Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Hasnain Haider/
  4. Maroozat e Karbala (2)

Maroozat e Karbala (2)

معروضاتِ کربلا (2)

رسول اللہ ﷺ نے عرب معاشرہ جوکہ قبائل میں بٹا ہوا تھا، اسے ایک جماعت میں قائم کیا۔ یہ جماعت مسلمان کہلائے نہ کہ بنو قریش، بنو قریظہ، یا اوس و خزرج۔ البتہ خفیہ طور پر چند ہم مزاج، ہم خیال افراد کا مجموعہ ایک تنظیم کی صورت اختیار کرچکا تھا۔ بعد از غدیر جب امام علی علیہ السلام کی ولایت و حاکمیت کا اعلان ہو چکا تو یہ تحرک میں آگئی۔ اور اسکی ایک بڑی کاروائی یہ ہے کہ روایات میں ملتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کی وجہ زہر ہے۔ اور یہ زہر کیسے دیا گیا، یقینا ایک خفیہ کاروائی کا نتیجہ ہی ہوسکتا ہے۔

رسول اکرم کا زیادہ رجحان کسی طرح اس خفیہ تنظیم کو ناکام بنانا تھا۔ ایسے میں نبی پاک ﷺ نے لشکرِ اسامہ ؓ تشکیل دیا اور مہم پر روانہ کیا۔ مگر یہ تنظیم اس قدر مضبوط ہوچکی تھی کہ اصحاب کی اتنی بڑی تعداد کو روکے رکھا اور واپس پلٹ آئے۔ اسی اثنا میں رسول اللہ ﷺ کا وصال مبارک ہوگیا۔

یہاں سے ثقیفہ کی کاروائی عمل میں آتی ہے۔ ثقیفہ میں ایک نکتہ جو قابلِ توجہ ہے کہ اصحاب ذہنی طور پر بعض وجوہات کی بنا پر تقسیم ہوچکے تھے۔ بڑی مثال ثقیفہ میں انصار و مہاجرین کی خلافت کیلئے تگ و دو تھی۔ مگر یہاں اصحاب کی تعداد بہت قلیل تھی۔ یعنی ایک بیٹھک کا ماحول تھا۔ ثقیفہ میں خلیفہ کا چناؤ ہوگیا۔

ان دو گروہوں کے بعد ایک تیسرے گروہ کا وجود میں آنا فطری تھا جوکہ سامنے آیا۔ اور وہ تھا حامیانِ علی علیہ السلام۔ جوکہ امام علی علیہ السلام کے گھر میں بیٹھے رہے اور خلافت کا حقدار مولا علی ع کو سمجھتے تھے کہ اعلانِ غدیر میں وہ بیعت کرچکے تھے۔

ثقیفائی طرز پہ منتخب ہونے والے خلیفہ نے مدینہ کے دیگر لوگوں سے بیعت لینا شروع کی اور ہوتی جارہی تھی۔ تشویش کا مسئلہ امام علی ع اور انکے حامیوں کا تھا۔ ایسے میں فوجی دستے دروازہ بتول سلام اللہ علیہا پر آ دھمکے اور آواز دی گئی کہ علی اور دیگر لوگ آ کر بیعت دیں ورنہ گھر کو آگ لگا دی جائے گی اور ایسا ہوا بھی۔ مستند اوراق شاہد ہیں کہ دروازے کو آگ لگائی گئی۔

یہ واقعات تو ہیں مدینہ کے۔ مدینہ سے باہر کیا ہورہا تھا؟ مکہ و یمن و شام وغیرہ کےاصحاب و مسلمان غدیر میں خلیفہ کیلئے علی ع کی بیعت کرچکے تھے۔ جب ان تک منتخب خلیفہ کے فرامین پہنچے تو انہوں نے انکار کردیا، ایک واقعہ صحابی رسول حضرت مالک بن نویرہ ؓ کا ہے۔ انہوں نے زکات سے انکار نہ کیا، بلکہ انکا رفض بیعت سے تھا۔ مگر اسٹیبلشمنٹ کے زور پر حکومت قائم ہوچکی تھی اور آواز اٹھانے والے کو دبایا جارہا تھا۔

یہ تو عمومی یا عوامی ردِ عمل تھا۔ مختلف جماعتوں کا لائحہ عمل تھا۔ یعنی کوئی کھل کر ساتھ تھا تو کوئی مخالف تو کوئی مصلحتوں کی گتھیوں میں پابند۔ معاشرہ بکھرنے کو تھا۔ سوال یہ ہے کہ ایسے نازک حالات میں امامِ علی ع کا کیا طرز تھا؟ رہبرِ معظم سید علی خامنہ ای اپنی کتاب ڈھائی سو سالہ انسان میں لکھتے ہیں کہ "جب خلافت کا فیصلہ ہوچکا اور لوگوں نے حضرت ابوبکر کی بیعت کرلی، جو ہونا تھا ہوچکا تو امیر المومنین ع کنارہ کش ہوگئے۔ آپ کی طرف سے کوئی ایسا جملہ، کوئی گفتگو اور کوئی ایسا بیان سامنے نہیں آیا جو حکومت وقت سے ٹکراؤ اور محاذ آرائی پیدا کی نشان دہی کرتا ہو۔"

آپ علیہ السلام مکمل طور پر کنارہ کش ہوگئے۔ مگر اسلام کی سربلندی اور اسلام کے تحفظ کیلئے ہمیشہ پیش پیش رہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ع کو اکثر دربار میں بلایا جاتا اور مفید مشورے لئے جاتے۔ جیسا کہ حضرت عمر کا قول ہے کہ 'اگر علی نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتے'

جاری

Check Also

Kabhi Aise Bhi Jootay Polish Karva Lein

By Rauf Klasra