Gwadar Dharna Khatam, Khanewal Mein N League Ki Fatah
گوادر دھرنا ختم، خانیوال میں (ن) لیگ کی فتح
15نومبر سے جاری "گوادر کو حق دو" دھرنا 16دسمبر کی شام اختتام پذیر ہوا۔ دو دن قبل وزیراعظم کی بنائی وفاقی وزراء کی 2رکنی کمیٹی نے گوادر پہنچ کر دھرنے کی قیادت سے مذاکرات کئے۔ جمعرات کی شام وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو سے مذاکرات ہوئے۔ صوبائی حکومت نے دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے۔ تحریری معاہدہ ہوا اور دھرنے کے شرکا گھروں کو چلے گئے۔
معاہدے کے مطابق دھرنے کے قائد مولانا ہدایت الرحمن کا نام فورتھ شیڈول سے نکال دیا جائے گا۔ تمام مقدمات (جو دھرنے کے دوران درج ہوئے) واپس لے لئے جائیں گے۔ وزیراعلیٰ نے دھرنے کے شرکا کو بتایا دو ڈیم مکمل ہوچکے ہیں مستقبل میں پانی اور بجلی کی فراہمی میں بہتری آئے گی۔ معاہدہ کے مطابق غیرقانونی قرار ماہری گیری پر پابندی، اسسٹنٹ ڈائریکٹر فشریز کا تبادلہ، وی آئی پی موومنٹ کے دوران عوام کو بے جا تنگ نہیں کیا جائے گا، ٹرالر ماہی گیری کی روک تھام کے لئے انتظامیہ اور ماہی گیروں کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی بنے گی۔ کمیٹی کا باقاعدہ دفتر ہوگا۔
ماہی گیری کی سمندری حدود 12ناٹیکل میل سے 30ناٹیکل میل میں تبدیل کرنے کی تجویز متعلقہ فورم کو بھیجی جائے گی۔ ٹریڈ یونین کمیٹی کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ بارڈر کا دوبار ضلعی انتظامیہ کے مرتب کردہ ضابطہ خلاق کے مطابق بحال ہوگا۔ بارڈر تجارت این سی سے، ضلعی انتظامیہ کے حوالے ہوگی۔ ٹوکن، ای ٹیگ، میسج لبسک کا خاتمہ کردیا جائے گا۔ ان پر ایک ماہ میں عمل درآمد ہوگا۔ گوادر، پنجگور و کیچ وغیرہ میں غیرضروری چیک پوسٹیں ختم کرنے کے لئے مشترکہ کمیٹی بنے گی۔ کمیٹی کی سفارشات پر غیرضروری چیک پوسٹیں ختم کردی جائیں گی۔ گوادر کے ماہی گیروں کے لئے خصوصی پیکج کا اعلان وزیراعلیٰ کریں گے۔ ایکسپریس وے کے متاثرین کو دوبارہ سروے کراکے معاوضہ ادا کیا جائے گا۔
سمندری طوفان سے متاثرہ ماہی گیروں کی امداد کے لئے ڈی سی آفس میں کوآرڈی نیٹ دفتر قائم کیا جائے گا۔ وفاقی و صوبائی محکموں میں معذوروں کے کوٹے پر سختی سے عمل کیا جائے گا۔ مکران ڈویژن کے رہائشی علاقوں میں چادر اور چاردیواری کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔ دھرنے کے خاتمے پر اس کے شرکا کے خلاف کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جائے گی۔ کوسٹ گارڈ اور کسٹم کے پاس جتنی بھی بوٹس، کشتیاں، لانچیں اور گاڑیاں ہیں ان کی ریلیز کے لئے صوبائی حکومت تعاون کرے گی۔
