Sawal Gustakhi Aur Toheen Nahi Hote
سوال گستاخی اور توہین نہیں ہوتے
عدالتوں کے فیصلے پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں اس لئے فیصلوں پر مختلف آراء سامنے آتی ہیں اور آئیں گی، سوالات بھی اٹھیں گے۔ فی الوقت ایک نہیں دو سوال ہیں اور بہت احترام کے ساتھ طالب علم یہ جاننا چاہتا ہے کہ جب رکن اسمبلی کی نااہلی کا فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے تو ایک منتخب وزیرعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ایک ایسے فیصلے کی عدم تعمیل میں نااہل اور ڈی سیٹ کیسے کردیا گیا جو کبھی لکھا ہی نہیں گیا۔
اس فیصلے پر اس وقت کی قومی اسمبلی کی سپیکر فہمیدہ مرزا کی رولنگ پر "دیسی خلیل جبران" ٹائپ شخص برہم کیوں ہوا؟ اسی طرح نوازشریف اور جہانگیر ترین کا معاملہ ہے ان دونوں کو تاحیات کیسے نااہل قرار دے دیا گیا۔ نوازشریف اس وقت وزیراعظم تھے عدالت سزا دیتی اگر اس کے نزدیک کوئی جرم تھا۔ رکن قومی اسمبلی کے طور پر نااہلیت کا فیصلہ سپیکر کرتا اور ریفرنس بھیجتا الیکشن کمیشن کو۔
کیا 63اے پر صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے تین جج صاحبان کی رائے (2جج صاحبان اکثریتی فیصلے سے متفق نہیں ہیں انہوں نے اختلافی نوٹ لکھے ہیں) اور قبل ازیں کے فیصلوں میں تضاد نہیں؟ یقیناً قانونی اور آئینی ماہرین جواب کے متلاشی طلباء اور عوام کی رہنمائی کریں گے اور یہ بہت ضروری ہے۔
آرٹیکل 63اے پر بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر اکثریتی عدالتی رائے نے مباحثوں کے دروازے ہی نہیں کھولے بلکہ کچھ سوالات بھی اٹھائے ہیں۔ اس رائے سے تو ایسا لگتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا دروازہ ہمیشہ کے لئے بند کردیا گیا ہے۔ فوری سوال تو یہی ہے کہ کیا پارلیمان دستور اور پارلیمانی قواعد پر چلنی ہے یا عدالتی حکم پر؟
عدالت قانون سازی کے لئے پارلیمان کو حکم دے سکتی ہے؟
فقیر راحموں کے بقول"آرمی چیف کی توسیع والے معاملے میں اگر پارلیمان نے اپنے اختیار کو خود دفن نہ کیا ہوتا تو اسے یہ دن نہ دیکھنا پڑتے"۔ ضروری نہیں کہ آپ فقیر راحموں کی بات سے اتفاق کریں۔
اسی سپریم کورٹ نے فوجداری قانون کی دفعہ 109کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی۔ وہ بھی اکثریتی فیصلہ تھا۔ اسے اکثریتی "روپ رنگ" دینے کے لئے جو کچھ ہوا اور پھر جس طرح ایک جج جناب جسٹس صفدر شاہ کی میٹرک کی سند جعلی قرار پائی وہ ہمارا موضوع نہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ دفعہ 109 یعنی "سازش کرنے اور منصوبہ بنانے" کے الزام میں پچھلے 43برسوں میں کتنے لوگوں کو سزائے موت دی گئی؟ اس جملہ معترضہ کی معذرت لیکن جب بھی ابہام سے عبارت ادھورے فیصلے آئیے گے اس طرح کے سوالات اٹھیں گے۔
انسانی سماج کا اصل حسن سوال ہیں، مکالمہ سیکھنے سمجھنے کی آرزو۔ جب آپ سوال نہیں کرنے دیتے لوگوں کو تو آپ انہیں منفی رویہ اپنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ منفی رویوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔
اب کہا گیا صدارتی ریفرنس کو نمٹاتے ہوئے "منحرفین کا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ نااہلی کی میعاد کا تعین پارلیمنٹ کرے" اس اکثریتی رائے پر قاضی شریح سمیت مسلم تاریخ کے وہ فقہا یاد آگئے جن کے خیال میں "حاکم وقت کی اطاعت واجب ہے کیونکہ حاکمیت امر ربی ہے۔ اس لئے چاہے کچھ بھی ہوجائے، اطاعت سے انحراف نہیں کیا جاناچاہیے"۔
اس رائے نے مسلم تاریخ میں جو گُل کھلائے ان کے ذکر کے لئے کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اکثریتی رائے کو مسلمہ مان لیا جائے تو کیا یہ ایک طرح سے تحریک عدم اعتماد کی قانونی سیاسی اور پارلیمانی دستوری حیثیت کو ہمیشہ کے لئے ختم نہیں کردیتی؟
یہ تو وہی صورت ہوگئی کہ "امر ربی پر مبنی اطاعت ہر حال میں واجب ہے"۔
کچھ ہی عرصہ قبل کے ایک فیصلے میں تو کہا گیا تھا ووٹ ڈالا جاسکے گا اب کہا جارہا ہے ووٹ شمار نہیں ہوگا۔ وزیراعظم پر اعتراض ہے تو پارلیمنٹ چھوڑدے رکن۔ یہ تو ایک طرح سے قانون سازی ہوئی۔ رائے اور قانون سازی کی طرح کے الفاظ کیا ان میں فرق واضح نہیں ہونا چاہیے تھا؟
