Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ilyas Kabeer
  4. Liaqat Ali Ki Fasoon Sazi

Liaqat Ali Ki Fasoon Sazi

لیاقت علی کی فسوں سازی

(2009ء میں ملتان کے معروف کہانی کار لیاقت علی کے پہلے مجموعے "پلیٹ فارم" پر ایک تعارفیہ لکھا تھا جو بہاول پور کے ادبی جریدے "الزبیر" میں شائع ہوا)۔

کوئی پانچ برس اُدھر کی بات ہے۔ میں پہلی بار اردو اکادمی کے ہفتہ وار تنقیدی اجلاس میں شرکت کے لیے مقامی کالج گیا تو وہاں ایک "مبینہ نوجوان" افسانہ پڑھ رہا تھا اور شرکاءِ اجلاس محوِ سماعت تھے۔ افسانے کا نام تو مجھے یاد نہیں کیوں کہ میں دیر سے پہنچا تھا۔ لیکن افسانے کا پلاٹ، کہانی کی بُنت، الفاظ کا در و بست اور خیالات کا تموج مجھ ایسے طالب علم کے لیے بہرحال حیران کن تھا۔ افسانہ ختم ہوا تو صاحبِ صدر نے شرکاء کو افسانے پر تنقید کی دعوت دی۔ پہلے کچھ دیر تو خاموشی چھائی رہی۔ بعد میں شرکاء نے افسانے پرگفتگو کا آغاز کیا۔ نعیم چودھری نے گہری سانس اور ٹھنڈی آہ ایک ساتھ بھرتے ہوئے افسانے کے ایسے ایسے مخفی گوشے بیان کر دیے جو افسانہ نگار کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ اس افسانہ نگار کا نام تھا لیاقت علی اور افسانہ تھا "پلیٹ فارم"۔ یہ لیاقت علی سے میرا پہلا تعارف تھا۔

لیاقت علی کا شمار ملتان کے ان نوجوان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جو قلیل مدت میں اپنے منفرد اسلوب کی بنا پر شناخت قائم کر چکے ہیں۔ وہ جدید افسانوی ادب پر سرسری نہیں بلکہ عمیق نگہی رکھتے ہیں۔ یہ سب ان کی فن کے ساتھ گہری وابستگی اور دلبستگی کا ثمر ہے کہ آج یہ فن کار زیادہ لکھنے کی بجائے کم لکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ زیادہ برا لکھنے سے بہتر ہے کہ کم اچھا لکھا جائے کیوں کہ مقدار کی بجائے معیار ہی فن کار کا مقام و مرتبہ متعین کرتا ہے۔ کہانی کیا ہے اور اس کی صحیح شکل و صورت کیسی ہونی چاہیے۔ اس بارے میں لیاقت علی کا کہنا ہے:

"ایک ہمہ وقت ذہنی سفر، کسی اَن دیکھے، انجانے سانحے کا وسوسہ، کہیں جیت کے آخری لمحو ں میں اُلٹتی بساط کا ڈر، کہیں خوبصورت راستوں میں پھیلے سراب، کہیں لمحہ لمحہ خواب بُنتی آنکھیں تو کہیں ٹوٹتی، بکھرتی تعبیریں، کیا یہی نہیں ہے کہانی کا مقدر"

لیاقت علی، شہزادگان کے وسائل کی بجائے افتادگان کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے افسانوں میں تیسری دنیا کے باسیوں کی گھمبیرتا ہے کیوں کہ یہ اسی دھرتی کا باسی ہے اور اسے ان سلگتے مسائل کا بخوبی ادراک ہے۔ اس کے لیے قاری کو گرفت میں لینا چنداں مشکل نہیں۔ وہ سلاست کا قائل ہے کیوں کہ افسانے میں مشکل گوئی بہرحال تفہیم کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ علامتی افسانہ لکھنے سے اس لیے بھی حتی الوسع اجتناب کرتا ہے کہ علامتی افسانے میں قاری بھٹکتا پھرتا ہے۔ بعید الفہم ہونا علامتی افسانے کی بڑی رمز ہے۔ اس کے اکثر افسانے بیانیہ طرز پر ہیں۔

