Khyber Pakhtunkhwa Mein Faiz O Karam Ki Doom
خیبر پختونخوا میں "فیض و کرم" کی "دھوم"
خیبر پختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ میں ابتدائی طور پر 64میں سے 60 تحصیلوں کے نتائج آچکے ہیں، تبدیلی والے دوستوں سے آگے محب مکرم مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی ہے جس کے امیدواروں نے 18 تحصیلوں کونسلوں اور 3 کارپوریشنوں کی سربراہی حاصل کی۔ پی ٹی آئی نے 15، آزاد امیدواروں نے 10، اے این پی نے 6، (ن) لیگ نے اصولی طور پر 2تحصیلوں میں کامیابی حاصل کی ہے البتہ تیسرے میں آزاد امیدوار نے ہری پور تحصیل سے (ن) لیگ کے امیدوار کو شکست دی ہے کامیاب ہونے والے بھی چونکہ بنیادی طور پر (ن) لیگ کے پرانے رکن ہیں اس لئے (ن) لیگ کے 3کامیاب امیدوار بتائے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی نے 2 جبکہ پیپلزپارٹی نے ایک نشست حاصل کی ہے۔
پشاور کے میئر کا نتیجہ بظاہر جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمن کے داماد زبیر علی کے حق میں ہے لیکن ابھی 6پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابی عمل ہونا ہے اس لئے حتمی بات یا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ پیپلزپارٹی کے اس دعوے کی کہ اسکے امیدوار کے 19ہزار ووٹ مسترد کرکے جے یو آئی کو راستہ دیا گیا، کی آزاد صحافتی ذرائع اور الیکشن کمیشن کی جانب سے تصدیق نہیں کی جارہی ویسے یہ دعویٰ سوشل میڈیا پر دوڑایا جارہا ہے۔ پی پی پی خیبر پختونخوا کے ذمہ داران بھی اسکی تصدیق نہیں کررہے۔ اتوار اور سوموار کی درمیانی شب جیالوں نے ارباب ہائوس سے مبینہ طور پر فراہم کردہ نتائج کی بنیاد پر پشاور میئر کی نشست پر اپنے امیدوار کی کامیابی کا سماں باندھے رکھا۔
بظاہر یہ دعویٰ اسی طرح غلط رہا جیسے اب سول سپر میسی کے پرجوش حامی سوشل میڈیا پر 17 اضلاع میں کل ڈالے گئے ووٹوں کا حساب بتاتے ہوئے لکھ رہے ہیں کہ پیپلزپارٹی نے 17 اضلاع میں کل 36ہزار ووٹ لئے ہیں۔ حالانکہ پشاور میں اب تک اس کے امیدوار کے ووٹ 45ہزار سے زائد ہیں۔ تحصیل میئر پہاڑ پور مخدوم سید الطاف حسین کے مجموعی ووٹ 30ہزار سے زائد ہیں صرف ان دو حلقوں کے ووٹ ملاکر دیکھیں تو یہ 75ہزار بنتے ہیں لیکن دونوں جماعتوں کے محبین ایک دوسرے کے بارے میں سوشل میڈیا پر جھوٹ بول کر کسی نوبل پرائز کا حق دار بنناچاہتے ہیں۔
خیر چھوڑیں یہ ان دونوں جماعتوں کے متوالوں اور جیالوں کا معاملہ ہے البتہ شکر ہے کہ نظریاتی سیاست کا کمبل اوڑھے پیپلزپارٹی کے سوشل میڈیا مجاہدین نے جھوٹا بولنا اور پھر اس پر ڈٹ جانا سیکھ لیا ہے۔ پی ٹی آئی کے ہاتھ سے بلدیاتی انتخابات کا پہلا مرحلہ کیسے نکل گیا؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے اس کا ایک جواب تو یہ ہے جو مولانا فضل الرحمن نے دیا ان کا کہنا ہے کہ "ثابت ہوگیا کہ 2018ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی"۔ فقیر راحموں کہتے ہیں ویسی ہی دھاندلی جیسی 2002ء کے عام انتخابات میں "سرکاری گاڑیوں " پر انتخابی مہم چلانے والے ایم ایم اے (متحدہ مجلس عمل) کے امیدواروں کو کامیاب کرانے کے لئے کی گئی تھی۔
17 اضلاع کے ابتدائی بلدیاتی نتائج میں جے یو آئی بڑی اور کامیاب جماعت کے طور پر سامنے آئی کیا یہ کسی کا "فیض" ہے۔ پڑوس کی مذہبی حکومت کا اثر یا کچھ اور؟ اس ایک جمع تین سوال کے جواب بھی دوڑ بھاگ رہے ہیں۔ ہمارے محبوب شاعر احمد فراز مرحوم کے صاحبزادے سینیٹر اور وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی شبلی فراز کہتے ہیں "پی ٹی آئی کا مقابلہ پی ٹی آئی سے تھا" ان کی بات درست نہیں ہے البتہ "جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے"۔ ہمارے دوست شوکت یوسفزئی جو کے پی کے صوبائی وزیر ہیں نے اعتراف کیاکہ شکست کی بڑی وجہ مہنگائی ہے۔
فقیر راحموں بولے "شاہ جی دنیا کے سستے ترین ملک میں مہنگائی کے مارے رائے دہندگان نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہے سمجھنے والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں "ایک ظلم یہ ہوا کہ ہمارے درود والے وزیر علی محمد خان کے ضلع مردان کے 2حلقوں میں اے این پی اور تین میں جے یو آئی جیت گئی۔ ظالم رائے دہندگان نے تحریک پاکستان میں علی محمد خان خاندان کی جدوجہد اور قربانیوں کااعتراف کرنے کی "زحمت" ہی نہیں کی۔ ڈیرہ اسماعیل خان تحصیل میئر کا انتخاب اے این پی کے امیدوار کے سفاکانہ قتل کی وجہ سے ملتوی ہوا مقتول کے صاحبزادے نے قتل کاالزام براہ راست علی امین گنڈاپور اور ان کے بھائی پر لگاتے ہوئے انکشاف کیا کہ قتل سے دو دن قبل ان کے والدکو الیکشن سے دستبردار ہونے کے لئے 2کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی تھی۔
