Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Tum Hi Kaho Kaise Sab Acha Hai

Tum Hi Kaho Kaise Sab Acha Hai

تم ہی کہو کیسے سب اچھا ہے

گزشتہ تین برسوں کے دوران بنکوں نے مجموعی طورپر 54 ارب55 کروڑ کے قرضے معاف کئے۔ تفصیل اس کی کچھ یوں ہے سال 2018ء میں 9ارب 49 کروڑ 74 لاکھ روپے۔ سال 2019ء میں دس ارب 88 کروڑ 20 لاکھ روپے جبکہ 2020ء میں سب سے زیادہ 33ارب 18کروڑ روپے کے قرضے معاف کیے گئے۔ یقیناً بنک قرضے دینے، وصول اور معاف کرنے میں آزاد ہیں مگر کیا بنکوں کے عام کھاتے دار یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ آپ ہماری جمع شدہ رقم سے سرمایہ کاری کرتے ہیں اس لئے ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ کن غریب غرباء، مساکین و یتیموں کو قرضے معاف کئے گئے؟

ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی میں اس طرح کے معاملات پر منتخب ایوانوں کے اندر اور باہر ایک شور ہوتا تھا اس بار تو خاموشی ہے گہری خاموشی آخر کیوں؟ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کو اپنے ایوانوں میں سوال اٹھانا چاہئے۔ اس ہاتھ دے اور اس ہاتھ کو خبرتک نہ ہو کے اصول پرعمل پیرا بنکوں کے سربراہان کو سینٹ اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں میں بلا کر ان سے نہ صرف تفصیل مانگی جانی ضروری ہے بلکہ تین سالوں کے دوران 54 ارب 55 کروڑ کے قرضے معاف کروانے والے فقرا و مساکین کے ناموں سے قوم کو آگاہ کیا جائے تاکہ حسب توفیق ان مستحقین کی مزید مدد بھی کی جا سکے۔

ادھر حالت یہ ہے کہ مہنگی ترین بجلی فروخت کرنے والوں نے بجلی کے بلوں پر ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ کر دیا ہے۔ صدارتی آرڈی ننس کے مطابق نان فائلر کے بجلی کے بلوں پر ایڈیشنل ٹیکس نافذ ہوگا۔ پانچ سے 35فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس کی مختلف کیٹگریز ہیں۔ اس ملک کے منتخب ادارے آخر کس مرض کی دوا ہیں پھر حکومت چاہتی کیا ہے مہنگی بجلی پر پہلے ہی مختلف اقسام کے ٹیکس نافذ ہیں فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کا ماہانہ عذاب الگ سے ہے اب ماہانہ دس سے بیس ہزار روپے تک کے بل پر دس فیصد، بیس سے تیس ہزار روپے کے بل پر 15فیصد 30 سے 40 ہزار روپے تک کے بل پر بیس فیصد سے تیس سے 75 ہزار سے زائد کے ماہانہ بجلی کے بل پر 35فیصد ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ ہو گا۔

آگے بڑھنے سے قبل ساعت بھر دم لیجئے سانس بحال ہو تو وفاقی وزیر اطلاعات جناب فواد حسین چوہدری کے اس ارشاد پر "دھمال" ڈال لیجئے کہ ملک میں 70 فیصد شہریوں کی آمدنی بڑھی ہے۔ فواد چوہدری کو چاہئے تھا کہ اُس ملک کا نام بھی بتا دیتے کیونکہ جس ملک کے وہ وزیر اور ہم رعایا ہیں یہاں صورتحال مختلف ہے کوروناوبا کی تین لہروں میں دو کروڑ بیس لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہوئے بجٹ کے موقع پر دعویٰ کیا گیا تھا ان میں سے ایک کروڑ 80 لاکھ کو روزگار مل گیا ہے چالیس لاکھ ابھی بیروزگار ہیں۔

جبکہ بیروز گاروں کے حوالے سے ہوئے ایک گیلپ سروے کے مطابق خیبر پختونخوا میں بیروزگاری کی شرح دس فیصد سے زائد ہے، پنجاب میں سات فیصد سے اوپر، بلوچستان میں چار فیصد سے اوپر اور سندھ میں لگ بھگ چار فیصد ہے۔ اس شرح کے ہوتے ہوئے آمدنی میں اضافے والی باتیں مذاق ہیں۔ فقیر راحموں کہتے ہیں وزیر اطلاعات نے قیمتوں میں اضافے کو آمدنی میں اضافہ سمجھ لیا ہوگا۔

