Aeen Ki Baladasti Ya Aeen Naveesi?
آئین کی بالادستی یا آئین نویسی؟
بالآخر وہی ہوا جو کئی دنوں سے زبان زد عام تھا۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے 22 مارچ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کے اعلان کو غیرآئینی اور اختیارات سے تجاوز قرار دے دیا۔
کم از کم مجھے بھی دوسرے بہت سارے لوگوں کی طرح اس فیصلے پر کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ وجہ یہی ہے کہ جب چیف جسٹس سماعتوں کے دوران یہ کہہ رہے تھے کہ کوئی چاہتاہے کہ بنچ اس کی مرضی سے بنے تو عین اس وقت بہت سارے لوگ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ "کوئی یہ بھی تو چاہتا ہے کہ فیصلہ یہی تین رکنی بنچ کرے"۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 30 اپریل سے 15 مئی کے درمیان کرانے کا حکم دیا۔ فیصلے کے ایک اور پیراگراف میں پنجاب اسمبلی کا انتخاب 14 مئی کو کرانے کا حکم بھی موجود ہے۔ اسی فیصلے کے ایک پیرے میں اس تین رکنی بنچ کے فیصلے پر (جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تھا) کہا گیا وہ غیرمتعلقہ فیصلہ ہے لیکن جونہی یہ فیصلہ سنانے والے بنچ کا کام ختم ہوا ایک نیا 6 رکنی بنچ تشکیل دے کر تین رکنی بنچ کا فیصلہ اڑادیا گیا۔
اب دو باتیں ہوئیں ایک یہ کہ جب الیکشن التواء کیس کا فیصلہ سنانے والے تین رکنی بنچ نے جسٹس فائز عیسیٰ والے بنچ کے فیصلے کو انتظامی طور پر ناقابل عمل قرار دے دیا تھا تو پھر عجلت میں 6 رکنی بنچ بنانے آج ہی سماعت کرنے اور 4 منٹ 47 سیکنڈ میں 6 رکنی بنچ نے تین رکنی بنچ کا ازخود نوٹس بارے فیصلہ ہی نہیں بلکہ اس ازخود نوٹس کو بھی ختم کردیا جو حافظ قرآن کے لئے خصوصی 20 نمبروں والے معاملے پر تھا ایسا لگتا ہے تین رکنی بنچ کو معلوم تھا کہ قاضی فائز عیسیٰ والے بنچ کے فیصلے کی موجودگی میں الیکشن التوا کیس کے فیصلے کی قانونی حیثیت نہیں ہوگی ورنہ تین رکنی بنچ کے فیصلے میں ذکر تو کرہی دیا گیا تھا اس لئے یہ سوال اہم ہے کہ اگر ان کے نزدیک قاضی فائز عیسیٰ والے بنچ کا فیصلہ انتظامی نوعیت کا تھا تو 6 رکنی بنچ بنانے اور فیصلہ کرانے کی ضرورت کیا تھی۔
الیکشن التواء کیس میں جب اس فیصلے کو غیر ضروری قرار دیا گیا تھا تو مزید ضرورت کیوں پیش آئی؟ دونوں باتوں کا سادہ جواب یہ ہے کہ ازخود نوٹس کیسوں کی سماعت روکنے کا فیصلہ انتظامیہ سے زیادہ قانونی نوعیت کا تھا۔ اگر 6 رکنی بنچ سے 4 منٹ 47 سیکنڈ میں وہ فیصلہ ختم نہ کرایا جاتا تو الیکشن ازخود نوٹس کیس اور الیکشن التوا کیس دونوں کے فیصلے قانونی حیثیت کھودیتے یعنی وہ بنیاد ہی دستیاب نہ ہوتی جس پر عمارت تعمیر ہوئی تھی۔
یہاں ایک اور سوال ہے وہ یہ کہ ایک حساس آئینی معاملہ کی سماعت اعتراضات اور عدم اعتماد کے باوجود تین رکنی بنچ میں کرنا اور فیصلہ دینا اور دوسری طرف ایک انتظامی معاملہ (بقول چیف جسٹس) پر 6 رکنی بنچ بناکر "چٹ منگنی پٹ بیاہ" کیوں؟ بظاہر منگل کا فیصلہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی کے خلاف دائر درخواست پر ہے لیکن اس کی بنیاد وہی ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ ہے جس ازخود نوٹس کے لئے جسٹس اعجازالحسن اور جسٹس مظاہر علی اکبر نے سفارش کی تھی۔