بہرطور یہ 64میں سے 60حلقوں کے نتائج ہیں چند وفاقی اور صوبائی وزراء کے آبائی اضلاع سے ان کی جماعت مکمل طور پر ہار گئی یہاں تک کہ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کی آبائی یونین کونسل سے پیپلزپارٹی جیت گئی۔ یہ سطور لکھنے کے دوران اطلاع ملی کہ حکمران تحریک انصاف نے اپنی کور کمیٹی کا ہنگامی اجلاس طلب کرلیا ہے اور غالباً وزیرعلیٰ محمود خان، صوبائی وزراء اور صوبے سے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو بھی جواب طلبی کے لئے بلایا گیا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ کے ابتدائی نتائج سب کے لئے حیران کن ہیں۔ جے یو آئی کی اس انداز میں واپسی کو کسی کے "فیض و کرم" کا نتیجہ بھی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ دعویٰ بھی ہے کہ مارچ 2021ء میں جووعدہ پورا کیا جانا تھا اب مارچ 2022ء میں پورا کردیا جائے گا۔
خیر ان دعوئوں پر بحث اٹھانے میں ایک سے زائد "امر مانع ہیں "سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے دوست دعویٰ یہ کررہے تھے کہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کی اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل ہوگئی ہے اس لئے پی پی پی کو لاہور کے ضمنی الیکشن میں 32ہزار اور خانیوال کے ضمنی الیکشن میں 15ہزار ووٹ ملے اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسی ڈیل ہے جو ہوئی آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے ساتھ تھی مگر خیبر پختونخوا میں ابتدائی مرحلہ میں بڑی جماعت جمعیت علمائے اسلام ہے۔ ہاں البتہ اگر پیپلزپارٹی اس سے نصف تعداد میں بھی کامیابی حاصل کرلیتی تو پھر ڈیل والی " پھکی" کی ریکارڈ توڑ فروخت ہونی تھی۔
مولوی چونکہ اس معاشرے کی "خدا کے بعد" طاقتور ترین قوت ہیں اس لئے کوئی بھی اب ایمان کو خطرے میں ڈالنے کی جرات نہیں کرے گا"مکرر عرض ہے کہ پشاور کے حلقہ انتخاب میں چونکہ ابھی 6پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات ہونے ہیں، پی ٹی آئی دوبارہ گنتی کی درخواست کررہی ہے اور پیپلزپارٹی اپنے مسترد ووٹوں کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے دونوں کی درخواستیں قبول ہوئیں تو صورتحال واضح ہونے کے ساتھ 19ہزار ووٹوں کے مسترد کئے جانے کی "حقیقت" بھی عیاں ہوجائے گی۔
اب آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلہ سے قبل کچھ حلقے اے این پی اور پیپلزپارٹی کو انتخابی اتحاد بنانے کا مشورہ دے رہے تھے جو دونوں جماعتوں کے مقامی طور پر "زور آور" لوگوں نے نہیں مانے اس لئے بات آگے نہ بڑھ پائی البتہ اب اگر ا بتدائی مرحلہ کے 17 اضلاع کے مجموعی نتائج کو سامنے رکھا جائے تو انتخابی اتحاد کا مشورہ درست معلوم ہوتا ہے۔ پشاور سمیت جتنے بھی حلقوں کے ابتدائی نتائج میں اے این پی اور پیپلزپارٹی نے جیتنے والے امیدوار کے مقابلہ میں ووٹ لئے ہیں یہ ووٹ اگر انتخابی اتحاد کی صورت اختیار کرتے تو نتیجہ یقیناً مختلف ہوتا۔
درون سینہ رازوں سے آگاہ دوست یہ دعویٰ کررہے ہیں کہ ایک وقت میں مشترکہ طور پر الیکشن لڑنے کی بات چلی تھی لیکن پشاور اور ڈی آئی خان کے تحصیل میئروں کے لئے دونوں اپنے اپنے امیدواروں سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے۔ کیوں نہیں ہوئے اس کا ایک خاص پس منظر ہے خصوصاً پشاور کی حد تک ہمارے دوست حسن رانا کائنات کی سب سے بڑی جمہوری پارٹی کی شکست پر خوش اور فقیر راحموں جماعت اسلامی کو صرف 2 تحصیل سربراہ ملنے پر، خیر یہ دونوں کے ذاتی مسئلہ ہیں۔
رانا جی سول سپر میسی کے حامی ہیں اور فقیر راحموں جماندرو طور پر عالمگیر انقلاب اسلامی کے ناقد، چلیں ان دونوں کی باتیں چھوڑیں آپ بس جناب شبلی فرازاور فواد حسین چودھری کی وضاحتوں کے مزے لیجئے دونوں ایسی ایسی تاویلات پیش کررہے ہیں کہ ان کی تشریح و تفسیر یہ خود بھی نہیں کرپائیں گے۔