وزیراعلیٰ اور دھرنے کی قیادت کے درمیان ہوئے معاہدہ میں 11مطالبات تحریر ہیں اس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہیں۔ دھرنے کے شرکا کے 14مطالبات تھے تین مطالبات یونیورسٹی کو جدید خطوط پر منظم کرنے، جدید طبی سہولتوں اور ماہر معالجین کے ساتھ ہسپتال کو فنکشنل بنانے اور گوادر پورٹ میں مقامی آبادی کو ملازمتوں میں حصہ دینے کا کوئی ذکر نہیں۔
کیا دھرنے والوں نے ان تین مطالبات سے دستبرداری اختیار کرلی؟ اسی طرح منشیات کی سمگلنگ اور فروخت کا معاملہ بھی معاہدہ میں شامل نہیں۔ 14یا 15 مطالبات میں سے 11کی منظوری اور اس پر معاہدہ خوش آئند ہے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں تمام مطالبات جائز ہیں۔ ایسا ہے تو 31دن کی تاخیر سے معاہدہ کیوں ہوا؟
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ "ہم چاہتے تھے عوام کو ان کاحق ملے"۔ کس نے دینا تھا یہ حق، صوبائی اور وفاقی حکومت نے یا"کسی اور" نے، مولانا ہدایت الرحمن مذاکرات سے قبل جبری گمشدگی، ماورائے عدالت قتلوں کے خاتمے اور گرفتار شدگان کو عدالتوں میں پیش کرنے کے مطالبہ سے کیوں دستبردار ہوئے یہ ان کی مشاورتی کمیٹی کا فیصلہ تھا۔ ذاتی یا جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹر سے ہدایت ملی؟
تاخیر سے ہی حکومت کی نیند تو کھلی۔ مذاکرات ہوئے اور معاہدہ ہوگیا۔ دھرنا ختم ہوا، دو دن قبل مولانا ہدایت الرحمن نے وفاقی وزراء سے کہا تھا وزیراعلیٰ سے مذاکرات سے قبل دھرنے کے دوران گرفتار ہوئے لوگوں کو رہا کیا جائے۔ ایسا نہیں ہوا۔ معاہدہ کے مطابق اب یہ لوگ مقدمات ختم کئے جانے پر رہا ہوں گے۔ مولانا نے کل کہا "بلوچستان کو خوشحال بنانے تک ہماری تحریک جاری رہے گی"۔
کیسے اس کا لائحہ عمل تو انہوں نے نہیں دیا۔ معاہدہ کی بعض اہم شقوں پر عمل کے لئے حکومت نے ایک ماہ کا وقت لیا ہے۔ بعض پرعمل کے لئے کمیٹیاں بنائی جائیں گی۔ یونیورسٹی، جدید ہسپتال، منشیات کی سمگلنگ و فروخت کی روک تھام، پورٹ کی ملازمتوں میں حصہ اور جبری گمشدگی کی روک تھام پہلے سے گرفتار ہوئے افراد کو عدالتوں میں پیش کرنے کے مطالبات کا کیا ہوا؟
اس کا جواب مولانا ہی دے سکتے ہیں۔ بہرطور ایک طویل دھرنا کسی بدمزگی کے بغیر معاہدہ کے تحت ختم ہوگیا یہ خوش آئند بات ہے۔ اہل گوادر مبارکباد کے مستحق ہیں ان کا عزم و حوصلہ اور ثابت قدمی صوبائی حکومت کی گہری نیند کے خاتمے کا باعث بنے۔ پرامن جدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ معاہدہ پر طے شدہ شیڈول کے مطابق عمل ہوتا ہے یا حکومت نے جان چھڑائی ہے؟ اس کا جواب آنے والے دنوں میں ملے گا۔