افسانوں کی عصری حسیت کو مد نظر رکھتے ہوئے جب یہ الفاظ کو کہانیوں کا روپ دیتا ہے تو الفاظ کی معنویت اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہوتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے حسی اور بے حمیتی کی کتنی تہیں، کتنی سمتیں اور کتنی جہتیں ہیں جن کا فسوں ہر وقت معاشرے کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔ جس نے ہمارے اندر انسانیت چھین کر درندگی بھر دی ہے۔ کرب و اذیت کا وہ کونسا گوشہ اور کونسا لمحہ ہے جس سے ہم درد آشنا نہیں ہوئے۔ ادراک و فہم کا کوئی ایسا گوشہ نہیں جن سے ہم خاطرخواہ استفادہ کر سکیں۔ اپنے ہی وجود کو معتبر کر سکیں۔ اپنی نیستی کو ہستی میں بدل سکیں۔

لیاقت علی، افسانے کی روح میں اور تمام تر فنی تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر لکھتا ہے۔ معاشرے میں بکھرے ہوئے ان گنت مسائل، بے حسی، بے یقینی، اور نہ جانے کون کون سی کٹھنائیں، گھٹنائیں اور الجھنیں ہیں جو معاشرے کی سلجھن میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ لیاقت علی نہ صرف ان کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ ان کا حل بھی پیش کرتا ہے۔ انسان اور معاشرے میں موجود تضاد اس کا خاص موضوع ہے اور وہ اپنے موضوع سے پورا انصاف کرتا ہے۔ اس کے افسانے پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا ترقی سے مایوس نہیں ہے۔ یاس و نامرادی کی کیفیت نہیں بلکہ امید و رجا نظر آتی ہے۔ نئی منزلوں کا متلاشی مایوس نہیں ہوتا بلکہ مسلسل حالتِ سفر میں ہے۔ نتیجتاً روشن منزل اس کے لیے چشمِ براہ ہوتی ہے۔

لیاقت علی کے موضوعات متنوع اور منفرد ہیں۔ یہ روایات سے جڑا ہوا ایسا افسانہ نگار ہے جس نے افسانے کو منفرد جدت کا روپ دیا ہے۔ آپ اس کا کوئی افسانہ پڑھ لیں، اس میں لیاقت علی خود موجود ہوگا۔ کسی نہ کسی صورت میں آپ کو ضرور دکھائی دے گا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کہانی خود اس پر بیت رہی ہے اور یہ اس کی اپنی بپتا ہو۔ "قبریں"، "پلیٹ فارم"، "برزخ"اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ان کہانیوں میں لیاقت علی خود چلتا پھرتا اور بولتا ہوا نظر آتا ہے۔

اس سلسلے میں ڈاکٹر رشید امجد کہتے ہیں:

"وہ کبھی تو ایک ناظر کی حیثیت سے کہانی میں شامل ہوتے ہیں اور کبھی کہانی خود ان پر بیتنے لگتی ہے۔ فرد سے اجتماع اور اجتماع سے ایک بڑے کُل کی طرف جست بھرتے ہوئے وہ اپنے موضوع کو ایک واضح منظر نامے سے جدا نہیں ہونے دیتے۔ "

لیاقت علی کے ہاں جذباتی، ذہنی، نفسیاتی اور معاشی مسائل، اعتدال و توازن لیے ہوئے ہیں۔ چناں چہ ان کے افسانوں سے نہ تو کسی قسم کی جانبداری اور تعصب کا احساس ہوتا ہے اور نہ ہی کسی مقرر کی طرح وہ مخصوص نظریہ کی وکالت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ لیاقت علی نے جہاں رومانی مناظر یا حالات بیان کیے ہیں وہاں انھوں نے معاشرے کے بے حس کردار اور تلخی حالات کو بھی فراموش نہیں کیا۔ ظلم کے خلاف ان کا قلم بگٹٹ چلتا ہے۔

ڈاکٹر انوار احمد نے بڑی خیال انگیز بات کی ہے:

"ایک رومانی خواب پسند کی طرح اور کسی قدر نسوانی یادداشت کے ساتھ اسے اپنے ہم زاد متکلم کے نفسی تجربات سے زیادہ فتوحات بیان کرنے میں لذت ملتی ہے، تاہم اپنے معاشرے کے حوالے سے اس کا مشاہدہ اور نقطہ نظر اسے اپنی عمر کے دوسرے لکھنے والوں سے جدا کرتا ہے۔ "