آج اگر تاحیات نااہلی آئین دوبارہ لکھنے کے مترادف ہے تو ماضی میں جو تاحیات نااہلیاں کی گئیں وہ کیا تصور ہوں گی؟ معاملہ بہرصورت رکن پارلیمنٹ کا ہے۔ پارٹی پالیسی کیا ہے؟ 17ویں ترمیم کے وقت جب پارٹی سربراہ کے حکم کو "امر ربی" کی طرح مسلط کیا جارہا تھا تب بھی یہی رائے تھی کہ یہ شخصی آزادی کے منافی ہے۔
سپیکر نے جس رکن کی نااہلیت کا کیس الیکشن کمیشن کو بھجوانا ہے کیا اس پر پارٹی سربراہ کا کسی بھی حوالے سے عدم اعتماد کافی ہوگا۔ کیا محض ایک الزام ریفرنس کی بنیاد بن سکتا ہے۔
پارٹیوں کے حقوق آسمان سے تو نہیں اترے۔ پارٹیاں لوگ مل کر بناتے ہیں بنیادی طور پر تو یہ لوگوں کے حقوق ہی ہوئے پھر کیسے ایک شخص کو کلہاڑا تھمادیا جائے؟
یہ بجا ہے کہ کسی بھی طرح کے مفادات کے لئے پارٹی پالیسی سے انحراف درست ہرگز نہیں مگر یہ کیسے طے ہوگا کہ پارٹی پالیسی (جوکہ ہمارے ہاں اصل میں شخصی وفاداری سے عبارت ہوتی ہے) دستور، جمہوریت اور شخصی آزادیوں سے متصادم نہیں؟ سادہ سی بات ہے سارے معاملے کو جذباتیت سے نہیں سنجیدگی سے دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔
آرٹیکل 63اے پر بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ کی تین دو کے تناسب سے سامنے آنے والی اکثریتی رائے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی رائے ہے سو قابل احترام ہے۔ مگر کیا اس ملک کے قانون دانوں، اہل دانش اور خود پارلیمنٹ کو اس سوال پر پھر سے غور نہیں کرنا چاہیے کہ جس طرح کے دستوری تنازعات ہمارے ہاں روزانہ جنم لیتے ہیں ان کے تصفیے کے لئے "وفاقی دستوری عدالت" کی ضرورت ناگزیر ہوتی جارہی ہے۔
دستور سے متعلقہ معاملات، وضاحتیں اور تشریح کے حوالے سے جب تضادات سامنے آئیں گے تو ان کی پردہ پوشی محض یہ کہہ کر نہیں کی جاسکتی کہ قانون سازی کرنا پارلیمان کا کام ہے۔
ہماری دانست میں قانون سازی ہی نہیں بلکہ اس کی تشریح بھی قانون سازوں کو ہی کرنا چاہیے یا پھر فیصلے کیلئے وفاقی دستوری عدالت قائم کی جائے۔ بہرطور صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کے لارجر بنچ کی اکثریتی رائے پر دونوں فریق دھمال ڈال رہے ہیں۔ کل تک رات کو کھلنے والی عدالتیں ایک ہی رائے کے بعد شکریہ کی مستحق ہوئیں۔
(ویسے تو چھٹی والے دن ضمانت بھی دی گئی تھی) یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ ایک طرف انحرافی ووٹ کو کینسر قرار دیا جارہا ہے لیکن ماضی میں دستور سے انحراف کو جائز قرار دیا جاتا رہا۔
جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے معاملے کو ہی دیکھ لیجئے، جنرل پرویز مشرف کو تو دستورمیں شخصی ترامیم کا اختیار تک عطا کردیا گیا تھا۔
باردیگر عرض ہے، لوٹا گردی یقیناً قابل نفرین ہے اسی طرح سیاسی مسافر جمع کرکے بھان متی کا کنبہ تشکیل دینا بھی قابل نفرین ہی ہے۔ ثانیاً یہ کہ پارلیمان کو حکم نہیں دیا جاسکتا جب بھی حکم دیا اور اس پر عمل ہوا دونوں کام دستور جمہوریت اور آزادی اظہار کے منافی ہوئے۔
بہرطور اس پر ابھی مباحثے ہوں گے، آئینی ماہرین کی سنجیدہ آراء یقیناً رہنمائی کریں گی۔ کوئی بات، رائے یا فیصلہ حرف آخر اس لئے نہیں ہوتا کہ یہ امر ربی نہیں انسانی فہم سے عبارت ہے۔
عجیب بات ہے جب سیاسی جماعتوں کو توڑپھوڑ کر بھان متی کے کنبے جوڑے جاتے ہیں، کوئی نہیں بولتا، کھانستا تک بھی کوئی نہیں۔ آرٹیکل 63اے پر بھجوائے گئے صدارتی ریفرنس پر لارجر بنچ کی اکثریتی رائے کے سیاسی منظرنامہ پر کتنے اثرات مرتب ہوں گے یہ بنیادی سوال ہے۔
قومی اسمبلی میں چونکہ تحریک انصاف کے باغی ارکان نے عدم اعتماد پر ہوئی رائے شماری میں حصہ نہں لیا تھا ان کا معاملہ الگ ہے۔ پنجاب اسمبلی میں اس کے باغی ارکان کے ووٹوں کی قانونی حیثیت پر ایک رائے تو یہی ہے جو سپریم کورٹ نے دی مگر اس کے سوا بھی آراء ہیں۔
ان آراء کو جانے سمجھے بغیر منہ میٹھا کرنے کی بجائے صبر سے کام لیا جائے تو بہتر ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ پارلیمان کو بھی اپنی بالادستی پر نظریہ ضرورت کھیلنے پالنے کی ضرورت نہیں۔ فی الوقت تو آئینی ترامیم کے لئے مطلوبہ تعداد نہیں ہے جب ہوگی تب دیکھا جائے گا۔