Tarfen Rakhe Hai Aik Sukhan Chaar Chaar Meer
طرفیں رکھے ہے ایک سخن چار چار میر
حفیظ خان سے یاد اللہ کم و بیش بیس برس پر محیط ہے۔ ان برسوں میں ان کی شخصیت کی نو بہ نو اور تہہ دار پہلو دیکھے۔ تشکیلی دور میں ان کا بنیادی حوالہ ایک منصف کا تھا، جہاں وہ متعدد کلیدی عہدوں پر فائز رہے۔ لیکن اس سے بہت پہلے وہ ادب کے خار زار میں اتر چکے تھے۔ 1971ء میں انہوں نے اردو اور سرائیکی کہانیاں لکھنا شروع کیں اور معروف جریدوں میں چھپنے لگے۔
1975ء میں ریڈیو بہاول پور کا قیام عمل میں آیا تو سرائیکی اور اردو ڈرامے لکھنے لگے۔ بعد ازاں ریڈیو ملتان سے بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ ایک ڈراما نگار کے طور پر اور اس وقت جب سرائیکی میں ڈراما ابھی ہاؤں پاؤں چلنا شروع ہوا تھا۔ ان کے اولین ڈرامے "کچ دیاں ماڑیاں" نے خاصی شہرت اور قبولیت آمیز مقبولیت حاصل کر لی تھی۔ اس کے بعد ان کے سرائیکی افسانوں کا مجموعہ "ویندی رت دی شام" شائع ہوا۔ اس طور ایک کہانی کار اور ڈراما نگار کے طور پر ان کی شناخت مستحکم ہو چکی تھی۔
اسی دوران انھوں نے بچوں کے لیے بھی ریڈیو ڈرامے لکھے جن کے انتخاب "خواب گلاب" اور "ماما جمال خان" کے عنوان سے شائع ہوئے۔ اس طرح انہوں نے ادبیاتِ اطفال کے زمرے میں بھی اپنا نام لکھوا لیا۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے افسانے کو بھی اپنے تخلیقی مزاج کے لیے موزوں پایا اور متعدد اردو اور سرائیکی افسانے لکھ ڈالے۔ اس ضمن میں ان کے مجموعے "اندر لیکھ دا سیک" اور "یہ جو عورت ہے" ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔
یہ کہانی کا فیضان ہے کہ اس نے ہمیشہ اس خطے پر راج کیا۔ کیوں کہ کہانی مقامی آدمی کی تاریخ ہے جب کہ نصابی تاریخ تشکیلی حقیقت (Hyper Reality) کے تحت پروان چڑھنے والی قبضہ گیر کی فتوحات کا سلسلہ ہائے دراز ہے۔ تاریخ وہی معتبر کہلائے گی جس میں مفتوح اور حاشیائی فرد کو مرکز میں لایا جائے گا۔ اس حوالے سے ان کی تاریخ "ملتان نصف جہان" دیکھی جا سکتی ہے جس میں تاریخ کو غیر کی بجائے مقامی آنکھ سے دیکھا گیا ہے۔ کافی بھی درباری تاریخ کی بجائے متوازی عوامی تاریخ کا ایک درشن ہے۔ سندھ وادی میں ہزار سالہ کافی کی تاریخ پر پہلا منضبط کام حفیظ خان کا ہی دکھائی دیتا ہے۔ اس حوالے سے ان کی کتاب "کافی: سندھ وادی کی شعوری تاریخ" معرکہ آرا کتاب ثابت ہوئی ہے۔
کہانی کی دیوی حفیظ خان پر مہربان ہو چکی تھی۔ چناں چہ انھوں نے یکے بعد دیگرے سات اردو اور دو سرائیکی ناول کہانی کے محبتیوں کو دان کیے۔ حفیظ خان کے قدم چوں کہ اسی زمین میں پیوست ہیں اس لیے ان کی کہانیاں اسی خطے کی نمانٹرتا اور مزاحمت کو زیر بحث لاتی ہیں۔ مزید برآں تریمتائیت (Fiminism) ان کی کہانیوں کا ایک نمایاں اور بنیادی موضوع ہے۔ حفیظ خان نے کہانی کو بھی پہلو بہ پہلو رکھا اور اپنے لیے کئی اور نئی دنیائیں دریافت کرنے لگے۔ یہ نئی دریافتیں شاعری، تنقید، تحقیق، ترجمہ، صحافت اور کالم کی صورت میں جلوہ گر ہوئیں۔