لیاقت علی کی کردار نگاری کاجائزہ لیا جائے تو ہمیں فطری کردار نظر آتے ہیں۔ ان کے کردار کوئی ماورائی مخلوق نہیں بلکہ اس معاشرے کا حصہ ہیں۔ اسی زندگی کی ہمہ ہمی اور تحرک سے بھرپور۔ یہ کردار سادہ، معصوم، جذباتی اور جنون پرور ہیں جو زندگی کے حشر نشر کے روز افزوں کو اپنی زندگی کا ناگزیر حصہ سمجھ کر گوارا کرتے ہیں۔ معاشرے کی کرب ناک و اذیت ناک حقیقتوں کو لیاقت علی جب افسانوں میں لے آتے ہیں اور انھیں کرداروں کا جامہ پہناتے ہیں تو اس میں دلچسپی کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے جو پڑھنے والے کو بوریت یا تھکان محسوس نہیں ہونے دیتا۔ کرداروں کے انتخاب میں لیاقت علی نے یہ اہتمام کیا ہے کہ کردار کو اس کے مقام و مرتبے کے مطابق لیا ہے۔ "پلیٹ فارم" کا نیازی صاحب ہو یا "اولڈ ہاؤس " کا پروفیسر کبیر اے خان، "گرداب" کا احسان کرمانی ہویا "برزخ " کی فصیحہ، "شاہ جی" اور یا پھر "مکوڑے" کی عالیہ۔ یہ تمام کردار ایسے ہیں کہ مستقبل قریب میں کسی بڑے کردار کی تخلیق کا پتا دیتے ہیں۔

ڈاکٹر نجیب جمال کے بقول:

"میں، لیاقت علی کے افسانوں کے کردار نیازی صاحب، کرم دادبھی، پروفیسر کبیر اے خان اور شاہ جی کو دیکھتے ہوئے ایک بڑے کردار کی تخلیق کے امکانات دیکھ رہا ہوں۔ "پلیٹ فارم"، "کرم داد بھی، "، "اولڈ ہائوس" اور "شاہ جی" جیسے افسانوں کے یہ کردار بذاتہی بھرپور تشخص رکھتے ہیں اور یہ ہماری تہذیبی اور معاشرتی پس منظر کے زندہ کردار بھی ہیں۔ اس سلسلے میں میرا گمان بے حد یقین ہے کہ مشرق میں سانس لیتے ہوئے ایک فنکار کو اپنے طرزِ احساس کے ساتھ ہی زندہ رہنا چاہیے۔ ویسے بھی مغرب سے کسی طرح کے تعلق خاطر کے بغیر وہاں کے تجربوں کو اوپری سطح پر تو محسوس کیا جا سکتا ہے پوری سچائی کے ساتھ نہیں۔ "

"پلیٹ فارم" لیاقت علی کا نمائندہ افسانہ ہے۔ اس میں لیاقت علی نے اپنے فن کو تخلیقی سطح پر پوری لیاقت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اس کے جملوں میں تخلیقیت، اس کے وسعتِ مطالعہ اور زبان و بیان پر مکمل گرفت کا پتا دیتی ہے۔ وہ تلخ بات کو بھی شکر آمیز کر دیتے ہیں۔ مثلاً:

٭ "لوگ اولاد پیدا کرتے ہیں تم نے باپ پیدا کرلیا ہے۔ "("پلیٹ فارم"، ص53)

٭ "یوں بھی میری اچھائی کی سند مسز رفیق کی وہ مہر ہے جو کسی مجرم پر بھی ثبت ہوجائے تو وہ محرم قرار پاتا ہے۔ "(" اُلٹی قمیض"، ص 77)

٭ "اب محلے میں کوئی شاہ جی بھی تو نہیں رہتے جو جھکی گردن کے خم کو سیدھا کرکے دلوں سے یہ تاسف صاف کرسکیں۔ "("شاہ جی" ص154)

