Tahira, Qurat Ul Ain Tahira
طاہرہ، قرۃ العین طاہرہ
فرانسیسی دانشور ژول بوآ کہتے ہیں"قرۃ العین طاہرہ ایسی مردانگی شہامت ثابت قدمی اور قدرت دکھاتیں کہ جو بھی ان سے ملتا یا گفتگو کرتا وہ اپنی فکر میں وسعت پاتا اور خدمت انسانی و آزادی اظہار کے ضمن میں اپنی ذمہ داریوں سے بھی بخوبی آگاہ ہوجاتا۔
پروفیسر اے جی برائون (برطانیہ) نے طاہرہ کو "عقلی قابلیت اور فصاحت کا بے مثال و غیرفانی شاہکار قرار دیا"۔
ان کے اپنے مادر وطن ایران میں بہرطور ان کے عقائد، نظریات اور ہم خیال ابتدا ہی سے ریاستی و ملائی جبر کا شکار ہیں۔
طاہرہ بہائی عقیدہ کی حامل تھیں۔ بہائیوں کے لئے سرزمین فارس (ایران) کے دامن میں اب بلکہ کبھی بھی زیادہ گنجائش نہیں رہی لیکن ہمیں نہ تو ان کے عقید کے بخیے ادھیڑنے ہیں اور نہ ہی ان کے علمی مرتبہ سے انکار کرکے کوئی تمغہ پانا ہے۔
وہ ایک بے مثال صاحب علم خاتون تھیں اور بلاشبہ ایران میں خواتین کے حقوق کی اولین علمبردار بھی۔
قاچار عہد کے ایران شہر قزوین میں پیدا ہونے والی قرۃ العین طاہرہ کا خاندان ایران بھر میں بامثال علمی شہرت کا حامل تھا۔ ان کے والد ملا صالح اور دونوں چچا ملا محمد تقی اور ملا محمدعلی درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔
طاہرہ کے شوہر ملا محمد شہر کے معروف عالم دین، شیعہ مسلم مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے اس مشہور خاندان کی صاحبزادی نے بنیادی تعلیم کے علاوہ فقہ، منطق اور تقابل ادیان کے مضامین بھی اپنے والد اور تایا سے پڑھے۔
طاہرہ ابتدا ہی سے "ظہورِ قائمؑ" کے حوالے سے سوالات اٹھاتیں۔ والد اور تایا تشفی کی لاکھ کوششیں کرتے مگر وہ ایک نیا سوال ان کے سامنے رکھ دیتیں۔
ان کا خیال تھا کہ "نیابت کا حقدار پرانوں کو دیدار سے محروم رکھے وہ بھی امر ربی کی بنیاد پر تو یہ بذات خود رہبری کے منصب سے سوا ہوا"
طاہرہ تشیع روایتی عقائد کو ترقی پسندانہ نکتہ نظر سے دیکھنے اور اسی بنیاد پر مکالمے کی خواہش مند تھیں۔
عقائد کی یہ بحث چونکہ ہمارا موضوع نہیں سو وضاحت کے لئے فقط یہی کہ ایک نجات دہندہ ہادی کی آمد کا انتظار "سب" کو ہے۔ سب سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں فی الوقت جتنے بھی مذاہب موجود ہیں (وہ زمینی ہیں یا آسمانی) یا جو متروک ہولئے تقریباً سبھی میں ظہور ہادی کا تصور موجود ہے اور سبھی اس حوالے سے اپنی اساسی فکروں کے موجب انتظار کی گھڑیاں شمار کررہے ہیں۔
قرۃ العین طاہرہ ابتدا میں کسی حد تک تشیع کی احسائی شاخ (یہ شیخ احسائی کا فکری مکتب ہے جسے ان کے شاگرد رشید ملا سید کاظم نے چار چاند لگائے) سے متاثر ہوئیں مگر اس مکتب کے ساتھ وہ زیادہ دیر نہ چل پائیں۔