ان کی کتب شماری کی جائے تو اب تک ان کی تعداد 53 ہے۔ ان کتب کی تصنیف میں انھوں نے متعین کردہ معائیر کو پیش نظر رکھا۔ ناقابل یقین حیرت ہوتی ہے کہ منصفی جیسی بے انتہا مصروف اور تھکا دینے والے ملازمت کے باوجود انھوں نے اتنا کام کر ڈالا۔ ندا فاضلی ایسے مہا کوی نے شاید ایسے لوگوں کے بارے میں ہی کہا تھا۔
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
کلاسیکی دور میں یک فن ہونا عیب تھا، اس لیے ہمارے ادیب دیگر اصناف میں بھی طبع آزمائی کرتے تھے۔ حفیظ خان نے بھی اس رمز کو پا لیا اور ادب کی مختلف جہتوں پر کام کیا۔ انھوں نے شاعری، تاریخ، تحقیق، تنقید، ترجمہ، صحافت اور دیگر اصناف میں جم کر طبع آزمائی کی۔ ان کا کام دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ اپنی ذات میں ایک ادارہ ہیں۔
2004ء میں ان سے ہونے والی شناسائی دو طرفہ عزت آمیز دوستی میں بدلی۔ اُس دور میں وہ سرگودھا میں ایڈیشنل سیشن جج تعینات تھے۔ اور میں ان دنوں ایک جریدے کی مشینی کتابت کیا کرتا تھا۔ کبھی کبھار دفتری امور سے فراغت کے بعد "باہرلے" کام بھی کر لیا کرتا۔ ایک دن سر رفعت عباس نے مجھے حفیظ خان سے ملنے کے لیے کہا۔ چناں چہ دن اور وقت طے ہوگیا۔ ہم ان کی قیام گاہ واقع سخی سلطان کالونی پہنچے تو وہاں کچھ دیر بعد تصویر کو تجسیم کرنے والے معروف مصور ذوالفقار بھٹی اور ہم سب میں سب سے زیادہ زندہ شخص شمیم عارف قریشی (جنت مکانی) بھی پہنچ گئے۔ ان کی آمد اور گفتگوؤں نے سماں باندھ دیا۔
حفیظ خان بڑی گرم جوشی اور تپاک سے ملے۔ رفعت عباس نے بتایا کہ یہ ہیں حفیظ خان صاحب۔ کہانی کار ہیں، کالم نگار ہیں، شاعری کر چکے ہیں، ڈرامے لکھ رکھے ہیں جو ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ بھی ہو چکے ہیں۔ میں اُن کا نام پہلے سن چکا تھا اور اُن کی کچھ تحریریں بھی پڑھ چکا تھا۔ ملنے کا اشتیاق تھا۔ رفعت صاحب نے میرا تعارف کرایا تو بہت خوش ہوئے۔ کہنے لگے میں ایسے نوجوانوں کی دل سے قدر کرتا ہوں، جنھیں ادب سے تھوڑا بہت لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ میری حفیظ خان سے پہلی ملاقات تھی۔ اور یہ ملاقات آئندہ دو دہائیوں سے اب تک کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔
اس کے بعد حفیظ خان سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا۔ وہ چوں کہ علم دوست شخصیت ہیں اس لیے وہ تب بھی اپنے آپ کو علمی مصروفیات میں مشغول رکھتے تھے۔ میری جب بھی ان سے ملاقات ہوتی، وہ کسی علمی کام میں مصروف ہوتے۔ کبھی کسی کتاب کی حروف خوانی۔ کبھی مسودے کی ترتیبائی اور کبھی پیش لفظ لکھ رہے ہیں۔ گویا:
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک
انھیں کسی طرح معلوم ہوا کہ میں کمپوزنگ کرتا ہوں تو وہ خوش ہوئے اور سرائیکی ڈراموں کی ایک کتاب "کوئی شہریں جنگل کوکدا" کا مسودہ دیتے ہوئے کہا کہ اب مجھے کوئی پریشانی نہیں کہ میرا کام "غلطی ہائے مضامیں" سے قدرے مبرا ہوگا۔ میری کوشش ہوتی تھی کہ کمپوزنگ سے پہلے مسودہ پڑھ لوں۔ چناں چہ اسے پڑھنا شروع کیا تو اس کے اسلوب، زبان اور کرداروں کی پیش کش نے بہت متاثر کیا۔ زبان کی چس رس نے کئی دنوں تک اپنے حصار میں لیے رکھا۔ یہ ٹیلی ڈراما تھا جو پی ٹی وی پر نشر ہو کر قبولیتِ عام حاصل کر چکا تھا۔ میں کسی سرائیکی مسودے کی پہلی بار کمپوزنگ کر رہا تھا اور inpage کا سرائیکی ورژن نہ ہونے کے باوجود بھی مجھے سہولت رہی۔ حفیظ خان نے کتابت شدہ مسودہ دیکھا تو انھیں خوش گوار حیرت ہوئی۔ چناں چہ انھوں نے مارکیٹ سے کہیں زیادہ معاوضہ دیا اور کہا کہ اب ان کی ہر کتاب میں ہی کمپوز کروں گا۔
