں لگانے پر مجبور ہیں۔ ریشم پہننے والے اب پھٹے پرانے کپڑوں میں بھکاری بن کر بغیر منزل کے سفر پر نکل پڑے ہیں۔ لال قلعے کو منہدم کر دیا گیا ہے۔
خواتین جو کبھی محل کی چاردیواری میں باپردہ نظر آتی تھیں اب ان کے بال نوچے جا رہے ہیں۔ انہیں پیٹ پالنے کی فکر لاحق ہے۔ گھروں میں نوکروں پر حکم چلانے والی شہزادیاں اب خود نوکروں سے بدتر نظر آتی ہیں۔ نظامی صاحب نے تصوف اور تاریخ کو شعوری طور پر قاری کے سامنے رکھ کر احتجاج کیا ہے۔ واقعات وہی ہیں جنہیں سب لکھاریوں اور مورخین نے پہلے بھی کتابی شکل عطاء فرمائی ہے لیکن نظامی صاحب کا اسلوب قدرے آسان اور دلفریب ہے۔ سیدھے اور سادہ انداز میں ہر اک سچائی کو بیان کیا گیا ہے۔
خواجہ صاحب کی قابلیت اور ان کے ادبی قد کاٹھ پر کوئی شک و شبہ نہ ہے، لیکن راقم کو اردو ادب کا ایک سنجیدہ قاری ہونے کے ناطے سے ان کی تمام کہانیوں اور موضوعات میں یک رنگی و یک رخی نظر آئی ہے۔ ہر کہانی کے ہر عنوان میں لفظی تکرار اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ ہر عنوان کے اندر لفظ "شہزادہ"، "شہزادی"، یا "شہزادے" کا موجود ہونا کہانی کے عنوان سے اس کی کشش اور جاذبیت کو چھین لینے کے مترادف ہے۔ ہر قصے کے اندر موضوعاتی تکرار بھی موجود ہے، جس وجہ سے کہانیوں کے اندر کہانی پن جیسا وصف ناپید ہوگیا ہے۔
پہلی کہانی جس موضوع پر لکھی گئی ہے اس سے اگلی کہانی میں بھی سابقہ موضوع کو تھوڑی بہت ردوبدل یا لفظی ہیر پھیر کرکے بیان کیا گیا ہے جس سے قاری اکتاہٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ مصلے، مسجد، مکہ مکرمہ اور نماز کا ذکر بھی موجود ہے جس سے ان کی تصوف اور مذہب سے عقیدت تو نظر آتی ہے لیکن اس معاملے میں بھی نظامی صاحب لفظی تکرار سے نہ بچ سکے۔
ممکنہ طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب افسانے عجلت میں لکھے گئے ہوں۔ یا پھر اضطرابی کیفیت کے اندر ڈوب کر غم و غصے کا اظہار کیا گیا ہو۔ میری رائے میں اگر سبھی کہانیوں کو یکجا کرکے ایک ناولٹ کی شکل عطاء کر دی جاتی تو ایک زیادہ معتبر شے قاری کے ہاتھ میں ہوتی، کیوں کہ سبھی کہانیوں کا اساسی تھیم "Basic theme" ایک ہی ہے اور انہیں ایک ہی عنوان کے تحت لکھا جانا زیادہ بہتر ہو سکتا تھا۔
میری سب سے پسندیدہ کہانی "ایک شہزادی کی بپتا" ہے۔ اس قصے میں بہادر شاہ ظفر کی بیٹی بغیر کسی منزل کے گھر سے نکل پڑتی ہے۔ بالآخر وہ مکہ مکرمہ پہنچ جاتی ہے۔ نہ ہی تو اس کے پاس کچھ کھانے پینے کو ہے اور نہ ہی تن ڈھانپنے کو۔ ایسی صورتحال میں اسے مکہ مکرمہ میں اس کے سابقہ نوکر مل جاتے ہیں جو کہ اب کاروباری لوگ ہیں۔ انہوں نے اس کا ماہانہ وظیفہ مقرر کر دیا۔
البتہ سبھی کہانیوں میں ایسے ہی قصے بیان کیے گئے ہیں۔ تحیر اور استعجاب کی ملی جلی کیفیت نے خواجہ حسن نظامی کے بیانیے کو اور زیادہ تقویت بخشی ہے۔ یوں گمان ہوتا ہے کہ خواجہ صاحب چھوٹے بچوں کو پاس بٹھا کر چھوٹی چھوٹی داستانیں سنا رہے ہیں۔
غدر نے ہر طرف تباہی مچائی تھی اور اس تباہی کا تعلق محض انسانی برادری سے نہیں تھا۔ اس سے جانور، پرندے، درخت اور عمارتیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔ اب اس تاثر سے نظامی صاحب دل برداشتہ نظر آتے ہیں۔ انہیں دہلی سے پیار تھا اور دہلی کو ان کی آنکھوں کے سامنے خلط ملط کیا گیا۔ بے چاری ست جگی کو کئی بار تہس نہس کیا گیا۔ اس سے دہلی کے باسیوں کے دلوں میں مایوسی کی گھاس اگنے لگ گئی لیکن کوئی بھی اپنا مسکن چھوڑنے کو تیار نہ تھا۔
خواجہ صاحب نے دل کی باتوں، جگر سوختہ کی کیفیت، بے پردگی و افسردگی، ظلم و بربریت وغیرہ کو ان کہانیوں میں فلمانے کی کوشش کی ہے۔ البتہ یک رنگی اور یک رخی بہرحال جابجا موجود ہے۔ جو خواتین سیج پر انگڑائیاں لیتی تھیں، باغوں کی سیر کرکے جی بہلاتی رہیں، محلوں سے نکل کر جھونپڑیوں میں پہنچ گئیں۔ یہاں تک کہ کچھ تو بھوک کی وجہ سے اجل کی گود میں گر گئیں۔
انہوں نے اللہ سے شکوے بھی کیے کہ ان کے مقدر کو کیوں سلا دیا گیا ہے۔ نظامی صاحب کی ان کہانیوں میں عبرت ہے۔ بادشاہ گدائی کے گڑھوں میں گر گئے۔ بے گھر ہو گئے۔ جیلوں میں پھینک دیے گئے۔ قاری ان کہانیوں سے عبرت اور نصیحت پکڑ سکتا ہے۔ اس افسانوی مجموعے کے کردار شخصی تو ہیں لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کہیں نظامی صاحب خود تو کسی کردار میں نہیں چھپے ہوئے؟ وہ کرداروں کو مثالی بنا کر پیش نہیں کر سکے بلکہ انہیں ان کی اوج سے نیچے گرا کر اس قدر مظلوم بنایا گیا ہے کہ وہ حقیقی کردار نہیں لگتے۔ بہرحال نظامی صاحب نے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