Anwaar Ahmad, Aik Be Chain Rooh
انوار احمد، ایک بے چین روح
"الیاس! آج شام سات بجے ملتان آرٹس کونسل میں تمھیں اپنے ایک استاد سے ملاؤں گا۔ وہ ترکی سے تو واپس آ گئے ہیں لیکن ترکی ان میں سے نہیں جا رہا۔ (گویا ترکی کی مثال جماعت اسلامی جیسی ہوگئی کہ آدمی جماعت اسلامی سے نکل بھی جائے لیکن وہ اس میں سے نہیں نکل سکتی) میرے استاد کی ہر گفتگو میں ترکی کے ادب، سماج اور سیاست کا ذکر رہتا ہے۔ یار کیا شاندار استاد ہیں۔ تم ان کی مزے دار باتیں سنو گے تو سنتے رہ جاؤ گے"۔
یہ ہمارے استاد پروفیسر محمود الحسن قریشی تھے۔ جو مجھے اپنے ایک استاد کے بارے میں سرشاری اور طمانیت سے بتا رہے تھے۔ خیر، یہ کہہ کر اُنھوں نے سات بجے تیار رہنے کا کہا اور میں حیرت اور خوشی کی ملی جلی کیفیت میں سات بجے اُن کے گھر چلا گیا۔ وہ تیار تو تھے لیکن ابھی اپنے موٹر سائیکل (100cc) کو سٹارٹ کرنے میں سراپا مصروفِ عمل تھے۔ اُنھیں یہ موٹر سائکل از حد عزیز تھی۔ وہ اسی پر ہی کالج جاتے اور دیگر معاملاتِ حیات بھی اسی پر ہی نمٹاتے تھے۔
موٹر سائیکل سٹارٹ ہوگئی تو وہ بہت خوش تھے کہ اب جہاں جہاں بھی چلے جائیں یہ دھوکا نہیں دے گی۔ بالاخر ہم آرٹس کونسل پہنچ گئے تو محمود صاحب نے سٹیج پر براجمان افراد میں سے ایک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ وہ میرے استادِ محترم ہیں۔ وہ ابھی بے چین بیٹھے ہیں کہ کب اُن کی باری آئے اور وہ گل افشانی گفتار کریں۔ لیکن میں نے اُن کی بے چینی کا اندازہ اس سے بھی لگایا کہ وہ کسی دوسرے مقرر کی گفتگو کے دوران کبھی کبھی کوئی جملہ بھی اچھال دیتے۔ انھیں گفتگو کے لیے بلایا گیا تو انھوں نے سب سے پہلے پاک و ترک سماج میں پایا جانے والا بنیادی فرق بتاتے ہوئے کہا کہ وقت کی توقیر تو وہ لوگ کرتے ہیں۔
ہم بے چارے تضیعِ اوقات اپنا بنیادی انسانی، حق سمجھتے ہیں۔ وہ گفتگو کرتے رہے اور ہال میں موجود شرکا کبھی سنجیدہ کبھی کھلکھلا کر ہنس پڑتے۔ وہ قریب قریب پون گھنٹہ تک بولتے رہے اور ہم سب کی حالت ایسی تھی کہ وہ ابھی مزید گفتگو کریں لیکن تابہ کے۔ تقریب اختتام پذیر ہوئی، وہ سٹیج سے اترے تو محمود صاحب نے اُن سے ملوایا کہ یہ میرا شاگرد الیاس ہے۔ انھوں نے برجستہ کہا کہ اگر اس کے ساتھ خضر بھی ہوتا تو میں تمھیں اقبال کا کوئی شعر سناتا لیکن انھوں نے بے فرمائش پھر بھی یہ شعر سنا دیا:
الیاس بھی بے دست و پا خضر بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم، دریا بہ دریا، جو بہ جو