وہ ویک اینڈ پر ملتان آتے اور اتوار کا دن ہماری ملاقات کے لیے مختص تھا۔ وہ چوں کہ سحر خیزیے تھے اس لیے علی الصبح فون کرتے کہ کسی وقت ان کے پاس چلا جاؤں۔ میں فراغت پاتے ہی ان کے پاس پہنچتا تو وہ خود گیٹ پر آتے اور ہم ڈرائنگ روم میں کافی دیر تک جگ جہان کی باتیں کرتے۔ کھانا اور چائے کے دور چلتے۔ وہ حروف خوانی کے بعد مسودہ میرے حوالے کرتے تاکہ اس میں رہ جانے والی اغلاط کی درستی کر لوں۔ اس دوران میں، میں استاد ابو میسون اللہ بخش سے پیسٹنگ (Pasting) بھی سیکھ چکا تھا تو حفیظ خان کی کچھ کتابوں کی کمپوزنگ کے ساتھ ساتھ پیسٹنگ بھی کی۔ سرائیکی ڈرامے کے علاوہ "یہ جو عورت یے"، "حفیظ خان کی کہانیاں"، "پٹھانے خان"، "اس شہر خرابی میں" اور "حفیظ خان کی تخلیقی جہتیں" سمیت کچھ دیگر کتب اور متعدد مضامین کی صاف کمپوزنگ کی۔
میں ان دنوں ایم اے اردو کر رہا تھا۔ وہ نصاب سے متعلقہ کتابیں بھی دیتے اور رہنمائی بھی کرتے کہ نصابی متن کو مقامی دانش و فکرکے ساتھ ملا کر پڑھوں تو اس میں چاشنی آئے گی اور ایسا ہی ہوا۔ مجید امجد کو پڑھتے ہوئے اشو لال کی ماحولیاتی تناظر میں لکھی گئی نظمیں یاد آتیں۔ رفعت عباس، عزیز شاہد، عاشق بزدار، شمیم عارف قریشی اور حفیظ خان کے متعدد متون آنکھوں کے سامنے آ جاتے۔ ایم اے کے بعد میں مزدوج ہوگیا۔ وہ اپنی منصفانہ مصروفیت کے باعث اگرچہ شادی میں شریک نہ ہو سکے لیکن بعد ازاں اس کی "تلافی" کی۔
2009ء میں جب میری لیکچرار کے طور پر تعیناتی ہوئی تو بہت خوش ہوئے۔ میں انھیں مٹھائی دینے گھر گیا تو ان کی خوشی دیدنی تھی۔ یہ ایک تل وطنی کی باہمی محبت و شفقت تھی جو جھلک رہی تھی۔ ملازمت اور شادی کے بعد میں دار بنی ہاشم سے کرائے کے ایک مکان میں منتقل ہوگیا اور وہ اسلام آباد کسی اہم عہدے پر تعینات ہو گئے تو پہلے جیسا رابطہ نہ رہا لیکن لیکن دلوں میں محبت موجزن رہی۔ ان کی علمی سرگرمیوں سے جانکاری برابر رہی۔ اس دورانیے میں انھوں نے کافی کام کیا۔ سرائیکی ناول "آدھ ادھورے لوک" اور "مرما جیون دی" کے بعد اردو ناول" انواسی"، "کرکناتھ"، "منتارا"، "حیدر گوٹھ کا بخشن" اور "وجود" لکھے۔ گزشتہ دنوں ان کا ایک اور ناول " ہر ایک جنم کی جانما" بھی منظر عام پر آ چکا ہے۔ ان ناولوں کی بدولت ملتان میں اردو ناول کی روایت خاصی مستحکم ہوئی ہے۔
میں گزشتہ ماہ دوست ڈاکٹر اورنگ زیب نیازی کے ہمراہ حفیظ خان کے ہاں پندرہ برس بعد جانا ہوا تو وہی حسب سابق شگفتہ آمیز وارفتگی اور بے ریا خلوص موجود تھا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ منصفی جیسی کُل وقتی ملازمت کے باوجود بھی قلم و قرطاس سے منسلک رہے۔ تمام تر مسائل کے باوجود یہ انسلاک جاری رہا اور ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