اب آیئے خانیوال میں صوبائی اسمبلی کی ایک نشست پر 16دسمبر کو ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتیجہ کی طرف۔ اس نشست پر (ن) لیگ کے امیدوار رانا سلیم 47699 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی کی بیگم نشاط ڈاہا نے 34030 ووٹ لئے۔ پیپلزپارٹی کے میر سید واثق سرجیس حیدر نے 15059 ووٹ۔ 2018ء کے انتخابات میں اس نشست پر (ن) لیگ کے امیدوار نشاط ڈاہا 50ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے بعدازاں وہ اپنی جماعت سے منحرف ہوکر پی ٹی آئی کے اتحادی بن گئے۔ اُس الیکشن میں رانا سلیم پی ٹی آئی کے امیدوار تھے۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار میر سید واثق ہی تھے۔ انہوں نے اُس وقت 6262 ووٹ لئے تھے۔ ضمنی الیکشن میں حیران کن طور پر 15059ووٹ یعنی 9797 ووٹ زیادہ لئے۔ (ن) لیگ کوعام انتخابات کے مقابلہ میں 3829ووٹ کم ملے اور پی ٹی آئی کو گزشتہ کے مقابلہ میں 13885 ووٹ کم۔ پولنگ والے دن ایک دو مقامات پر ہلکی پھلکی موسیقی سنائی دی۔
مجموعی طور پر انتخابی عمل پرامن رہا۔ پولنگ والے دن سے دو تین دن قبل البتہ (ن) لیگ کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل عطااللہ تارڑ ایڈووکیٹ اپنے لاہوری اور مقامی متوالوں کے ہمراہ پیپلزپارٹی کے امیدوار سید واثق سرجیس حیدر کے گھر پر چڑھ دوڑے اس "چڑھائی" کا مقدمہ درج ہوا، متوالوں نے عبوری ضمانتیؒں منظور کروالیں۔ (ن) لیگ پیپلزپارٹی پر ووٹ خریدنے، پی ٹی آئی کا الیکشن لڑنے اور اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے الزامات "شان و شوکت" سے لگائے گئے، حیران کن بات یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل پیپلزپارٹی نے کی مگر جیت (ن) لیگ گئی۔
مین سٹریم میڈیا کے دھانسو تجزیہ کار اور " اَت" فروشوں کی سازشی تھوری یہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی سے الیکشن جیتا جاتا ہے۔ اب کیا لاہور اور خانیوال کے ضمنی انتخابات میں اسٹیبلشمنٹ (ن) لیگ کی پشت پر تھی؟
پیپلزپارٹی نے انتخابی مہم اچھے انداز میں چلائی۔ آخری دس دنوں میں خوب رونق میلہ لگایا۔ دو ہزارہ اٹھارہ کے انتخابات کے مقابلہ میں 9797 ووٹ زیادہ لئے۔ پی پی پی کی قیادت بھی 15ہزار ووٹوں کی توقع کررہی تھی۔ انتخابی مہم کو مزید بھرپور بناکر دو تین ہزار ووٹ مزید لئے جاسکتے تھے۔ کسی انقلاب کی توقع البتہ جاگتی آنکھ کا خواب ہوتا۔
جہاں تک پیسے خرچ کرنے کا تعلق ہے یا یوں کہہ لیجئے (ن) لیگ اور پی ٹی آئی کا یہ الزام کہ پی پی پی نے ووٹ خریدے ہیں تو کڑوا سچ یہ ہے کہ پیسہ تو حلقہ انتخاب میں تینوں جماعتوں نے نے پھینکا۔ (ن) لیگ کے رانا سلیم نے تو اشیائے خورونوش کا امدادی پیکیج بھی چلایا۔ خانیوال کا ضمنی الیکشن ہارنے پر تحریک انصاف کو سوچنا چاہیے کہ حکومت میں ہونے اور سرکاری وسائل استعمال کرکے بھی اس کی امیدوار ہار گئی۔
پیپلزپارٹی نے اچھی واپسی کی۔ رانا سلیم کی کامیابی برادری ازم کے گرد گھومتی الیکٹیبل کی سیاست کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ضمنی انتخاب میں تحریک لبیک کے امیدوار محمد اکمل نے بھی 9619 ووٹ لئے۔ ٹی ایل پی کے ووٹ بھی گزشتہ الیکشن کے مقابلہ میں 3846 زیادہ ہیں۔