یہ ڈاکٹر انوار احمد تھے۔ سفاری سوٹ میں ملبوس، سر کے بال ابھی زیادہ غائب نہیں ہوئے تھے لیکن امکانات کافی روشن تھے۔ ہاں البتہ ایک عدد کمسن توند کے مالک ضرور تھے جو ایک بڑی توند کا پیش خیمہ تھی۔ میں آج بھی سوچتا ہوں کہ انھوں نے کبھی شکم پروری تو نہیں کی پھر یہ سب کیوں۔ البتہ انھوں نے کچھ دیگر پروریاں، کر رکھی ہیں۔ اس پر شاید انھیں کچھ ملال بھی ہو لیکن اُن کے نزدیک صرف انسانیت نوازی تھی۔ اُن کی کچھ پرورویوں، کا قصہ کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر انوار احمد سے پہلی ملاقات کے بعد میں نے محمود صاحب سے کہا کہ میں ان کے پاس بھی پڑھنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے رچناوی لہجے میں کہا: "پتر! اُنھاں کول پڑھن کیتے پہلے ایم اے اردو مکمل کرنا پوسی، ول ایم فل اچ داخلہ گھنڑا پوسی اتے ول تیڈی اے خواہش پوری تھی سکدی اے"۔
میں نے بھی ٹھان لی کہ ایم فل ضرور کروں گا۔ ایم اے کے بعد فکرِ دنیا میں سر کھپاتا رہا۔ اس دوران محمود صاحب سرطان کا مقابلہ جواں مردی سے کرتے کرتے داعیٔ اجل کو لبیک کہہ گئے تو گویا تمام تر ناتمام خواہشیں ناتمام رہنے کا احتمال بڑھ گیا لیکن اس دوران استادِ محترم ڈاکٹر سید عامر سہیل نے مہمیز دلائی اور ایم فل میں داخلہ لے لیا۔
انوار صاحب نے ہماری کلاس کو ترجمے کا پرچہ پڑھایا۔ اُن کی کلاس کم از کم تین گھنٹے کی ہوتی اور جس دن اُن کی کلاس ہوتی اُس دن صرف وہی پڑھاتے۔ اُن کی کلاس میں ہر طرح کے موضوعات زیر بحث آتے۔ وہ جو متن پڑھاتے، اُس سے متعلقہ کتابوں کا ذکر ضرور کرتے کہ تمھیں یہ کتابیں بھی پڑھنی چاہئیں۔ کم از کم انھیں دیکھ تو ضرور لینا چاہیے۔ اس کے ساتھ وہ یہ بھی بتاتے کہ کس موضوع پر کس نے ڈاکٹریٹ کر رکھی ہے۔ وہ غیر روایتی استاد تھے۔ وہ اپنے نصاب سے متعلقہ دیگر موضوعات بھی زیر بحث لاتے۔ مثال کے طورپر ایک بار انھوں نے فورٹ ولیم کالج پڑھایا تو انھوں نے پوری کلاس کے ذمے کچھ سوالات رکھے جن کے جوابات تلاش کرنے تھے۔ وہ سوالات کچھ اس نوعیت کے تھے:
1۔ فورٹ ولیم کالج کا قیام کلکتہ ہی میں کیوں کیا گیا، ہندوستان کے کسی اور شہر میں کیوں نہیں؟
2۔ کس مقاصد کے پیش نظر جولائی میں قائم ہونے والے فورٹ ولیم کالج کی تاریخِ قیام 4 مئی 1800ء رکھی گئی؟
3۔ فورٹ ولیم کالج میں دیگر اصنافِ ادب کی نسبت داستانوں اور قصوں کو زیادہ ترجیح کیوں دی گئی؟
4۔ فورٹ ولیم کالج پر پی ایچ ڈی کا مقالہ کس نے لکھا؟
5۔ فورٹ ولیم کالج کے حوالے سے ایک منفرد اور حقائق پر مبنی کون سی کتاب لکھی گئی؟
6۔ اردو ہندی تنازع کے ضمن میں فورٹ ولیم کالج نے کیا "خدمات" سر انجام دیں؟
7۔ فورٹ ولیم کالج میں آنے سے قبل استشراقی نقطہئی نظر سے ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی اردو/ہندی ادب میں کیا خدمات تھیں؟
8۔ فورٹ ولیم کالج کے حوالے سے اہم مصادر کی نشاندہی کریں۔
9۔ مشنری ادارے کا سربراہ کس مذہب سے متعلق ہوتا ہے؟
ہماری کلاس ان سوالات کی تلاش میں خلیل صدیقی ریسرچ لائبریری میں"حال و بے حال" ہوجاتی۔ کچھ سوال تلاش کرلیتے تو بہت خوش ہوتے۔ لیکن اس کے ساتھ کچھ اور سوال بھی ذمے لگا دیتے۔ مثلاً:
1۔ مقتدرہ قومی زبان کا نام ادارہ فروغِ قومی زبان، تبدیل کرنے کی کیا وجوہات تھیں؟
2۔ اس ادارے کے تحت شایع ہونے والے جرائد کے نام کیا ہیں؟
3۔ سب سے زیادہ کتب کس صدر نشین کے عہد میں شایع ہوئیں؟
وہ خود بھی مقتدرہ قومی زبان کے صدر نشین رہ چکے تھے اور اُن کے دور میں بہت سی کتب منظر عام پر آئیں۔
ایک بار تو انھوں نے ہماری کلاس کے یہ ذمے لگا دیا کہ کچھ انگریزی الفاظ کے مناسب اردو نام تلاش کرکے لاؤ۔ ہم سب حیران اور پریشان کہ ان کے اردو نام کیا ہوسکتے ہیں اور کیا ہو بھی سکتے ہیں۔
اسائنٹنٹ۔۔ مفوضہ کام
ای میل۔۔ برقی پتا
ایشٹرے۔۔ راکھ دانی
بلب۔۔ برقی قمقمہ
پائوڈر۔۔ معطر سفوف
پیزا۔۔ مرغن چپاتی
تھیٹر۔۔ تمثیل گھر
ٹائٹل۔۔ سرِورق
ٹائم ٹیبل۔۔ نظام الاوقات
جگ۔۔ صراحی، سبوچہ
یہ فہرست دیکھ کر انھوں نے کہا کہ ان ناموں پر لکھنؤ اور دہلی کے اہل زبان کے اثرات زیادہ ہیں۔ وہ اس طرح کی اسائنمٹ دیا کرتے تھے۔ جس میں دلچسپی کے ساتھ ساتھ سردردی بھی شامل ہوتی۔ اُن کا امتحانی طریقہ کار بھی یکسر مختلف تھا۔ ہماری کلاس بیس طالب علموں پر مشتمل تھی۔ وہ الگ الگ بیس پیپر بناتے اور کہتے کہ ایک دوسرے کی معاونت کر سکتے ہو۔ اس نوعیت کے پرچے میں معاونت کیا خاک کرتے، بلکہ ہم سب پر محشرانہ افراتفری، طاری ہو جاتی۔ ایک تو سوالیہ پرچہ ایک دوسرے سے میل نہیں کھاتا تھا دوسرا سوالوں کی نوعیت بھی عجیب ہوتی کہ نجیب محفوظ کے "عام سے لوگ" کی فرانز فینن کے "افتادگانِ خاک" سے تال میل کی کوئی صورت نکل سکتی ہے؟ ہماری کلاس پریشان تو بہت ہوتی لیکن اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس دوران ہم نے کچھ اہم متون پڑھ ڈالے۔
انوار صاحب سے کم و بیش بیس برس سے تعلقِ خاطر ہے۔ ان سے بے شمار ملاقاتیں رہیں۔ مجلاتی اور غیر مجلاتی ہر نوعیت کی۔ ادبی مجلہ "پیلھوں" شروع کیا تو سب کو جوڑ کر رکھا۔ یہاں تک کہ اردو، سرائیکی، پنجابی اور ہریانوی کو بھی آپس میں جوڑ دیا۔ پیلھوں کے ادارتی دنوں میں اُن کی کوشش ہوتی کہ طالب علموں کی نگارشات کو اہمیت دینی چاہیں تاکہ اُن کی حوصلہ افزائی ہو۔ اس معاملے وہ معیار کو بھی نظر انداز کر دیتے۔ وہ تحریریں بھی چھاپ دیتے جو چھپانے کے قابل ہوتیں۔ لیکن بہرحال اس کا فائدہ یہ ہوا کہ ایسی تحریروں کے لکھاریوں نے خاصی محنت کی اور اُن کی تحریر میں نکھار آ ہی گیا۔
انوار احمد ایک بے چین روح کا نام ہے۔ انھوں نے پیلھوں نکالا تو اس کے ساتھ ہی پیلھوں پبلی کیشنز کے نام سے ایک طباعتی سلسلہ بھی شروع کر دیا۔ جس کے اہتمام سے کچھ کتابیں بھی شائع ہوگئیں۔ اس کے ساتھ ہی انھوں نے پیلھوں کلچرل فورم بھی تشکیل دے دیا۔ کئی ایک کتابوں کی رونمائی اور کچھ دیگر تقریبات بھی کر ڈالیں۔ ڈاکٹر اسلم انصاری نے گوپی چند نارنگ کی کتاب "غالب: معنی آفرینی، جدلیاتی وضع، شونیتا اور شعریات" میں فارسی شعریات میں پائی جانے والی تسامحات کی نشان دہی کی۔ یہ مضمون پیلھوں میں شائع ہوا۔ جس پر نارنگ صاحب خاصے خفا ہوئے۔۔