بظاہر اس کی دو وجوہات ہیں اولاً یہ کہ طاہرہ کا اپنا علم بہت وسیع تھا۔ ثانیا وہی بے کلی کہ " ظہورقائمؑ" میں حائل پردہ کیوں؟
انہوں نے ایران سے باہر شام اور عراق کا سفر بھی کیا۔ دمشق، نجف، کربلا اور سامرہ بغداد میں کئی برس بیتائے۔ ان کی مذہبی فکر اور پھر اس فکر کو اپنے خیالات و تصورات کے موجب ڈھالنے سے لاکھ اختلاف ہوں لیکن یہ امر مسلمہ ہے کہ طاہرہ جیسی باہمت و بااستقامت خاتون ایران کی دستیاب تاریخ میں ان سے پہلے دکھائی نہیں دیتیں۔
وہ پہلی خاتون ہیں جہنوں نے روایتی مذہبی گھرانے میں پنپنے کے باوجود روایتی اقدار سے کھلم کھلا انحراف کیا۔ خواتین کے لئے مساوی حقوق کی بات کی اور ان مذہبی رہنمائوں پر اعتراضات کئے جو تحقیق کو تقلید کا دشمن قرار دیتے ہوئے اس کے مخالف تھے۔
قرۃ العین طاہرہ کا خیال تھا کہ "تقلید اگر تحقیق کے مانع ہو تو انسانی دماغ جوہڑ کی صورت بن جاتا ہے"۔
قرہ العین طاہرہ لگ بھگ 1823ء میں پیدا ہوئیں۔ دو صاحبزادوں اور ایک صاحبزادی کی اس مادر گرامی نے اپنے خیالات و افکار اور عقائد کی بنا پر بہت سختیاں جھیلیں معلمہ مفسرہ و شاعرہ کی حیثیت سے انہیں جو شہرت ملی اس میں فکری پختگی کے ساتھ ان قربانیوں کو بھی دخل تھا جو انہوں نے خود اختیار کردہ راہ پر چلتے ہوئے دیں۔
اپنے جنم شہر سے زیاہ شہرت ان کو بغداد میں ملی جہاں انہوں نے درس کا سلسلہ شروع کیا۔ بغداد کے روایتی علما ان دروس کی وجہ سے ان کے دشمن ہوئے۔
قرۃ العین طاہرہ کو جب ایرانی بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا تو ان سے کہا گیا کہ اگر وہ اپنے عقیدہ کا رد کردیں تو ان پر نمعتوں کے دروازے کھل سکتے ہیں۔
اس پیشکش کے جواب میں طاہرہ نے کہا "دنیا تو محض ایک سرائے ہے مگر اس میں قیام کا حق ادا نہ کرنا امر ربی سے منہ موڑنا ہے"۔
ایک اور موقع پر انہوں نے شاہ ناصرالدین کی ترغیب کے جواب میں لکھا "درویشوں کا ملک اور حکومت سے کیا لینا دینا جو ہمیں عطا ہوگیا اسی پر شکر گزار ہیں۔ ملک اور حکومت تجھے مبارک"۔
قرۃ العین طاہرہ کو پہلے گلے میں رومال ڈال کر مارا گیا اور پھر ایک اندھے کنوئیں میں ڈال کر کنواں مٹی اور پتھرں سے بھردیا گیا۔
1823ء میں پیدا ہونے والی طاہرہ کا جسمانی سفر 1856ء یا 1857ء میں تمام ہوگیا۔ ان کے ہم عقیدہ ساتھیوں کے قتل عام کا حکم بھی شاہ ناصرالدین نے ملا کئی اور ملا اندرمانی کے فتویٰ پر جاری کیا گیا۔
طاہرہ کی سوانح عمری لکھنے والے سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ ملا اندرمانی نے ہی ان کے قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا۔
32یا 33برس جینے والی قرۃ العین طاہرہ نے ایرانی معاشرے اور بالخصوص خواتین پر جو اثرات مرتب کئے ان سے انکار ممکن نہیں۔
وہ فقط اپنے مکتب کی عالمہ و معلمہ ہی نہیں بلند پایہ خطیبہ اور شاعرہ بھی تھیں۔ افکار کے اختلافات کےباوجود ایران میں آج بھی ان کی شاعری کو علمی ورثے کی حییثت حاصل ہے۔
طاہرہ نے ہی کہا تھا "میرے غم زدہ دل نے تیرے عشق کو جان کے تانے بانے میں بن لیاہے"۔ کتاب ہستی کا ایک ایک ورق دیکھ لیا ہر ورق پر تیرے عشق کے بغیر کچھ نہیں لکھا"۔ اگر محبوب میرے قتل کے لئے تلوار اٹھاکر کھڑا ہے تو میں حاضر ہوں۔ میں تو محبوب کی رضاپر راضی ہوں"۔
میں اپنی فکر، مقام اور انجام تینوں پر خوش ہوں۔ یہاں تک کہ پورے شعور کے ساتھ قدم بہ قدم چلتے ہوئے آئی ہوں، میرا مالکا نہیں ہوا اگر برا ہے میرا قتل ہونا تو میں اس کی حقدار ہوں"۔ عابدوں اور زاہدوں کو عاشقوں کی بات کب سمجھ میں آتی ہے"۔ "ما" اور "من" کی منزل سے گزر کر ہی ملک فنا کو وطن بنایا جاسکتا ہے۔
"جب تو بھی اس راہ پر ثابت قدمی سے چلے گا تو منزل کو پالے گا"۔ "راستی اور سچائی کا زمانہ آگیا ہے، کجی و کجروں کو زوال ہے، عدل سماج میں توازن کی بنیاد ہے"۔ "حق کو ظاہر ہونے سے کوئی نہیں روک پائے گا"۔
یہ انسانوں کو ڈرانے اور غلام بناکر رکھنے والے خدا کے لطف و کرم کو کیا سمجھیں گے۔ یہ تو ہر وقت پیٹ بھرنے کے چکر میں رہتے ہیں۔ مخلوق چاہے فاقوں اور جہالت سے مرجائے۔
"راہ عشق" میں ہر بلا و مصیبت پر شیفتہ ہوں، غم آشنا مصیبتوں سے نہیں ڈرتے۔ تیرا دیدار ہی اقرار کی سچائی کو منوائے گا۔ میں تو بس بے نوا عاشق ہوں۔
عقلیں اس کے ادراک سے عاجز ہوگئیں جو اس کا وصف بیان کرنے میں قاصر ہیں۔ تیرے کمال تک بھلا کس کو راہ ہے کہ تیرے بغیر نہایت کسی کو نہیں"۔ "اے محبوب! کیا تمہارے عشق کا دم بھرنا کوئی گناہ کی بات ہے کہ تم مجھے اس طرح فراق میں چھوڑتے، قتل کرتے اور مواخذہ کرتے ہو"۔
میرا دل اس کی وہ کالی زلفوں اور چاند جیسے مکھڑے کے فراق سے اس کے قدموں کی دھول میں پامال ہوگیا"۔ اس دلیر چاند کی کمند سے ہزاروں فرقے متفرق اور ہزاروں سلسلے یکجا ہوئے۔ شاہ دلبراں! تیرے فراق کے طفیل جسم رکھنے والی ہیکلوں کی روحیں ہلکی اور سبک ہوگئیں۔
تاخیر نہیں ہوگی، مخالفت کا حکم دنیا بھر سے اٹھا دیا جائے گا اور جدائی کا حکم انس و محبت میں تبدیل ہوجائے گا۔ شیخ کو منبر سے اتار لو، دستار کا طرہ کاٹ ڈالو، مساوات سے ظلم کو دفن کردو تاکہ زمانہ خرافات سے آزاد ہوجائے۔
میدان عشق میں کودنا کوئی کھیل نہیں، ہزاروں لاکھوں میں کوئی ایک ہی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتا ہے۔ ساقی روزگار ایک ہی خم سے عطا کرتا ہے تجھے شراب اور مجھے تلچٹ۔
"جب مصیبت کی دعوت عام دی گئی تو میں نے خوشی سے انہیں گلے لگایا، اے غم زدوں کے گروہ صلائے عام ہے"۔