معاف کیجئے گا بات اتنی سادہ نہیں ہے۔ یہ وزیر باتدبیران ہمیشہ سے سب اچھا کی تصویر دکھانے کی تنخواہ لیتے ہیں وزیر اطلاعات کو تو خیر اخروٹ کو سیب ثابت کرنے کا ملکہ حاصل ہوتا ہے وہ گاجروں کو لیموں پانی ثابت کر سکتا ہے یہی فن تو اس عظیم وزارت کے لئے بنیادی اہلیت ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ سب اچھا ہے نا ہی 70فیصد شہریوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے البتہ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ اخراجات میں ماہانہ ستر فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔

وزیر اطلاعات کہتے ہیں پٹرولیم مصنوعات اب بھی خطے میں سب سے سستی ہیں۔ ہوں گی۔ ذرا خطے کے ممالک سے روپے کی شرح تبادلہ اور ان ممالک کی ڈالر سے شرح تبادلہ کے ساتھ فی کس آمدنی تو بتا دیجئے تاکہ ہم ایسے ناشکروں کو مقام شکر سمجھ میں آسکے۔ یہاں حالت یہ ہے کہ خود وفاقی ادارہ شماریات جو ایک خالص سرکاری ادارہ ہے تسلیم کر رہا ہے کہ ملک کے 17 بڑے شہروں میں 51 اشیاء کی قیمتوں کا تقابلی جائزہ لیا گیا جس کے مطابق 22اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

جن اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے ان میں چینی، آٹا، خوردنی تیل، گھی، صابن، گڑ، چاول، دہی، خشک دودھ، بیف اور مٹن شامل ہیں۔ 19اشیاء کی قیمتیں برقرار رہیں اور دس کی قیمتوں میں بیس پیسے سے ایک روپیہ کی کمی ہوئی۔ پٹرولیم مصنوعات کی حالیہ قیمتوں کا معاملہ الگ ہے۔ اب کوئی وزیر باتدبیر رعایا کو کم از کم یہ ہی سمجھا دے کہ پچھلے ایک ہفتے کے دوران کتنے لوگوں کی آمدنی بڑھی ہے؟

ہمارے بعض قارئین اپنے پیغامات میں شکوہ کرتے ہیں کہ آپ ہمیشہ حکومت پر تنقید کرتے رہتے ہیں کیا اس حکومت نے پچھلے تین سالوں کے دوران ایک بھی اچھا کام نہیں کیا۔ شکووں سے زیادہ مناسب ہو گا اچھے کاموں کی فہرست بجھوا دی جائے۔ تحریر نو یس کی موجودہ حکومت یا کسی بھی حکومت سے ماسوائے جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے ذاتی دشمنی ہر گز نہیں خوش قسمتی سے ہمارا شمار رعایا میں ہوتا ہے پبلک ٹرانسپورٹ میں دھکے کھانے والی رعایا سے اس لئے آنکھیں اور کان کھلے رکھنا پڑتے ہیں۔ گھر کا سودا سلف خود بازار سے لاتے ہیں اس لئے قیمتوں کے اتار چڑھاو سے براہ راست آگاہی رہتی ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تحریر نویس کی بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ چارآور کے حالات اور مسائل پڑھنے والوں کے سامنے رکھتے ہوئے اپنی رائے عرض کرے۔ مثال کے طور پر نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم کے دورہ کی منسوخی یقیناً دکھ کی بات ہے لیکن امریکہ اور بھارتی سازش تلاش کرنے کی بجائے ہمیں اپنی اداوں کے ساتھ 13 ستمبر کو ایڈیشنل آئی جی پولیس کے دفتر سے جاری ہونے والے تھریٹ الرٹ کو بھی مد نظر رکھنا ہوگا یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ یہ روٹین کا معاملہ ہے خدا کے بندو تمہاری روٹین سے غیر ملکی کرکٹ ٹیم اور اس کی انتظامیہ کا کیا لینا دینا۔

تھریٹ الرٹ میں صاف لکھا ہے کہ نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم اور چہلم امام حسینؑ کے موقع پر تخریب کاری کا خطرہ ہے۔ اس سے آگے خود سوچئے کہ ہوا کیا اور کون ذمہ دار ہے۔

پس نوشت: نیوزی لینڈ کے بعد برطانیہ نے بھی اپنی کرکٹ ٹیموں کا دورہ منسوخ کردیا ہے وجہ وہی غیر یقینی حالات یعنی سیکورٹی کے مسائل بتائی گئی ہے۔

Check Also

Jaane Wale Yahan Ke Thay Hi Nahi

By Syed Mehdi Bukhari