"پلیٹ فارم" کا نیازی صاحب ایک شفاف، اُجلے کردار اور خودداری کا پیکر ہے۔ اس میں مشرقی تہذیب کا رچاؤ اور فکری روایات کا پورا عکس نظر آتا ہے۔ ایسے کردار ہمارے معاشرے میں بہت کم نظر آتے ہیں۔ جو تنگ دست رہ کر بھی دوسروں کی ضروریات پوری کریں اور نہ ہی کسی کے سامنے دستِ سوال دراز کریں، یہ اصل میں حساس دل کے مالک ہوتے ہیں اس لیے کسی کو پریشان نہیں دیکھ سکتے۔ نیازی صاحب ہمارے معاشرے سے جڑا ہوا ایسا کردار ہے جو معاشرتی اور سماجی تعلقات کو نبھانا اور معدوم ہوتی روایات کو زندہ کرنا گویا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا ہے۔ وہ کسی طور پر اپنے اصولوں سے منحرف نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس سلسلے میں کسی قسم کی مصلحت کا شکار ہوتا ہے۔

جبھی تو وہ اپنے ملازم (واحد متکلم) کو چھٹی کرنے پر ایک دن کی تنخواہ کاٹ لیتا ہے۔ نیازی صاحب ایک عجیب و غریب کردار ہے۔ ہر روز ایک نئے روپ میں نظر آتا ہے۔ ایک نئے زاویے اور ایک نئے فن کے ساتھ۔ وہ ہرفن مولا ہے۔ کبھی تو وہ ریلوے سٹیشن کی برقی رَو بحال کر رہا ہوتا ہے تو کبھی کسی ریڈیو کی مرمت اور کبھی وہ موسیقی کا ماہر اور رسیا نظر آتا ہے۔ وہ دور اندیش اتنا ہے کہ نااہل قاری کو کتابیں فروخت کرنا اپنی توہین سمجھتا ہے۔ اس کے گرد ہر وقت مطلبی اور خود غرض "دوستوں" کا جمِ غفیر رہتا ہے جو اس کے پاس صرف چائے پینے کے لیے آتے ہیں لیکن نیازی صاحب ہیں کہ:

"گاہکوں کی آمد پر تیوری چڑھ سکتی تھی، دوستوں کے معاملے میں ان کے ماتھے پر کبھی بل نہ آیا۔ اِدھر کوئی دوست ان کے پاس آتا اُدھر محسوس ہوتا جیسے اُن میں کسی نے کوئی انجانی توانائی بھر دی ہو۔ " ("پلیٹ فارم"، ص61)

"پلیٹ فارم"ایک بھرپور زندگی کا عکاس افسانہ ہے۔ پلیٹ فارم پر گاڑیوں کا شور، خوانچہ فروشوں کی آوازیں، مسافروں کی دھکم پیل اور بھاگ دوڑ، گاڑی پہنچے پر ریلوے کے مستعد ہوتے اہلکار یہ سب زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ایک چلتا پھرتا معاشرہ اور حرکت کرتے معاشرے میں محرک افراد، افسانے کا موضوع ہے۔ بقول ڈاکٹر انواراحمد:

"لیاقت علی کا "پلیٹ فارم" ساکت نہیں متحرک اور مرتعش ہے۔ اس پر زندگی کی ہمہ ہمی اور مصرورفیت کا منظر، خوبصورت یادوں کے ساتھ ایک عجیب نگار خانہ بناتا ہے۔ "

افسانے کااذیت ناک اور کرب ناک اختتام ملاحظہ کریں:

"بیٹیاں ہیں نہ اُن کی، جہاں نیازی کے دو ادارو کا بندوبست کرتی رہیں وہیں اس بے غیرت بھائی کو پال لیں گی۔ "

قریشی صاحب کے اس تلخ جواب نے ایک لمحے کو جب میرے سر پر کوئی بجلی سی آن گرائی ہو جو میرے پورے وجود کو جھنجھوڑتی ہوئی پاؤں کے تلووں سے نکل گئی۔

"بیٹیاں کیا کرتی ہیں اُن کی؟"

میں نے تھوک نگلتے ہوئے بمشکل پوچھا:

"کیا کرتی ہیں! "

"اولڈ ہاؤس " ہمارے روشن خیال طبقے کی ایسی کہانی ہے جو اپنے بزرگوں کو " عضو معطل" سمجھتے ہیں۔ لیکن نئے رشتوں میں منسلک ہونے کے لیے اِسی "عضو معطل" کی ضرورت ہوتی ہے:

"اب یہ ہوا کہ آئے روز گھر میں ہونے والی دعوتوں میں دیگر آرائشی سامان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی سجا دیا جاتا اور میں شعوری کاوش سے لبوں پر مسکراہٹ سجانے وفاداری کا حق ادا کرتا۔ " ("اولڈ ہائوس"، ص37)

یہ منافقت اور ریاکاری ہمارے معاشرے کا ایسا ناسور بن چکا ہے جس پر نشتر چلانا ازبس ضروری ہے۔ "اولڈ ہاؤس" میں اس معاشرتی بے حسی کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس سے ہمارا معاشرہ نہ صرف عاری ہو چکا ہے بلکہ معذرت خواہانہ رویہ بھی اختیار کیے ہوئے ہے۔

لیاقت علی کے افسانوی اسلوب میں شگفتہ لہجے کی بازگشت بڑی دیر اور بڑی دور تک سنائی دیتی ہے۔ وہ کہیں کہیں محض متبسم کرتا ہے اور کہیں قہقہہ لگانے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس کی محفلوں میں بیٹھنے والے اس بات کی گواہی دیں گے کہ وہ بہت زندہ دلانہ اور پر مزاح گفتگو کرنے کا عادی ہے۔ اس کی گفتگو کا یہی لہجہ اس کی افسانوی تحریروں میں متشکل ہوا۔ اس کے افسانوں میں انسان کی جنسی اور حسیاتی زندگی محض حیاتیاتی سطح پر نہیں بلکہ ایک وسیع چوکھٹے کے اندر اپنی جگہ رکھتی ہے جہاں زندگی کے دوسرے مطالبات اور ذمے داریاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ان کے یہاں جذبات اور احساسات کی دھوپ چھاؤں کے متنوع عناصر ہیں جو وسیع پس منظر میں محسوس کیے جاسکتے ہیں۔

لیاقت علی کے افسانوں میں خاکہ نگاری کی جھلک بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ انھیں سراپانگاری پر قدرت حاصل ہے۔ "شاہ جی" اور "پلیٹ فارم" اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ یہ افسانے سے زیادہ خاکے کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن ایسے خاکے جس میں افسانوی رنگ نمایاں ہے۔

"مکوڑے" ایک علامتی افسانہ ہے (لیکن علامت قابل فہم ہے) جو انھوں نے حال ہی میں لکھا ہے۔ لیاقت علی نے مکوڑوں کو ہمارے ملک میں بڑھتے ہوئے دہشت گردوں کو علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ دوسری طرف یوں محسوس ہوتا ہے کہ صرف دہشت گرد ہی نہیں بلکہ وطن دشمن سیاست دان بھی ہمارے ملک کو گھن کی طرح چاٹ رہے ہیں اور مکوڑوں کی طرح ہمارا خون چوس رہے ہیں۔ یہ افسانہ دلچسپی، تجسس اور حیرت کا بھرپور سامان لیے ہوئے ہے۔ افسانے میں چلتے چلتے اچانک پن افسانے کا رخ موڑ دیتا ہے۔

لیاقت علی کی کہانیوں میں بنیادی طور پر ہمارے سماج میں موجود ناہمواریوں کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اگرچہ لیاقت کی زیادہ تر کہانیوں میں نیم علامتی اسلوب اپنایا گیا ہے تاہم ان کی علامتیں قاری کو اپنے قریب رکھتی ہیں، اُن کو دور نہیں بھگاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت کا قاری ہر وہ شخص ہے جو اس معاشرے اور معاشرے کے لامحدود مسائل اور محدود وسائل کو سمجھتا ہے۔ دوسری اہم بات جو لیاقت کے افسانوں کا خاصا ہے وہ یہ ہے کہ ان کی کہانیوں کے کردار "نفسیاتی اعتبار" سے بڑے بھرپور کردار ہوتے ہیں۔ ہر افسانے کا کردار اپنی سماجی، ازدواجی اور فکری لحاظ سے ایک توانا کردار ہے۔ اس اعتبار سے ہم لیاقت کو ملتان کے اہم افسانہ نگاروں کے ساتھ بڑے اعتماد کے ساتھ رکھ سکتے ہیں۔ عرش صدیقی، اکرام اللہ، مسعود اشعر، انوار احمد اور ساحر شفیق کے ساتھ لیاقت علی کا نام بھی سجتا ہے۔ نیر مصطفیٰ بھی اپنی منفرد شناخت کے ساتھ یہاں موجود ہے۔

Check Also

Tyrana Jaiza

By Ali Raza Ahmed