Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ilyas Kabeer
  4. Us Ko Ik Shakhs Samjhna To Munasib Hi Nahi

Us Ko Ik Shakhs Samjhna To Munasib Hi Nahi

اس کو اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں

ہمارے دوست ناصر عباس نیر ایک شگفتہ آمیز سنجیدہ مزاج ہیں۔ وہ یمین و یسار سے آنے والے طعن و تشنیع کے ناوکِ نیم کش سے بے نیاز اور پروا کیے بغیر خاموشی سے اپنا کام کیے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو ایک بات واضح دکھائی دیتی ہے کہ انھوں نے کبھی کسی نوعیت کی لابنگ نہیں کی اور نہ ہی مہاتما بن کر اپنے اردو گرد بھگت جمع کیے۔ وہ خلوصِ نیت، دیانت داری اور دل جمعی سے تصنیفی کام کرتے رہے۔

خدا نے ان کی تحریروں میں برکت ڈال دی۔ کیوں کہ ان پر یہ بات اچھی طرح نشابر ہو چکی تھی کہ بڑا کام کرنے کے لیے کسی مہانتا، کسی بھگت سازی کی ضرورت نہیں۔ وہ اس نوعیت کی بے معنویت، بے سمت اور لایعنی سلسلہ ہائے فریب سے کنارہ کش رہے اور انھوں نے اپنے آپ کو ان جھمبیلوں سے بچائے رکھا۔ نتیجے کے طور پر ان کے لکھے گئے متون کے موضوعات، اسلوب، مزاج اور مذاق ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کی دیانت داری اور محنت کا ثمرہ ہے کہ آج سرحد کی دونوں سمت انھیں مسلسل پڑھا جا رہا ہے۔ یہ بہرحال کسی مصنف کے لیے ایک بہت بڑی ڈھارس ہے کہ اسے اس طور مقبولیت اور قبولیت نصیب ہو جائے۔

عام پر کسی اردو نقاد کو پنجاب کے علاوہ دوسروں صوبوں میں بھی اس وارفتگی سے کم پڑھا جاتا ہے جس طرح ناصر عباس نیر کی لکھتوں کی پڑھت کی جاتی ہے۔ سندھ میں تو ان کے قارئین کا ایک بڑا وسیع حلقہ موجود ہے۔ دیگر صوبوں میں بھی سنجیدہ فکر لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کے متون سے اکتسابِ فیض کرتی ہے۔ یہ سب لوگ صرف نصابی ضرورت کے تحت ہی نہیں پڑھتے بلکہ وہ جان چکے ہیں کہ کس مصنف کو کس طور اور کس انداز سے پڑھا جا سکتا ہے۔

میری ناصر عباس نیر سے پہلی ملاقات اورینٹل کالج میں 2009ء میں ہوئی تھی۔ ان دنوں وہ نسبتاً ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھتے تھے۔ یہ ضروری نہیں کہ چھوٹے کمروں میں سبھی بیٹھنے والوں کے دل بھی چھوٹے ہوں۔ ان میں کشادہ دل اور کشادہ ظرف کے لوگ بھی براجمان ہو سکتے ہیں۔ بڑے کمروں میں بڑے عہدوں پر متمکن چھوٹے آدمی ثابت ہوتے ہیں۔

چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ اورینٹل کالج کی علمی فضا میں ارتعاش ہوا اور اسی نوجوان نے اردو تنقید کی دنیا میں اپنا انفراد قائم کر لیا اور یکے بعد دیگر متنوع موضوعات پر متعدد تنقیدی کتب، انشائیے اور افسانوی مجموعے منظر عام پر آئے۔ ان کتب کے موضوعات کو دیکھا کر کہا جا سکتا ہے کہ اورینٹل کالج کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ علمی ڈسپلن کے تحت علمی متون سامنے آتے رہے۔

ایک مضافاتی شہر جھنگ سے آئے ہوئے اس نوجوان کی علم و دانش سے اسی محبت کی بدولت اسے اردو سائنس بورڈ کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔ اس نے یہ سربراہی اس طور کی کہ بورڈ کی تاریخ میں ایسا متحرک اور فعال ڈائریکٹر جنرل نظر نہیں آتا۔ اس نے اپنے دورِ نظامت میں کچھ پرانی اور متعدد نئی کتب کی طباعت کا اہتمام کیا۔ کتب کے مصنفین اور مترجمین کو باوقار انداز سے محنتانہ بھی دیا۔ بورڈ کا کتاب خانہ جو کرم خوردنی کا سب سے بڑا مرکز بن چکا تھا، ایک کتاب دوست منتظم کی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے کتابوں پر کئی دہائیوں سے جمی تہہ در تہہ خاک کو ہٹایا تو کتابوں نے کھل کر سانس لیا۔

یہاں پر کتب کی پذیرائی، سیمینار، ورکشاپ اور متعدد دیگر تقریبات منعقد ہوئیں۔ اس کی منتظمانہ دیانت داری کا اس سے بھی یقین کیا جا سکتا ہے کہ یہاں سے اپنی کوئی کتاب نہیں چھپوائی۔ ورنہ عام پر دیکھا یہ گیا ہے کہ منتظمین سب سے پہلے اپنی ذات اور اپنی کتب کی چہرہ نمائی کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں۔ لیکن یہاں پر ایسا کبھی نہیں ہوا۔ سائنس بورڈ میں تین سال کا دورانیہ مکمل ہوا تو توسیع پسند سماج میں کسی توسیع کے لالچ اور لوبھ کو پس پشت ڈالتے ہوئے اورینٹل کالج گئے اور حسب روایت استادانہ وقار برقرار رکھا۔

اسی دوران لاہور کے ایک متمول درس گاہ "لمز" نے ان کی جز وقتی خدمات حاصل کیں اور اپنا تحقیقی مجلہ "بنیاد" کی ادارت ان کے سپرد کی۔ یہاں پر بھی انھوں نے اپنی تحقیقی لگن اور مدیرانہ جستجو کی بدولت اسے اردو دنیا کا ممتاز ترین تحقیقی مجلہ بنا دیا۔ بالخصوص ہر شمارے میں اس کا اداریہ یکسر نئے موضوع کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ "بنیاد" میں کسی سفارش اور فیس کے بغیر صرف معیار کی شرط پر شائع ہوا جا سکتا ہے۔

ہمارے دوست ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اورینٹل کالج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ کسی سرکاری ملازم کا وقت سے پہلے ملازمت سے سبکدوش ہونا ایک مشکل اور کٹھن فیصلہ ہوتا ہے لیکن قلم و قرطاس سے جڑے لوگ اسے گلے کا طوق سمجھتے ہیں۔ شاید اسی لیے انھوں نے یہ طوق گلے سے اتار دیا ہے تاکہ یکسوئی سے مزید علمی کیے جا سکیں۔

ناصر عباس نیر ایک محبتی آدمی ہے۔ تبحر علمی نے انھیں عجز و انکسار، بلند انسانی رویہ اور دوست دارانہ اخلاص کا پیکر دیا ہے۔ میراجی نے شاید ان کے بارے میں ہی کہا تھا:

"اسے اک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں"

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad