Wajood e Zan Se Hai Tasveer e Kainat Mein Rang
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ
ہمیشہ جھوٹ چھا جاتا ہےسچ پر
دلوں پرتان دی جاتی ہیں راتیں
ہمارا المیہ بس یہی ہے
چھپی رہتی ہیں اندر کی باتیں
گزشتہ دنوں مجھے کسی کام سے بازار جانا پڑا، میری نگاہیں کیا دیکھتی ہیں، جس راستے سے گزرتی ہوں وہاں جگہ جگہ، ہر نکڑ، ہر موڑ پر جا بجا کھمبیوں کی طرح اگے ہوئے تندور، ہر گلی کوچے میں امر بیل کی طرح لٹکی NGOS، حقوقِ نسواں کے بورڈ سجائے ذرہ آگے گئی تو کچہری کے پاس ایک ہجومِ عورتاں، طلاق کے مقدمات تقسیم ہوتے، چیختے چلاتے بچے، یہی نہیں، ہر چوک پر، چوراہے پر شو پیس بنی ہولڈنگ پر سجی سنوری عورت، میرا جسم میری مرضی کے اشتہارات، مرد کے گلے میں رسی ڈالےگھسیٹتی ہوئی عورت، موتی بازار ہو یا لالہ زار، لال کرتی ہو یا سفید کرتی، تنگ چولی، سمٹا دامن، دوپٹہ ندارت۔ آستین غائب، جھومتی گومتی، ٹھٹے لگاتی، کیٹ واک کرتی عورت نما مخلوق، ہر جگہ موجود۔۔۔
کتنی دیر سے یہ الفاظ میری سمع خراشی کر رہے ہیں، کہ"وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات میں رنگ"، کیا دیکھتی آنکھیں اندھی، سنتے کان بہرے ہو گئے ہیں یہ سب کیا ہے؟ کون سہ سٹیج ڈرامہ سجایا گیا ہے، جس کے سارے کردار فرضی، پیسوں کے لیے مختلف بہروپ بھرتے نظر آتے ہیں۔ یہ سب کچھ نقلی اور فرضی ہے۔ وجودِزن سے تصویرِ کائنات میں رنگ بالکل نہیں ہے۔
میں کس سے پوچھوں، کیسے پکاروں
یہ کیا منظر میں دیکھتی ہوں
آپ کو یہ بات بڑی عجیب لگے گی کہ میں عورت ہوتے ہوئے اس کائنات کا اہم رکن ہوتے ہوئے اپنے ہی وجود کی نفی کر رہی ہوں۔ در اصل شاعرِ مشرق نے جس وقت یہ بات کی تھی، اس کو تقریبا سو سال ہونے کو آئے ہیں، جب گھروں میں چراغ اور لالٹینیں جلتی تھیں۔ سڑکوں پر تانگے، ریڑے، لوگ گھوڑوں، گدھوں اور خچروں پر سفر کرتے تھے۔ عورت چراغِ خانہ تھی۔ ماں، بہن، بیٹی، بیوی کے رشتوں میں پروئی ہوئی، گھر کا کچن اس سے آباد، گھر کا ہر فرد اس سے شاد، مشرق کی مورت۔
آج کی اکیسویں صدی کی عورت اپنا مقام کھو بیٹھی ہے اور ماضی کی مثالیں اسے جچتی نہیں ہیں۔ یہ سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ صبح کیسی تھی شام کیا ہوگی، کوئی نہیں جانتا۔ اب عورت شمع محفل بن کر مردوں سے برابری کی دوڑ میں شریک ہو چکی ہے۔ اپنی نسوانیت، شرم و حیا، ممتا، جیسے جذبے سے کنا رہ کش ہو کر، مغربی افکارو خیالات کا اشتہار بن کر، چوراہوں پر لگے، میلوں لمبے ہولڈنگ کی زینت بن چکی ہے۔
یہاں وہاں کے اندھیروں کا کیا کریں ماتم
کہ اس سے بڑھ کےاندھیرے ہیں دل کے اندر
کائنات میں رنگ جدت انداز، نیا پن، فیشن سے ہے۔ نت نئی پتلونیں، بڑے پانچے، پاؤں تک لٹکتی قمیضیں، الجھی بکھری ہوئی زلفیں، دوپٹہ ندارد!واہ رےفیشن!اسی سے کائنات میں رنگ اور ساز ہے۔ سادگی اور سلیقہ شعاری کے زمانے گئے اب۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
نہ صرف سکول، کالج، میڈیا۔ فیشن کی تر غیب دینے کو بر سرِ پیکار ہے، بلکہ سر توڑ کو شاں ہے، بلکہ اب تو باقائدہ فیشن ڈیزائننگ آرٹ بن چکا ہے۔ فیشن نئی نسل کے مطابق جو جتنا زیادہ فیشن میں آگے ہے، اتنا ہی جدت پسند اور دورِ جدید کا نمائندہ سمجھا جا تا ہے۔ اپنے آپ کو سنوارنا، نکھارنا برا نہیں، لیکن دھیان ذرہ شخصیت پر بھی رہے۔
سیرت نہ ہو توصورت و کردار سب غلط
خوشبو اُڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
شخصیت کے اجزاء کچھ اور ہیں۔ شخصیت کپڑے، جوتوں، نت نئے فیشن سے نہیں بنتی، بلکہ اس کے لیے کردار سازی کا سانچا رکھا گیا ہے۔
کہاں تک سناؤں، کہاں تک سنو گے۔ دفتروں، کلبوں کو رو نق بخشنے والی آج کی عورت نےگھر داری کو چھوڑا۔ باورچی خانے کو خیر آباد کہا۔ ممتا کے جذبے سے اجتناب کیا۔ مشرقی اقدار کو قدامت پرستی جانا۔ اب اسکا شاہین بچہ موبائیل کے میوزک سے اٹھتا، فوڈپانڈاسے ناشتا کرتا، میکڈانلڈ سے لنچ، اور کے ایف سی سے ڈنر کرتا ہے۔ کبھی گھر کے کھانے کا موڈنہ ہو تو تندور اور ہوٹل حاضر۔ راتیں اس کی DJ Kantik کی نکالی میں Just Danceکرتے گزرتی ہیں۔ آج کی عورت خود ہی نہیں بگڑی، اس نے اپنی نسل کو بھی بگاڑ دیا ہے۔ بے شک کسی بھی گرلز کالج کے باہر بلکہ نظارہ کر لیں، ہر لڑکی کائنات میں رنگ بھرنے کی بجائے بالوں میں فاختہ کی گھونسلا بنائے، مٹکتی چڑیلوں کی طرح ناحن بڑھائے پنسل ہیل پر خود ہی بلند کیے، شتر بے مہاربنی نظر آتی ہیں۔
کسی کی زلف پریشاں، کسی کا دامن چاک
جنوں کو لوگ تماشا بنائے پھرتے ہیں
تب ہی تو اکبر آلہ آبادی نے بھی کہہ دیا تھا۔
حامدہ چمکی نہ تھی، جب تک علم سے بیگانہ تھی
آج شمع محفل ہےکل چراغِ خانہ تھی
اس عقل کی اندھی نے اس نیک بخت نے لبیک کہہ کر چلنا شروع کردیامغرب کی مادر پدر آزاد ہواؤں کے رخ پراپنی تہذیب، اپنے وقار، اپنے اقدار کو روند کر نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ حقوقِ نسواں اور مرد کی مساوات کے نعروں نے اس کوگھر سے ہی بیگانہ نہیں کیا، بلکہ رشتوں کی پاکیزگی اور تقدس کو بھی چھین لیا ہے۔ پہلے وہ ماں، بہن، بیوی اور بیٹی کے مقدس رشتوں میں بندھی ہر ایک کے لیے واجب الاحترام تھی۔ آج صرف عورت بن کر اخبار کے صفحات، میگزین کے سرِ ورک اور ٹی وی کی سکرین پر جگمگا رہی ہے۔ اس کا حولیہ ماضی کی عورت سے بلکل نہیں ملتا۔
دکھ بھری بات تو یہ ہے کہ یہ سارے منظر میرے وطنِ عزیز کے ہیں، جسکو قائد اسلام کی تجربہ گاہ بنانا چاہتے تھے، آج یہودو نصاریٰ کی سازشوں کا شکار ہو کر اس نے اپنے پاکیزہ منست ہی کو نہیں چھوڑا، اسلام سے بھی دوری اختیار کر لی ہے۔ اسے یورپ کی ظاہری چمک دمک نے تو متاثرکر لیا ہے، لیکن یہ میک اپ زدہ چہروں کے پیچھے چھپی ان کی سسکتی آہوں، دھواں دیتی فریادوں، سینے میں گھٹتی سسکیوں کو نہ سن سکی۔ وقت کی طنابیں ابھی کھینچی نہیں، انھیں ابھی روکا جا سکتا ہے۔ آؤ میرے ساتھ اسلاف کے قائم کر دہ راستوں پر چل کر وقت کو روک لو کیونکہ! ہم مائیں، بہنیں، بیٹیاں، قوموں کی عزت ہم سے ہے۔
دل سے نکلی ہوئی آہوں کا دھواں ہے یہ
عرصہ ہجر کی یادوں کا بیاں ہے یہ
وقت کے ساتھ بدل جاتی ہیں قدریں
اب تو ٹوٹی ہوئی قبروں کا نشاں ہے یہ