Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Huzoor Maan Lijiye Ke Aap Hukumat Mein Hain

Huzoor Maan Lijiye Ke Aap Hukumat Mein Hain

حضور مان لیجے کہ آپ حکومت میں ہیں

تین سال سے کچھ اوپر ہوگئے بائیس سال کی " جدوجہد " کے " ذریعے " اقتدار حاصل کرنے والوں کو لیکن مجال ہے اب تک ڈی چوک کے " سحر " اور اپوزیشن مزاجی سے نجات کا سوچا بھی ہو کسی نے ویسے سوچنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔

یہاں یہی بِکتا ہے آپ کو یاد ہے کہ پنجابی فلم مولا جٹ کی دوبرس سے زائد عرصہ تک نمائش جاری رہی تھی؟ خیر تب مارشل لا تھا متبادل تفریحات تھیں نا سیاسی سرگرمیاں لیکن اگر آپ غور کریں تو آسانی سے یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ اُس دور کی " سپر ایکشن " فلموں نے مجموعی سماجی مزاج کو برباد کرکے رکھ دیا تھا، سماجی مزاج میں اب بھی کوئی تبدیلی دیکھائی نہیں دے رہی چلئے کسی دن اس پر بات کریں گے کے سماجی مزاج کو برباد کرنے کے فوائد کون سمیٹتا ہے۔

فی الوقت تو یہ ہے کہ 300 ارب روپے کے ٹیکس لگانے کیلئے منی بجٹ کی تیاریاں زوروشور سے جاری ہیں دوسری طرف صورتحال یہ کے وزیراعظم عمران خان نے گندم اور کھاد کے ذخائر کا جائزہ لینے کے لئے منعقدہ اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اشیائے ضروریہ کی کمی نہیں، منافع خور مافیاز اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں۔

وزیراعظم نے اس عزم کا بھی اظہار کیا کہ حکومت ان عوام دشمن منافع خوروں کے خلاف سخت انتظامی اور قانونی کارروائی کرے گی۔ اس اہم اجلاس میں صوبہ سندھ میں ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کی صورت میں وفاق کی مداخلت اور کارروائی کا بھی کہا گیا اچھا کیا باقی صوبوں میں راوی چین لکھتا ہے؟

اس امر سے کسی کو انکار نہیں ہے کہ مہنگائی کی دوسری وجوہات کے ساتھ ایک وجہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری بھی ہے۔ حکومت کو کسی تاخیر کے بغیر ان عوام دشمن عناصر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے تھی لیکن نہیں کی وزیراعظم ماضی میں کہتے تھے مہنگائی کی ذمہ دار وفاقی حکومت ہوتی ہے اب وفاقی کابینہ کے بعض ارکان نے توپوں کا رخ سندھ کی طرف کیا ہوا ہے حالانکہ تحمل کے ساتھ عوام کو یہ بھی بتایا جانا چاہیے کہ پچھلے ایک برس کے دوران مہنگائی پر قابو پانے اور عوام کو لوٹنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے جتنے دعوے کئے گئے ان کاکیا ہوا؟

وفاقی حکومت کو یہ یاد دلانا بھی ازبس ضروری ہے کہ کچھ عرصہ قبل وفاقی مشیر خزانہ نے مہنگائی پر قابو پانے کے لئے صوبوں کے ساتھ مل کر حکمت عملی وضع کرنے اور قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے کے لئے طویل المدتی پالیسی بنانے کااعلان کیا تھا اس ضمن میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی لیکن بعدازاں مشیر خزانہ سمیت دیگر حکومتی زعما مہنگائی کے حوالے سے روزانہ ایک نئی کہانی سناتے دیکھائی دیئے۔

ان کہانیوں کا پوسٹ مارٹم ہوا تو یاد دلایا گیا آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے " مجبور ہیں " گزشتہ روز کے اجلاس میں صوبہ سندھ کے تین شہروں میں مہنگائی پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔ مگر مہنگائی تو ملک بھر میں ہے کیا وفاقی حکومت صرف اسلام آباد میں اس پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکی؟ باقی تین صوبوں میں کیا پیشرفت ہوئی؟ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ دو دن قبل تین وفاقی وزراء نے سندھ میں 16لاکھ ٹن گندم چوری ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ سندھ حکومت نے رواں سال 12 لاکھ ٹن گندم خریدی تھی۔ وفاقی وزراء کے بیان سے مرکز اور صوبے میں پہلے سے موجود بداعتمادی کی خلیج وسیع ہوئی۔ جمعرات کو بھی تین وفاقی وزراء نے پریس کانفرنس میں مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی کے خاتمے کے حوالے سے اپنے محکموں کی کارکردگی بتانے کی بجائے روایتی سیاسی الزام تراشی پر اکتفا کیا۔