ہندوستان بھر میں"فاروقیوں" نے اس مضمون کو صدقہ خیرات سمجھتے ہوئے خوب بانٹا۔ اسی دوران انصاری صاحب نے"شعرِ شور انگیز" کی ایک جلد میں شمس الرحمن فاروقی کی تفہیماتِ میر پر سوالات قائم کرتے ہوئے ایک مضمون لکھ ڈالا۔ اس مضمون پر بھی ہندوستان بھر میں خوب شہرت رہی۔ لیکن اس بار "نارنگیوں" کا دل خوب بلیوں اچھلا۔ انوار احمد نے یہ مضمون پڑھا تو انھیں اس میں نارنگ صاحب کی ناراضی کی تلافی نظر آئی۔ چناں چہ انھوں نے "پیلھوں" کے اگلے شمارے کے لیے ایک گوشہ "نیرنگِ نارنگ" کے عنوان سے قائم کر دیا اور اس کے لیے انھوں نے قدرے تفصیل سے ایک شذرہ لکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے ڈاکٹر ناصر عباس نیر، ڈاکٹر قاضی عابد (مرحوم)، ڈاکٹر مختار ظفر اور ڈاکٹر حنا جمشید سے بھی مضامین لکھنے کی فرمائش کی۔ یہ مضامین نارنگ صاحب کے تنقیدی شعور کے حوالے سے تھے۔ جنھیں پڑھ کر نارنگ صاحب بہت خوش ہوئے تو انوار احمد بھی کسی قدر شانت ہوئے۔ یہ مجلاتی معرکہ آرائی خوب رہی اور کافی عرصے تک اس کا خوب چرچا رہا۔
انوار احمد کی بے چینی کی متعدد جہتیں ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شعبہ اردو کے سابق طلبا کو ایک "الاؤ" کے گرد اکٹھا کیا تاکہ وہ اپنی اپنی مست دنیا میں دھمال ڈالتے رہیں۔ یہ دھمال تو اب ملتان سے باہر بین الصوبائی بلکہ بین الاقوامی نوعیت کی ہو چکی ہے۔ اس الاؤ کے گرد بیٹھنے والوں کی گفتگوئیں نہایت دلچسپ بھی ہوتی ہیں، اور حیرت انگیز بھی۔ بہت سے سیاسی و سماجی اور ادبی مسائل اس چھتر چھایہ میں بیٹھ کر خوش اسلوبی سے حل کر دیے جاتے ہیں۔
انوار احمد کو "ضیاع" اور "ضیاعی باقیات" سے حد درجہ نفرت ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ ان جیسوں نے ہمارے سماج کو غیر انسانی بنا دیا ہے۔ انوار احمد کو ہر وہ شخص انتہائی عزیز رہا جو ضیاعی دور میں"صالحین" کے تشدد، انتشار اور عقوبت کا شکار رہا ہو۔ اس حوالے سے وہ ڈاکٹر صلاح الدین حیدر سے بہت محبت کرتے ہیں کہ انھوں نے حقیقی ترقی پسند بنتے ہوئے اپنے طور پر آمریت کو للکارا تھا جس کی پاداش میں وہ شاہی قلعہ لاہور میں پُر تشدد قید میں بھی رہے۔ انوار احمد کی اس کمزوری کا بہت سے یار لوگوں کو علم ہوا تو انھوں نے اُن سے "کسبِ فیض" کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیا۔
بہرحال یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے ہم ایسے بہت سے طالب علموں کو استحصال اور استیصال کے خلاف تھوڑا بہت لکھنا سکھایا ہے۔
"انوار" ہم نے تم سے سیکھا
ظلم اور استحصال پہ لکھنا
استاد کے برے حال پہ لکھنا
زرداروں کے مال پہ لکھنا
پیلے پچکے گال پہ لکھنا
کوڑے کھائی کھال پہ لکھنا
کھال سے اکھڑے بال پہ لکھنا
سبز و خاکی جال پہ لکھنا
اس کے گیارہ سال پہ لکھنا
یعنی توپ کی نال پہ لکھنا
"انوار" ہم نے تم سے سیکھا
ظلم اور استحصال پہ لکھنا