یہ دونوں جج ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے ابتدائی مرحلہ میں 9 رکنی بنچ سے اعتراضات پر الگ ہوگئے تھے۔ یہاں اعتراضات اور مبینہ سکینڈل کا ذکر غیرضروری ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ازخود نوٹس کیس کے فیصلے سے انحراف کی درخواست کی سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس اعجازالحسن شامل ہیں اور 4 منٹ 47 سیکنڈ میں تین رکنی بنچ کے فیصلے کے خلاف فیصلہ دینے والے 6 رکنی بنچ میں دونوں جج اعجازالحسن اور مظاہر علی اکبر نقوی شامل ہیں۔
اب جبکہ دونوں بنچوں کے فیصلے آچکے ہیں اور ان کا جائزہ لینے تنقید اور رائے کے اظہار میں کوئی قانونی امر مانع نہیں ہے تو ایک بار پھر اپنے پڑھنے والوں کو یاد دلادوں کہ اگر ہنگامی طور پر تشکیل دیئے جانے والے 6 رکنی بنچ کی مختصر سماعت کے بعد کا فیصلہ نہ ہو تو تین رکنی بنچ کا الیکشن التواء سے متعلق فیصلہ قانونی وجود سے محروم رہتا۔
دوسری بات یہ ہے کہ خود اس ازخود نوٹس کی قانونی حیثیت نرم سے نرم الفاظ میں مشکوک رہتی جس کے فیصلے سے انحراف کی درخواست پر منگل کو تین رکنی بنچ نے فیصلہ دیا۔ ہمیں باردیگر اس سوال کو دیکھنا پڑے گا جو ازخود نوٹس کیس اور فیصلے سے انحراف کی درخواست کی سماعت کے مرحلوں میں نظرانداز ہوا۔
سوال یہ تھا کہ "کیا پیشگی سیاسی معاہدہ پر اسمبلی تحلیل کرنے کے عمل کو دستوری تحفظ حاصل ہوگا؟"
ملک کی سب سے بڑی عدالت آئین و قانون کی تشریح کرتی ہے لیکن پچھلے کچھ عرصے کے دوران ہونے والے بعض فیصلے ہمیں بتاتے ہیں کہ آئین کی تشریح کی بجائے عدالت نے آئین لکھنے کا کام کیا جوکہ اس کے دائرہ اختیار میں ہی نہیں۔
قریبی مثال چودھری پرویزالٰہی کو پنجاب کا وزیراعلیٰ منتخب کرانے کا حکم تھا۔ اب الیکشن التواء کیس کے فیصلے پر بھی ایک اہم سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے وہ یہ ہے کہ کیا آئین سپریم کورٹ کو انتخابی شیڈول جاری کرنے اور پولنگ کی تاریخ دینے کا اختیار دیتا ہے؟
بظاہر اس معاملے میں صدارتی حکم کی آڑ لی گئی ہے لیکن یہ آڑ محض ریت کی دیوار ہے۔ صدر کس صورت میں انتخابات کی تاریخ دے سکتا ہے یہ آئین میں وضاحت کے ساتھ لکھا ہے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ دینا صدر کے دائرہ اختیار میں نہیں یہ گورنروں کا کام ہے۔
دو جج صاحبان کی سفارش پر لئے گئے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے آغاز اور فیصلے پر ان سطور میں عرض کیا تھا کہ آئین نے جو اختیارات ہائیکورٹس کو دیئے سپریم کورٹ کا کسی بھی طور انہیں استعمال کرنا آئین کی تشریح نہیں بلکہ آئین لکھنے کے زمرے میں آئے گا۔
ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں جہاں آئین میں دی گئی حدود سے تجاوز کیا گیا وہیں یہ پہلی بار ہوا کہ ایک معاملہ (دو صوبوں کی اسمبلیوں کا انتخاب) جو دو ہائیکورٹس میں زیرسماعت تھا اس پر سپریم کورٹ کے دو جج صاحبان کی سفارش پر ازخود نوٹس لے لیا گیا۔
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کئی بار اس امر پر عدالت کو متوجہ کیا گیا کہ یہ معاملہ ازخود نوٹس کے ذریعے نہیں سنا جاسکتا کیونکہ دونوں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابی عمل پر درخواستیں متعلقہ صوبوں کے ہائیکورٹس میں زیرسماعت ہیں۔ ازخود نوٹس کیس کے فیصلے میں اس بنیادی اعتراض کا کوئی ٹھوس جواب نہیں یوں ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہاں بھی قانون کی تشریح کی بجائے آئین لکھنے کا عمل دہرایا گیا۔
چیف جسٹس نے یہ کیوں کہا کہ کوئی چاہتا ہے بنچ ان کی مرضی سے بنے جبکہ یہ میرا اختیار ہے؟ لیکن جو فیصلہ آیا اس کا تو لوگوں کو پہلے سے علم تھا یہ "علمِ غائب" ہرگز نہیں تھا بلکہ بنچ میں شامل ججز کی واضح پسندوناپسند کی بدولت ہے جو حالیہ چند فیصلوں سے بہت واضح ہے۔
اب یہ پوچھاجانا ضروری ہے کہ اگر کوئی مرضی کا بنچ بنوانے کا حق نہیں رکھتا تو کس کی مرضی کا بنچ کیسے بن گیا اور یہ کہ اس بنچ میں جسٹس اعجازالحسن کی موجودگی کسے پیغام تھا؟ ہم اور آپ الیکشن التواء کیس کے فیصلے کو گلے پھاڑ پھاڑ کر آئین و جمہوریت کی جیت کہتے رہیں، نظریہ ضرورت کی تدفین پر لاکھ بغلیں بجائیں فواد چودھری کا بھائی بلاول بھٹو کو آئین کا غدار قرار دے ان سارے تماشوں کے بیچوں بیچ کی تلخ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز میں موجود تقسیم بہت واضح ہوگئی ہے۔
اس کھلی تقسیم پر مٹی پائو پروگرام کامیاب نہیں ہوسکتا کیوں یہ پروگرام 6 رکنی بنچ کی مختصر سماعت کے فیصلے کی بنیاد پر ہے۔ حکمران اتحاد اس فیصلے پر کیا کہتا ہے طالب علم کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔
میری دانست میں آئین تحریر کرنے کے شوق نے ایک ایسے بحران کی راہ ہموار کردی ہے جس پر قابو پانا اب خود اس ادارے کے لئے بھی ممکن نہیں ہوگا جس کےفیصلوں سے بحران جنم لے گا۔
مکرر عرض کروں اہم ترین سوالات یہی ہیں جو معاملات دو ہائیکورٹوں میں زیرسماعت تھے ان پر دو ججز نے ازخود نوٹس لینے کی سفارش کیوں کی؟ کیا یہ معاملہ ان کی عدالت میں زیرسماعت تھا؟ کیا پیشگی سیاسی معاہدہ پر اسمبلی تحلیل کرنے کے عمل کو آئینی تحفظ فراہم کرنے سے آئین متاثر نہیں ہوا۔
ایک اہم آئینی معاملے کی سماعت کے لئے فل کورٹ تشکیل دینے کی بجائے مرضی کے بنچ میں سماعت اور فیصلہ سنانے کی جلدی کیا تھی؟
بالفرض باقی تمام آراء غلط اور چیف جسٹس کی رائے صائب ہے تو پھر تین رکنی بنچ (فائز عیسیٰ والے) کے فیصلے کے خلاف6 رکنی بنچ سے 4 منٹ 47 سیکنڈ میں فیصلہ کرانے میں کیا حکمت عملی کارفرما تھی؟ یہی نا کہ اگر یہ فیصلہ نہ کرایا جاتا تو تین رکنی بنچ کے فیصلے کا آئینی قانونی اور اخلاقی جواز نہ قائم ہوپاتا؟
حرف آخر یہ ہے کہ یہ آئین سازی صرف کسی ایک ادارے کے لئے نہیں بلکہ ملک، نظام اور جمہوریت کے ساتھ مستقبل پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کرے گی۔ افسوس کہ اس وقت تک خلیل خان فاختائیں اڑاکر جاچکے ہوں گے۔
پسِ نوشت: ازخود نوٹس کیس اور الیکشن التوا کیس ہردو میں دوصوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا معاملہ اٹھایا گیا لیکن تین رکنی بنچ کا فیصلہ پنجاب کے الیکشن پر ہے خیبر پختوانخوا کے معاملے میں فیصلے میں جو لکھا ہے اس پر قہقہہ ہی بلند کیا جائے گا لگتا ہے آئین صرف تخت پنجاب میں انصاف کا طلبگار تھا خیبر پختونخوا کیلئے نہیں
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی