Koi To Ho Jo Chara Gari Kare
کوئی تو ہو جو چارہ گری کرے
حکمران جماعت کے قائدین اقتدار کے سوا تین سال گزر جانے کے باوجود اب بھی یہ سوچنے کیلئے تیار نہیں کہ ایک حکومت کے فرائض کیا ہوتے ہیں اور یہ کے عوام کو الزاماتی سیاست کے تماشوں سے زیادہ اس بات سے دلچسپی ہے کہ دن بدن گھمبیر ہوتے جان لیوا مسائل حل کرنے میں حکومت ناکام کیوں رہی، ہم اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ طرز حکومت پر غور کے لیے کسی کے پاس وقت نہیں پھلجڑیاں چھوڑنے میں ارباب اختیار ایک میراتھن ریس میں شریک ہیں اور سارے کھیلاڑی نمبرون بننے کے چکر میں ہیں۔
سادہ لفظوں میں کہیں تو حکمران قیادت ابھی تک " اپوزیشن " والے دماغ سے ہی سوچتی اور بولتی ہے جبکہ مسائل اور ضرورتیں ان سے سوا ہیں، ہرگزرنے والے دن کے ساتھ لوگوں کی زندگی اجیران ہورہی ہے اور یہاں وہی راگ ملہاری ہے جو بائیس برسوں سے اونچے سُروں کے ساتھ گایا جارہا ہے۔
حالت یہ ہے کہ آپ کسی وزیر مشیر سے مہنگائی کی بابت بات کریں جواب ملے گا یہ تو عالمی مسئلہ ہے ہم کیا کرسکتے ہیں، مہنگائی اب عالمی مسئلہ ہے عجیب بات ہے ماضی میں تو کہا جاتا تھا کہ مہنگائی حکمرانوں کی کرپشن سے بڑھتی ہے، کرپشن پر یاد آیا گزشتہ سے پیوستہ روز وزیراعظم نے بائیس سالوں کے دوران کی گئی تقاریر کو جمع کرکے ایک نئی تقریر کردی اب سوال یہ ہے کہ اگر وزیراعظم عمران خان کے تواتر کے ساتھ اپنائے گئے اس موقف کو درست مان لیا جائے کہ "ہمارا مقابلہ مافیاز کے ساتھ ہے، کرپٹ نظام کی تبدیلی کے بغیر سدھار نہیں آسکتا اور یہ کہ قومیں اخلاقیات کی بنیاد پر ترقی کرتی ہیں " تو ان سے یہ پوچھا جانا بھی بنتا ہے کہ سوا تین سال کے اب تک کے عرصہ اقتدار میں انہوں نے مافیا کے خلاف کیا قانون سازی کی اور کتنے لوگوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائے۔
کرپٹ نظام کو بہتر بنانے کےلئے ان کی حکومت نے اب تک کیا اقدامات اٹھائے اور یہ کہ سماجی اقدار و اخلاقیات کی مثالی ترویج کے لئے انہوں نے کیا کیا؟ محض جذباتی تقاریر، نعروں اور الزام تراشی سے اصلاحات ہوسکتی ہیں نا ہی اس سے محفوظ اور روشن مستقبل کی بنیاد رکھتی جاسکتی ہے کہ جس پر آنے والی نسلیں فخر کریں۔
حالت یہ ہے کہ جن انتخابی اصلاحات کو وہ تاریخ ساز قرار دیتے آرہے ہیں خود ان کے اتحادی اس سے یہ کہہ کر بری الذمہ ہوگئے کہ ہمیں تو کسی نے اس کی الف بے تک نہیں بتائی۔ یہ ایک مثال ہے۔ وزیراعظم چاہیں تو اپنے دور اقتدار کے اب تک کے عرصہ کا عمومی تجزیہ کرکے دیکھ لیں ماسوائے اس کے کہ گزشتہ 72سالوں کو تنقید کا نشانہ بنانے، ہر ناکامی کا ذمہ دار سابق حکومتوں کو ٹھہراکر ایک نئی کہانی سنانے کے ان کے وزراء، مشیروں اور مصاحبین نے کچھ نہیں کیا۔
جن مافیاز سے مقابلہ میں انہیں ناکامی ہوئی اس کی وجوہات پر غور کے ساتھ وہ اس امر پر توجہ دیں کہ جو سکینڈل ان کے دور میں سامنے آئے ان کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی۔ حالت یہ ہے کہ 2019ء میں وفاقی وزارت صحت نے ادویات کی قیمتوں میں 5سے 15فیصد اضافے کی منظوری دی اس منظوری نے ایک سکینڈل کو جنم دیا۔
اب اڑھائی سال بعد نیب نے اس سابق وزیر صحت کے خلاف تحقیقات بند کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ ادویات کی قیمتیں بڑھانے کا فیصلہ سابق حکومت کا تھا حالانکہ جس وقت وزیراعظم نے اپنے وزیر صحت کو منصب سے الگ کیا تو انہوں نے تین باتوں پر زور دیا، وہ اس کی تحقیقات کروائیں گے کہ 5سے 15فیصد تک قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کے اجراء میں ان الزامات کا کتنا دخل ہے جو ذرائع ابلاغ کے ذریعے سامنے آئے۔ یہ کہ ادویہ ساز اداروں نے کس برتے پر قیمتوں میں 20سے 200فیصد اضافہ کیا۔ انہوں نے ہی وعدہ کیا تھا کہ زائد قیمتوں کے نام پر عوام سے وصول کی گئی رقم واپس لی جائے گی۔
کیا وزیراعظم نے محض اخباری خبروں پر وزیر صحت کو منصب سے ہٹاکر تحقیقات کا اعلان کردیا تھا؟ ایسا ہے تو خود ان کی جماعت پچھلے 25برسوں سے جو کرپشن کہانیاں سناتی آرہی ہے وہ بھی زیادہ تراخباری کہانیاں ہی ہیں ان کہانیوں کا کردار قرار پانے والوں کی اکثریت کا موقف ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ کہانیاں گھڑیں اور اپنے کارندوں کے ذریعے ان کی تشہیر کی۔
چلیں اگر اس موقف کو رد بھی کردیں تو بھی اصل حقیقت شفاف تحقیقات کے ذریعے ہی قوم کے سامنے آسکتی ہے۔ اصولی طور پر ان کا فرض تھا کہ وہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہی ایک قومی تحقیقاتی کمیشن قائم کرتے جو ان کرپشن کہانیوں کی آزادانہ تحقیقات کرکے نتائج پارلیمان کے سامنے رکھتا بدقسمتی سے جس نظام کو وہ کرپشن کا محافظ قرار دیتے رہے انہوں نے بھی اسی نظام کے سہارے ہی معاملات چلانے کی کوشش کی نتیجتاً سوا تین برس بعد وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ "کرپٹ نظام سے فائدے اٹھانے والے ہماری اصلاحات کے مخالف ہیں "۔
سوا تین برس قبل جب انہوں نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تھا تو یہ امید کی جارہی تھی کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق شفاف احتساب اور بلاامتیاز انصاف کے لئے فوری طورپر اقدامات کریں گے لیکن افسوس کہ ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ دونوں امیدیں خاک ہوئیں۔ انہوں نے تبدیلی کے بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کیا اور ان کے ساتھیوں نے پرانی داستانوں سے عوام کو بہلانے میں دن رات ایک کردیئے۔ اسی طرح اگر دیگر معاملات کا بھی بغور جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی بہتری نہیں ہوئی۔
کچھ عرصہ قبل وہ خود اس امر کا اعتراف کرچکے کہ موجودہ مہنگائی 20سال کے عرصہ میں سب سے زیادہ ہے۔ مالیاتی امور کے لئے ان کے مشیروں نے عالمی مالیاتی اداروں سے ایسے معاہدہ کئے جن کی شرائط پر عمل نے اس ملک کے عام آدمی کو زندہ درگور کردیا۔
سماجی روایات اور اخلاق سازی پر وہ ہمیشہ زور دیتے رہے مگر ان کی جماعت کے لوگ نہ صرف اسی رنگ میں رنگ گئے بلکہ انہوں نے نئے ریکارڈ بھی بنائے آپ سوشل میڈیا کی کسی سائٹ کا وزٹ کیجے آپ کو پتہ چل جائے گا کے محبان تبدیلی کیسی زبان استعمال کرتے ہیں، ملک میں بیروزگاری میں اضافہ ہوا۔ ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق تین برسوں کے دوران غریب افراد کی تعداد میں 2کروڑ کا اضافہ ہوا۔ آمدنی اور اخراجات میں عدم توازن کے سونامی نے سب کچھ تلپٹ کرکے رکھ دیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ "خدا ہی ملا نہ وصال صنم" تو یہ کچھ غلط نہیں ہوگا۔
مسائل ماضی کے مقابلہ میں گھمبیر ہیں دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اب ادارہ شماریات کو حکم دیا ہے کہ مہنگائی کی ہفتہ وار رپورٹ کا اجرا بند کردیا جائے اور رپورٹ ماہانہ بنیادوں پر جاری کی جائے یعنی پٹرولیم گیس اور بجلی کی قیمتیں جب مرضی بڑھا کر مہنگائی کا طوفان برپا کیا جائے لیکن حساب مہنہ بعد واہ صاحب واہ۔
کڑواسچ یہ ہے کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے طوفان تھمنے میں نہیں آرہے۔ مافیاز کا مقابلہ کرنے کے عزم کو دہرانے والے مافیاز کے سامنے بے بس اس لئے ہیں کہ اپنی صفوں میں موجود چینی، آٹا، ادویات اور کھاد و گندم کے مافیاز کے خلاف کارروائی نہیں کرپائے۔
وزیراعظم کے لئے قابل غور بات یہ ہے کہ جن اقدامات اور معاہدوں کو وہ عوام دشمنی اور کرپشن کا طریقہ بتاتے تھے۔ یہ سب تو ان کے دور میں بھی ہوا اور ہورہا ہے۔ ان حالات میں اگر وہ ٹھنڈے دل سے غور کرسکیں تو یہ جان پائیں گے کہ عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوا ہے اور یہ بھی کہ مایوسی ہرگزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جارہی ہے۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ اب کرپشن کہانیوں کے کاروبار کی جگہ اپنی ذمہ داریوں پر توجہ دی جائے تاکہ کوئی ایک مسلہ تو حل ہو۔