یہ بجا کہ وزیراعظم نے کھاد کے بحران کا سختی سے "نوٹس" لیتے ہوئے موثر کارروائی کی ہدایت کی ہے، لیکن اس کا کیا کیجے کے انہوں نے جس چیز کا بھی نوٹس لیا وہ ملی نہیں پھر ویسے کیا وزیراعظم اس بات سے باخبر ہیں کہ پچھلے6ماہ کے دوران سرکاری طورپر ڈی اے پی کھاد کی فی بوری قیمت میں 28سو روپے کا اضافہ ہوا اور ایس او پی کی قیمت میں بھی 28سو روپے جبکہ یوریا کھاد کی فی بوری قیمت میں 51 روپے، یہ مقررہ سرکاری نرخ ہیں جبکہ اس وقت ڈی اے پی کھاد بوری 9800روپے میں دستیاب ہے۔ مقررہ سرکاری نرخ 8165 روپے ہیں۔ اسی طرح نائٹروفاسفورس 6500روپے اور یوریا 2500روپے فی بوری بلیک میں فروخت ہورہی ہے۔

یہی حالت زرعی ادویات کی ہے، مقررہ قیمت کی بجائے زائد نرخوں پر فروخت ہورہی ہیں۔ وفاقی وزراء کے بیانات اور وزیراعظم کی سربراہی میں گزشتہ روز منعقد ہونے والے اجلاس کی خبروں سے یہ تاثر بناکہ مسئلہ صرف سندھ میں ہے باقی تین صوبوں میں تو ہریالی ہی ہریالی ہے اور قیمتیں رضاکارانہ طور پر کم کردی گئی ہیں حالانکہ زمینی حقائق اس تاثر کے برعکس ہیں۔ ابھی پچھلے ہفتے کے دوران 20 اشیا کی قیمتیں بڑھی ہیں گھی کے پانچ کلو والے ڈبے کی قیمت میں 26 روپے سے کچھ اوپر اضافہ ہوا، یقیناً سندھ حکومت کو بھی مہنگائی کے حوالے سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں مگر پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی اور بلوچستان میں اتحادی حکومت ہے۔ وفاقی حکومت ان صوبائی حکومتوں کو بھی ہدایت کرے کہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء مہنگے داموں فروخت کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کے ساتھ، کاشتکاروں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والوں کے خلاف بھی کسی تاخیر کے بغیر کارروائی کی جائے۔

گوجرانوالہ جھنگ لاہور قصور ساہیوال ملتان، بہاولپور، ڈی جی خان اور متعدد دوسرے شہروں سے موصولہ اطلاعات کے مطابق کاشتکاروں کو گندم کی فصل کی بوائی کے لئے مہنگے داموں بلیک میں کھاد خریدنا کرنا پڑرہی ہے۔ گزشتہ روز ہی وفاقی وزیر فوڈ سکیورٹی سید فخرامام بتارہے تھے "امدادی قیمت " کے عدم توازن سے مہنگائی میں تیزی آئی۔ سوال یہ ہے کہ امدادی قیمت میں توازن برقرار رکھنا کس کی ذمہ داری تھی۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ روزمرہ ضرورت کی اشیاء کی مہنگے داموں فروخت ہو یا زرعی پیداوار کے لئے کھاد، بیج اور ادویات کی مقررہ قیمتوں پر فروخت کی بجائے بلیک میں فروخت یہ عمومی مسئلہ ہے اس حوالے سے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے یا مروجہ سیاسی روایت کے مطابق الزام تراشی کی بجائے یہ دیکھا جانا چاہیے کہ متاثر کون ہورہا ہے۔ پیداواری لاگت میں اضافے کو پانچ سات ایکڑ کا مالک کسان ہو یا درمیانے درجہ کا زمیندار کیسے برداشت کرپائے گا۔

زرعی معیشت کے ماہرین خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے فوری اقدامات نہ کئے تو گندم کی کاشت کے رقبے میں 15 لاکھ ایکڑ کی کمی ہوسکتی ہے۔ وزیراعظم اگر اپنی جماعت کے شہروں اور دیہی علاقوں میں سرگرم عمل کارکنوں سے براہ راست معلومات کا کوئی نظام بنالیتے تو وہ روزمرہ صورتحال سے ذاتی طور پر باخبر ہوسکتے تھے۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ جب اپنے فرائض پر توجہ مرکوز کی جاتی یہاں تو صورت یہ ہے کہ ہر مسئلہ کا ذمہ دار سابق حکومتوں کو قرار دے کر رانجھا راضی کیا جاتا ہے۔

فقیر راحموں کہتے ہیں یار شاہ جی کسی دن اپنے پرانے دوست سے ملاقات کرو اور اسے بتاو کے قبلہء عالم! بدترین مہنگائی اور دوسرے مسائل نے لوگوں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ مجھے انہیں بتاتا پڑا کہ وزیراعظم نے ابھی کل ہی کہا ہے "ملک ترقی کررہا ہے اور غریب اوپر جارہا ہے" فقیرراحموں نے جواب دیا دوسری بات درست کل ہی ہی کراچی میں ایک بیروزگار اور مقروض صحافی حالات سے تنگ آکر " اوپر " چلا گیا ہے۔

Check Also

Taiwan

By Toqeer Bhumla