Saraiki Qaum Parast Kahan Khare Hain?
سرائیکی قوم پرست کہاں کھڑے ہیں؟
ہمارے دوست اور برادر عزیز شاہنواز خان مشوری نے لکھا "خانیوال الیکشن کے نتائج کے بعد سرائیکی دانش کو مل بیٹھ کر صورتحال پر غور کرنا چاہیے"۔ عرض کیا "کونسی سرائیکی دانش جس کے ایک حصے سے اس ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت کی؟ یہ بھی عرض کیا، میری اب بھی یہی رائے ہے کہ سرائیکی قوم پرستوں کو اپنی سیاست، فکر، اب تک کی جدوجہد اور صورتحال کا تجزیہ کرنے کے ساتھ اپنا محاسبہ کرنا چاہیے اور یہ بھی کہ سنجیدگی کے ساتھ ایک پریشر گروپ بنانے کی کوشش بھی"۔
پچھلی شب ہمارے بھتیجے انجینئر حسن مرتضیٰ عیادت کے لئے آئے پھر محفل سج گئی۔ ان کا سوال تھا، سرائیکی وسیب میں بلدیاتی انتخابات اور اگلے عام انتخابات میں منظرنامہ کیا تشکیل پائے گا؟ کیا منظرنام ہوسکتا ہے، مجھے تو وسیب کا نجیب الطرفین لوٹا گروپ (ن) لیگ کی طرف ہجرت کرتا ہوا دیکھائی دے رہا ہے۔
اس گروپ کی سیاست مفادات کی سیاست ہے عوامی مسائل اور جذبات سے عبارت نہیں۔ یہ بھی عرض کیا کسی کو اچھا لگے یا برا، ہماری رائے بہرطور یہی ہے کہ جب تک قوم پرست متحد ہوکر جدوجہد کو عملی صورت نہیں دیتے مقصد کا حصول ممکن نہیں۔ ہماری رائے یہی ہے کہ پیپلزپارٹی جتنا کرسکتی تھی وہ کرچکی، سرائیکی وسیب کے لئے اس سے آگے کے مراحل میں وہ کیا کرسکتی ہے اس پر بحث اٹھانے سے قبل ٹھنڈے دل سے یہ سمجھنا ہوگا کہ پیپلزپارٹی وفاقی سیاست کرنے والی سنٹرل لبرل جماعت ہے۔ قوم پرست یا کمیونسٹ پارٹی بالکل نہیں۔
اسی طرح سرائیکی قومی تحریک بھی قومی تحریک ہے طبقاتی تحریک ہرگز نہیں۔ اپنے حصے کی جدوجہد کئے بغیر وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں سے توقعات باندھ لینا یا منہ بھر کر گالیاں دینا دونوں غلط ہیں۔ کیا قوم پرست اس پوزیشن میں ہیں کہ کوئی وفاقی سیاسی جماعت یہ سمجھے کہ انتخابی سیاست میں ان سے اتحاد بنایا جائے یا بعض علاقوں میں تعاون کی حکمت عملی؟
مکرر عرض کروں ہمارے قوم پرست دوست خوش فہمی کا شکار ہیں اور چند ایک تو ایسی نفرت سے رزق پارہے ہیں جو سیاسی عمل کے لئے زہر قاتل ہے۔
ہماری حالت ویسے وہی ہے"پلے نئیں دھیلا کردی میلہ میلہ"۔ شاہنواز خان اور ان کے دوستوں کا اخلاص اپنی جگہ لیکن سیاست صرف اخلاص سے نہیں ہوتی۔ ممکن ہے میری رائے غلط ہو مگر خانیوال کے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کی حمایت کرنے کی بجائے یہ کہہ کر بائیکاٹ کیا جانا چاہیے تھا کہ سرائیکی صوبہ بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
بہرطور پی ٹی آئی کی حمایت کرنے والی قوم پرست جماعت نے کچھ تو سوچ کر ہی حمایت کی ہوگی۔ اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف، کیا قوم پرست سیاست کا حقیقی وجود ہے؟ حقیقی وجود سے میری مراد یہ ہے کہ سرائیکی قوم پرست متحد ہوکر اس پوزیشن میں ہیں کہ کسی ایک حلقہ انتخاب کے نتائج پر اثرانداز ہوسکیں؟
بہت احترام کے ساتھ اگر یہ عرض کروں کہ ضلع کونسل کی ایک نشست کا انتخابی نتیجہ بدلنے کی قدرت بھی نہیں رکھتے تو برا نہیں منانا چاہیئے۔ ہمارے سامنے سندھی، پشتون اور بلوچ قوم پرستوں کی طویل جدوجہد۔ ان کی عوامی پذیرائی اور سیاسی حیثیت مثال کے طور پر موجود ہے۔
ہم کہاں کھڑے ہیں۔ چار دہائیوں پر پھیلی جدوجہد کے بعد آج بھی ہم یہی سمجھتے اور چاہتے ہیں "فلاں " ہمیں صوبہ بناکر دے سکتا ہے۔ یہ"فلاں " ہمیں صوبہ بناکر کیوں دے گا۔ اس سے پہلے کبھی اس سوال پر بھی غور کیا گیا کہ قوم پرست جس جغرافیائی حدود والے صوبے کا مطالبہ کرتے ہیں اس کی تائید صرف پیپلزپارٹی کرتی ہے (ن) لیگ ہماری تقسیم پر ایمان رکھتی ہے تحریک انصاف نے صوبے والی بات کی تائید کی لیکن ایک ایسی جماعت جو اپنی اتحادی ق لیگ کی بلیک میلنگ کے سامنے بے بس ہو وسیب کی توقعات کیسے پورا کرسکتی ہے۔
جس بات کو ہمارے قوم پرست دوست نظرانداز کرتے آرہے ہیں وہ یہ ہے کہ کیا سرائیکی جماعتیں اس قدر عوامی تائید حاصل کرچکی ہیں کہ وہ سیاسی عمل میں شریک وفاقی سیاسی جماعتوں کی سیاست اور انتخابی حکمت عملی پر اثرانداز ہوسکیں؟ تقاریر، بیانات یا سوشل میڈیا کی مہموں کی اہمیت سے انکار نہیں اصل چیز رابطہ عوام مہم ہے۔ سرائیکی صوبے کا مطالبہ عوامی شعور کا مطالبہ ہے۔ وسیب میں آباد تمام لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے، کسی کے تحفظات ہیں تو انہیں دور کرنے کے لئے کیا ہوا اب تک؟
یہاں صورت یہ ہے کہ سوجھل دھرتی واس کی تحریک پر سرائیکی رابطہ کمیٹی بنی پھر وسیب یاترا کا پروگرام ہوا ایک دوست کمیٹی کے قیام اور وسیب یاترا پر "ٹوٹ" پڑے۔ دعویٰ کیا یہ میرے لانگ مارچ کے خلاف سازش ہے جو ان کے منہ میں آیا کہہ گئے۔ لیکن وہ لانگ مارچ کیا ہوا؟
یہ بدقسمتی ہی ہے کہ ہمارے دوستوں کی اکثریت ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نہیں۔ اس عدم برداشت سے محض قومی تحریک پر منفی اثرات ہی مرتب نہیں ہوئے بلکہ قومی تحریک کے سیاسی اور ازلی دشمنوں کو بھی موقع ملا اور وہ یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ یہ تو خود متحد نہیں چوکوں پر ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں۔
معاف کیجئے گا یہ کچھ غلط بھی نہیں۔ شاہنواز خان جس سرائیکی دانش کو غوروفکر کی دعوت دے رہے ہیں اسے اکٹھا کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں ہی نبھانی ہوگی۔ چلیں نبھا بھی لیں وہ تو کیا واقعی کوئی حل تلاش کیا جاسکتا ہے؟
ہماری دانست میں واحد راستہ یہی ہے کہ اپنی دستیاب صفوں میں نظم و ضبط کو بہتر کیا جائے۔ ایک بھرپور عوامی رابطہ مہم کے ذریعے وسیب کو بتایا جائے کہ استحصالی ہتھکنڈوں کا منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے، اس کے لئے وسیب کو متحد ہونا ہوگا۔ مگر کیا وسیب کو اتحاد اور عمل کی دعوت دینے سے قبل قوم پرستوں کا اپنا اتحاد ضروری نہیں؟
اتحاد مگر کیسے ہو اکثر دوست تو ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ وسعت قلبی سے محرومی بھی ایک عذاب ہی ہے۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ اگر کسی وسیع تر اتحاد کی ضرورت پر قوم پرست غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو پھر یہ صورتحال بلدیاتی انتخابات یا پھر اگلے عام انتخابات میں قوم پرستوں کوکیا نتائج دے گی؟ میری رائے یہی ہے کہ عوامی رابطہ مہم اور وسیع تر اتحاد دونوں ضروری ہیں۔
وفاقی سیاست کرنے والی جماعتوں کی اپنی ضرورتیں اور مجبوریاں ہیں۔ انہیں وسیب کی ضرورت کی طرف متوجہ کرنا ہے تو ایک منظم قوت کے بغیر ممکن نہیں۔ ہم بلندوبانگ (یہاں ہم سے مراد قوم پرست ہیں) دعوے جتنے مرضی کرلیں زمینی حقائق ہمارے دعوئوں کے برعکس ہیں۔ ہم سے اچھے تو بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر کے بے سروساماں مردوزن ہیں جنہوں نے ایک ماہ تک استقامت کے ساتھ دھرنا دے کر صوبائی اور وفاقی حکومت کو جھکنے پر مجبور کردیا۔
کیا سرائیکی قوم پرست اس طرح کا دھرنا دینے اور ڈٹ جانے کی پوزیشن میں ہیں؟ اس سادہ سے سوال پر غور کیجئے۔ بجائے اس کے کہ توتکار سے آسمان سر پر اٹھالیا جائے۔
آخری بات یہ ہے کہ جس جغرافیائی حدود پر مبنی صوبہ کا مطالبہ آپ کررہے ہیں اس کے لئے ہمسایہ اقوام سے مکالمہ کیوں نہیں کرتے بلکہ اس سے پہلے وسیب کےاندر جو لوگ تحفظات کا شکار ہیں ان کے تحفظات کو دور کرنے کے لئے کھلے دل سے ان کے ساتھ بات کیجئے۔