Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Saneha Murree Surat e Haal Ka Zimedar Kon?

Saneha Murree Surat e Haal Ka Zimedar Kon?

سانحہ مری۔ صورتحال کا ذمہ دار کون؟

معروف سیاحتی مقام ملکہ کوہسار مری و گلیات میں طوفانی برف باری کے باعث پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے ہونے والی اموات پر پورا ملک سوگوار ہے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق 23افراد سرد ترین موسم اور برف باری کے طوفان میں پھنس کر زندگی کی بازی ہارگئے، مرنےوالوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ سیاحتی مقام سیاحوں کے لئے ڈراؤنا خو اب کیوں بن گیا؟ اس پر الزام تراشی سے جی بہلانے کی بجائے حقیقت پسندانہ تجزیہء اور مستقبل کے لئے مؤثر انتظامات کی ضرورت ہے۔

مری انتظامیہ کے ذمہ دار ان تسلیم کرتے ہیں کہ علاقے میں مجمو عی طور پر پانچ سے سات ہز ار گاڑیاں پارک کرنے کی گنجائش ہے، جبکہ مری اور گلیات کے علاقوں میں عمومی طور پر 30سے 40 ہزار سیاحوں کے لئے گنجائش ہے، ایسے میں یہ دیکھا جانا ضروری تھا کہ صرف اسلام آباد سے مری کی طرف جانے والی شاہر اہ کے ٹول پلاز ےسے اگر ایک لاکھ سے زائد گاڑیاں مری کے علاقے میں داخل ہوئی ہیں تو اوسطاً فی گاڑی 4 افر اد بھی ہوں تو یہ 4 لاکھ افر اد بنتے ہیں۔

کسی سیاحتی مقام پر عمومی گنجائش سے زیادہ لوگوں کی آمد سے مسائل بہرطور پیدا ہوتے ہیں۔ بالخصوص اس صورت میں تو مسائل سے چشم پوشی نہیں برتی جاسکتی، جبکہ محکمہ موسمیات کے مطابق موسم اور برف باری کے حوالے سے ابتدائی الرٹ 31دسمبر کو اور دوسرا الرٹ 5 جنوری کو جاری کر دیا گیا تھا۔ اس صورت میں یہ مقامی اور صوبائی انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے سیاحوں کو اگلے دنوں میں پیدا ہونے والی صورتحال سے آگاہ کرتے۔

اس حوالے سے کچھ کام ہوا ضرور لیکن وہ اتنا مؤثر نہیں تھا کہ آنے والے دنوں میں پیدا ہونے والی سنگین صورتحال سے لوگ بروقت آگاہ ہو پاتے۔ 5جنوری کو محکمہ موسمیات کی جانب سے جاری کئے جانے والے ریڈ الرٹ کے بعد پنجاب اور خیبرپختونخوا کی سمتوں (طرف) سے مری اور گلیات میں داخلوں کے راستوں کو بند کر دیا جانا چاہیے تھا جوکہ نہیں کیا گیا یہی ابتدائی غلطی خوفناک صورتحال پیدا کرنے کا مؤجب بنی۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ معروف سیاحتی مرکز میں موسمی صورتحال سے عہدہ برا ہونےکے لئے موجود مشینری کی دیکھ بھال کے لئے پچھلے کچھ عرصہ سے فنڈز جاری نہیں ہوئے تھے، ثانیاً یہ کہ 31دسمبر سے گزشتہ روز تک کے درمیانی مرحلہ میں وزارت سیاحت کا کوئی کردار دیکھائی نہیں دے رہا، حالانکہ اس کی بنیادی ذمہ داریوں میں ایک یہ ہے کہ وہ سیاحتی مقامات کی موسمی صورتحال سے شہریوں کو پیشگی آگاہ کرے اور سیاحوں کی رہنمائی کرے۔

اس امر پر بھی دوآرا نہیں کہ ہمارے ہاں مری اور گلیات کے علاوہ موجود دیگر سیاحتی مقامات پر بھی بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے حوالے سے غوروخوض کی کبھی ضرورت محصوص کی گئی نا ہی ان دیگر مقامات کو سیاحتی مرکز کے طور پر متعارف کرانے کی، جہاں اگر بنیادی سہولتیں فراہم کی جائیں تو کسی ایک معروف سیاحتی مرکز پر لوگوں کی بڑی تعداد کے پہنچنے سے جنم لینے والے مسائل میں کمی آسکتی ہے۔

اس تلخ حقیقت کو نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں کہ مری و گلیات یا دوسرے سیاحتی مقامات پر کاروباری لوگوں کا رویہ سیاحتی مراکز کے حوالے سے میں دنیا بھر میں پائے جانے والے شعور اور ذمہ داریوں کے احساس سے یکسر مختلف ہے۔ ہمارے سیاحتی مراکز محض آمدنی کا ذریعہ ہیں انسانیت سے یکسر محروم ماضی میں ان رویوں کی وجہ سے درجنوں ناپسندیوں واقعات جنم لے چکے حالیہ صورتحال میں بھی لوگ شکایت کرتے دکھائی دیئے کہ ایک عام 3 سے 5ہزار کر ایہ والے کمرہ کا کرایہ 40 سے 50ہزار روپے طلب کیا گیا۔ چائے کا ایک کپ 5سو روپے اور ابلا ہوا انڈہ 250روپے میں فروخت ہوا۔

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جہاں سیاحتی مراکز کے کاروبار سے منسلک لوگ احساس ذمہ داری اور سماجی ذمہ داریوں سے نابلد ہیں، وہیں عام سیاح بھی اس امر سے بے خبر رہے کہ گنجائش سے زیادہ لوگوں کی آمد سے کیامسائل جنم لیتے ہیں اور خدانخواستہ موسمی حالات بگڑنے لگیں تو انہیں کیا کرنا ہے۔ مری اور گلیات میں پیدا ہوئی حالیہ صورتحال میں پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتوں نے اپنی ذمہ داریوں کی طرف تاخیر سے توجہ دی۔ وزیر داخلہ خود اعتراف کرتے دیکھائی دیئے کہ سیاحتی مقامات پر خیبرپختونخوا کی سمت سے لوگوں کی آمد کے سلسلے کو روک دیا جانا چاہیے تھا۔

ہماری دانست میں غفلت صرف پختونخوا کی طرف سے ہی نہیں ہوئی پنجاب کی طرف سے سیاحتی مقامات کو جانے والے راستے بھی 5جنوری کو کسی تاخیر کے بغیر بند کرکے کوشش کی جانی چاہئے تھی تاکہ سیاحتی مراکز میں موجود لوگوں کی تعداد کو گنجائش کے مطابق لایا جاسکے۔ بر طور اب لکیریں پیٹنے یا الز ام تراشی کی بجائے مستقبل کے حوالے سے انتظامات کو بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔

اسی طرح عام سیاح کو تب دوش دیا جاسکتا ہے جب سیاحتی مقامات میں موسم کے حوالے سے پیشگی آگاہی کا کوئی انتظام ہوتا۔ آج کے جدید دور میں جب ہر شخص موبائل استعمال کرتا ہے تو یہ ضروری تھا کہ مری کا رخ کرنے والے موسمیات کی معلومات دینے والی ویب سائٹس کی خدمات سے استفادہ کرتے۔ سرد موسم اور طوفانی برف باری سے پیدا شدہ سے جنم لینے والے سانحہ پر ہر شخص دکھی ہے۔ غم سے نڈھال شہریوں کے زخموں پر نمک پاشی کسی بھی طرح درست نہیں۔

ہماری دانست میں صورتحال کے بگڑنے کے بعد ہوئے معاملات کا بغور جائزہ لیا جانا ہی کافی نہیں بلکہ ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مری و گلیات کے دونوں صوبوں کے حصے میں آنے والے سیاحتی علاقوں کی انتظامیہ سے بھی جواب طلبی ازحد ضروری ہے کہ 5جنوری کے ریڈ الرٹ کے بعد صورتحال سے نمٹنے کے لئے انہوں نے کیا پیش بندی کی۔ ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ ریڈ الرٹ 5جنوری کو جاری ہوا اور سول انتظامیہ نے ہنگامی حالات میں امدادی کاموں کے لئے فوج سے تعاون کی درخواست 8جنوری کی دوپہر کو کی۔ بہت تاخیر بھی ہوتی تو فوج سے تعاون کی درخواست 7جنوری کی صبح کی جانی چاہئے تھی یقیناً اس طور جانی نقصان میں کمی ہوسکتی تھی۔

یہاں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ سیاحتی مقامات پر کاروبار کرنے والوں کو بھی اس سوچ سے نجات حاصل کرنا ہوگی کہ "آمدنی کا صرف یہی موقع ہے" سیاحتی مقامات کے کاروباری حضرات کی یہ سوچ انسانی جذبوں سے خالی ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے لوگوں کی سیاحتی مقام پر سیروتفریح کے حو الے سے کوئی تربیت نہیں ہے اور نہ انہیں یہ معلوم ہے کہ برف باری کے دوران سڑکوں پر ٹریفک کے اصول کیا ہوتے ہیں بنیادی معلومات سے محرومی اور عدم رہنمائی بھی صورتحال کو سنگین بنانے کی وجہ ثابت ہوئے۔

بہرحال اب جو کام کرنے کے ہیں، وہ یہ ہیں کہ سیاحتی مقامات پر سیروتفریح کے خواہش مند لوگوں کی عالمی معیار کے مطابق رہنمائی کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ اس امر کویقینی بنایا جائے کہ گنجائش سے زائد گاڑیاں اور لوگ سیاحتی مراکز کی طرف نہ جانے پائیں۔ گاڑیوں اور افراد کے لئے طریقہ کار وضع کیا جائے۔ غیر معروف سیاحتی مقامات پر بھی تعمیر وترقی کے کام کئے جائیں تاکہ کسی ایک جگہ پر ضرورت سے زیادہ لوگوں کا بوجھ نہ پڑے۔ اسی طرح جو دیگر اقدامات اور ضرورتیں سیاحتی مراکز کے حوالے سے اہم اور لازم ہیں ان پر توجہ مرکوز کی جائے۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo