Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Haider Javed Syed
  4. Sadarti Nizam Ke Truck Ki Batti

Sadarti Nizam Ke Truck Ki Batti

صدارتی نظام کے ٹرک کی بتی

پچھلے چند دنوں سے ہمیں (رعایا کو) صدارتی نظام کے فضائل گنوائے سمجھائے جارہے ہیں۔ ایک دوست نے دعویٰ کیا کہ صدارتی نظام صوبہ خیبر پختونخوا کے بلدیاتی نظام جیسا ہی ہے۔عرض کیا کہ تحصیل ناظم اور میئر کا براہ راست انتخاب، تحصیل ناظم اے سی کا اور میئر کمشنر کا تابعدار ہوگا نئی قانونی تبدیلی کے بعد، اب کون بتلائے گا کہ صدر کس کا تابعدار ہوگا؟

بنی گالوی ٹائیگرزنے جناب عمران خان کی تصویر لگاکر لکھ رکھا ہے "عمران خان، انشاء اللہ صدر مملکت"۔ کیا ہم یہ سمجھیں کہ عالی جناب کو نظام بھی اچھا نہیں ملا اور ساڑھے تین سال بعداحساس دوچند ہوا کہ سارے مسائل کا حل صدارتی نظام ہے، امریکہ و فرانس کے ساتھ وینزویلا وغیرہ کی مثالیں دی جارہی ہیں۔

کچھ کہہ رہے ہیں کہ یک ایوانی نظام ہوگا۔ سینیٹ کا براہ راست انتخاب۔ کچھ کے مطابق وزیراعلیٰ براہ راست منتخب ہوگا۔ جبکہ امریکہ میں گورنر منتخب ہوتے ہیں۔اسی دوران مرحوم جنرل حمید گل کے صاحبزادے عبداللہ گل کو امام انقلاب کے طور پر پیش کیا گیا۔ کوئی انہیں بتلائے تو انقلاب جدوجہد مسلسل سے آتا ہے۔

خیر چھوڑیں ہمیں کیا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا صدارتی نظام کی 1973ء کے دستور میں گنجائش ہے؟ نظام کی تبدیلی کیسے ہوگی۔ ریفرنڈم، جیسے ضیاء اور مشرف نے کروائے؟ معاف کیجئے گااس ملک میں اگرایک فوجی آمر کو آئین میں ترامیم کے اختیارات مل سکتے ہیں تو کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

سمجھنے والی بات یہ ہے کہ پاکستان چار صوبوں اور پانچ قوموں کی فیڈریشن ہے۔ 1973ء کا دستور "اعصابی" کمزوری کے باوجود انہیں باندھے ہوئے ہے۔ اس سے چھیڑچھاڑ یا کسی اور تجربے کا ڈول ڈالنے سے جو صورتحال پیدا ہوگی اس سے نکلیں گے کیسے؟ ،73ء کے دستوری ڈھانچے کو تبدیل کرنا بچوں کا کھیل لگتا ہے جنہیں وہ تجربہ کرکے دیکھ لیں۔ دانتوں تک کو پسینہ آجائے گا۔

ہمارے ہمزاد فقیر راحموں کہتے ہیں"امریکی ڈالر، امدادیں، سپورٹنگ و لاجسٹک فنڈز، جہاد اور کمائی کے سارے دروازے بند ہیں۔ 18ویں ترمیم کی ہڈی گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔ اخراجات کا بوجھ ہے آمدنی کم۔ روز اول سے ہم قرضوں اور امدادوں کے ساتھ خدمات کے معاوضہ کے ساتھ کام چلانے میں مصروف تھے۔ زرعی معیشت والی ریاست میں زراعت ہی سب سے زیادہ برباد ہوئی۔ اب بھاری بھرکم اخراجات پورے کرنے کے لئے ٹیکسوں کی بھرمار ہے مہنگائی اور دوسرے مسائل سے بلکتے لوگوں کو "کینڈے" میں رکھنے کے لئے جو بن پڑے گا وہ کریں گے "وہی"، "

عرض کیا وہی کون؟ فقیر راحموں بولے اتنے بھی سادہ نہیں ہو کہ "انہیں " نہ جانتے ہو۔کیا واقعی ایسا ہے کہ جو مسائل ہیں ان سے صدارتی نظام کے ذریعہ ہی نبردآزما ہوا جاسکتا ہے؟ چلیں مان لیا یہی غم جاناں کا علاج ہے۔ معالج کون ہوگا۔سوشل میڈیا پر اٹھائی گئی بحث اب الیکٹرانک میڈیا پر سنائی دینے لگی ہے۔ اشارے جناب عمران خان کی طرف جارہے ہیں۔ بہت ادب و احترام کے ساتھ یہ عرض کرنا پڑے گا۔ کیا بطور وزیراعظم وہ عوام کی توقعات پر پورا اترپائے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ بالکل نہیں۔

اعدادوشمار کا لطیفہ سن لیجئے، جمعرات کو ہمیں بتایاگیا ملک میں جی ڈی پی کی شرح گروتھ 5.3 فیصد ہے۔ جمعہ کی دوپہر تک یہ 5.7فیصد ہوگئی تھی۔ اسی شام وزیراعظم کا ایک بیان جاری ہوا جس میں انہوں نے جی ڈی پی کی شرح کو 5.37 فیصد قرار دیتے ہوئے اپنی حکومت کو مبارکباد دی۔کمال نہیں ہوگیا صاحب ابھی پچھلے ماہ جی ڈی پی مشکل سے 3فیصد تھی۔ راتوں رات 5.3سے ہوتی ہوئی 5.37فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ معجزہ کیسے ہوا؟

پیپلزپارٹی والے جی ڈی پی 3.7فیصد سے اوپر چھوڑ گئے تھے۔ (ن) لیگ والے 5.7 فیصد۔ پچھلے ساڑھے تین برسوں میں مشکل سے پھر3فیصد تک پہنچی یہ شرح، اب کیا چمتکار ہوگیا کہ 5.37 فیصد ہے۔اعدادوشمار کے اس فریب سے جی بہلانے والوں کو نہیں بھولنا چاہیے کہ اسی طرح کے چکر سے گھن چکر بنانے میں ماہر نواز لیگ کے "فیثا غورث" اسحق ڈار کی وجہ سے حکومت کوکروڑوں ڈالرز جرمانہ ادا کرنا پڑا تھا۔

جی ڈی پی نہ ہوئی ظفر اقبال کا شعر ہوگیا۔ ظفر اقبال یہ صاحب خود کو اردو ادب کے چچا غالب سے بڑا شاعر سمجھتے ہیں اور تصدیق میں بعض تحاریر بھی پیش کرتے ہیں۔ اب اگر آپ ظفر اقبال کو چچا غالب سے بڑا اور قادرالکلام شاعر مانتے ہیں تو جی ڈی پی کی شرح 5.37 فیصد آپ کے لئے ہی ہے۔ انکار اپنے ر سک پر کیجئے گا۔معاف کیجئے گا ہم صدارتی نظام پر بات کررہے تھے۔ عرض کرچکا اس ملک میں کچھ بھی ہوسکتا ہے یہ نظاموں کی تجربہ گاہ ہے۔ صرف نظاموں کی ہی نہیں پچھلے چوہتر برسوں میں انگنت تجربے کئے گئے اس لیبارٹری میں۔ ایک تجربہ اور سہی۔

آپ نے وہ پرانی پاکستانی اردو فلم "ایک گناہ اور سہی" تو دیکھی ہی ہوگی۔ بس ایسا ہی معاملہ ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ 1973ء کا آئین صدارتی نظام کی اجازت نہیں دیتا۔ پارلیمانی نظام کا دستور ہے۔ خاکم بدہن اگر اس کی جگہ نیا دستور لایا جائے تو کیا 1973ء والا اتفاق رائے ممکن ہے؟ہمارے جو دوست صدارتی نظام کو نظام خلافت کا نعم البدل قرار دے رہے ہیں لگتا ہے انہیں "سردی" لگ گئی ہے۔ ورنہ وہ مسلم تاریخ کے اوراق الٹ کر استفادہ کرسکتے تھے۔

مکرر عرض کروں گا پارلیمانی نظام اگر ڈلیور نہیں کرسکا تو یہ نظام کی خرابی نہیں نظام چلانے والوں کے کج ہیں۔ آسان لفظ لکھا ہے حد ادب کی وجہ سے۔ نظام نہیں افراد ناکام ہوتے ہیں۔ نظام تب ناکام ہوتاہے جب اس میں عصری تقاضوں کو نظرانداز کیا جائے۔ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلیاں آتی ہیں۔ بہتر سے بہتر تر کا حصول یا اس کی خواہش برائی نہیں۔1973ء کے دستور سے چھیڑچھاڑ کا مطلب سمجھنے کی کوشش کیجئے۔ یہ ملک جدوجہد سے معرض وجود میں آیا۔ جدوجہد کا بیانیہ بناکر عالمی طاقتوں نے تقسیم کا جو نیا ایجنڈا بنایا تھا اس کے نتیجے میں؟ یہ بحث اب غیرضروری ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے۔ کچھ خرابی ہے تو مل بیٹھ کر دور کیجئے۔ ہاں اگر کسی پر "شونق" سوار ہے تو یہ الگ بات ہے۔چھوٹے صوبوں کی شکایات پارلیمانی جمہوریت میں بھی موجود ہیں۔ صدارتی نظام، یہاں تین صوبے مل کر بھی ایک بڑے صوبے کے برابر ووٹ نہیں رکھتے۔ آپ جانتے ہیں اس کا نتیجہ ایک نئی شخصی و صوبائی آمریت کی صورت میں سامنے آئے گا۔

وہ لوگ جو آستینیں الٹ الٹ کر کہہ رہے ہیں پارلیمانی نظام کون سا مقدس کتاب میں لکھا ہےان کی خدمت میں عرض ہے مقدس کتاب کاوہ صفحہ دیکھا دیجئے جس میں صدارتی نظام لکھا ہو؟بھلے لوگو نظام سماج کی ضروریات کے لئے بنتے ہیں، خوبی یہ ہوتی ہے کہ سماجی ارتقا کے سفر میں نظام معاون و رہنما بنتا ہے۔ ارتقا کا راستہ نہیں روکتا۔ ارتقا کے دشمن فقط دو ہیں اولاً جہالت اور ثانیاً آمریت۔

ہم تجربوں (مزید تجربوں) کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ لوگوں کو بند گلی میں دھکیلنے سے اجتناب کیجئے، اسی میں سب کی بھلائی ہے۔

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib