Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Haider Javed Syed/
  4. Ab Wo Din Wo Log Kahan

Ab Wo Din Wo Log Kahan

اب وہ دن اور لوگ کہاں

فقیر راحموں نے حکم لگایا ہے کہ سیاست ویاست چھوڑو لوگوں کے دکھ درد بیان کرو۔ ادھر برادرم سید علی ضامن نقوی کا حکم موصول ہوا، صوفیائے کرام کے اقوال کی روشنی میں کالم لکھے بہت دن ہوگئے اس موضوع کے لئے وقت نکالیں اور جلد ہی لکھیں۔

چلیں دو فرمائشی کالم لکھ ہی دیتے ہیں۔ فقیر راحموں کے "آرڈر" کی تعمیل مجبوری ہے آپ (قارئین و احباب) تو اس مجبوری سے کماحقہ آگاہ ہیں۔

سید علی ضامن نقوی کتاب دوست عزیز ہیں ہر دو تین ماہ بعد ان کی ایک ہی فرمائش ہوتی ہے صوفیائے کرام کے اقوال والا کالم لکھا جائے۔

ادھر نان بائیوں کی تنظیم نے گندم اور آٹا مہنگا ہوجانے کی وجہ سے تندوری روٹی 25روپے کی کردی ہے۔ کیا اچھا وقت تھا جب لوگ کہا کرتے تھے "آٹا 5 سو روپے کلو اور پٹرول ایک ہزار روپے لٹر بھلے ہوجائے مگر خان صاحب آپ نے چوروں کو چھوڑنا نہیں"۔

معاف کیجئے گا سیاست کی طرف نکل نہیں رہا بس ایک بات یاد آئی تو عرض کردی اب ایسے دیوانے کہاں ملتے ہیں۔ روٹی 25روپے کی ہوگئی ہے تو مجھے یاد آیا کہ میں اپریل 1985ء میں لاہور آیا تھا پہلی ملازمت صفدر بلوچ کی مہربانی سے لاہور آمد کے چند گھنٹے بعد مل گئی تھی۔

سر چھپانے کے لئے ٹھکانہ، لاء کالج کے ہوسٹل میں لالہ ولی محمد انجم کے کمرہ کی صورت میں میسر آگیا۔ ہسپتال روڈ پر جہاں ہمارے ہفت روزہ کا دفتر تھا ایک ریڑھی والے سے کئی ماہ تک سات روپے میں دوپہر کا کھانا میسر ہوجاتا تھا۔

کسی دن عیاشی کا موڈ ہوتا تو انارکلی میں ایک پلائو شاپ تھی، اس پر 2 روٹیوں، سلاد اور پالک گوشت کی سنگل پلیٹ 10روپے میں میسر ہوتی۔ 10روپے میں ہی پالک پلائو کی سنگل پلیٹ بھی۔ کہنے کو وہ سنگل پلیٹ پلائو پالک تھا لیکن مجھ جیسے ملتانی کے لئے یہ بھی زیادہ ہوتا پھر ایک دن ہم نے بٹ صاحب (دکان کے مالک) سے معاہدہ کرلیا کہ ہماری سنگل پلیٹ میں چاول پالک میں ایک چوتھائی چاول کم ڈالیں گے اس کے بدلے سلاد اضافی مل جائے گی۔

اگلے کئی برس میں گنپت روڈ پر واقع ہفت روزہ "رضاکار" میں ملازمت کرتا رہا ان برسوں میں بٹ صاحب کی دکان سے مستقل طور پر دوپہر کا کھانا کھایا جاتا کسی دن کھانا اگر دفتر منگوالیا جاتا تو بٹ صاحب 10 روپے میں ہی ایک روٹی زائد کے ساتھ اضافی سالن بھی ڈال دیتے۔

ایک دن میں نے ان سے پوچھا، بٹ صاحب، میں جس دن دفتر کھانا منگواتا ہوں آپ ایک روٹی اور زائد سالن کیوں بھیج دیتے ہیں؟ کہنے لگے شاہ جی، مہمان بتاکر تو نہیں آتا آپ ہمارے مستقل گاہک ہیں جب دفتر کھانا منگواتے ہیں تو میں سوچتا ہوں شاید آج کوئی مہمان ہو اور اس لئے ایک روٹی اور سالن اضافی بھیج دیتا ہوں، مہمان ہوتو اس کے سامنے آپ شرمندہ نہ ہوں۔

ہم ماڈل ٹائون کے این بلاک والے فلیٹس (المعروف کوٹھہ پنڈ) میں رہتے تھے ایک بزرگ خاتون نے خالی پلاٹ میں جھگی ڈال کر تندور بنارکھا تھا ہم نے اس کا نام " کیفے ڈی پونچھ" رکھ چھوڑا تھا اس تندور پر دونوں وقت خاصا رش رہتا تھا۔

اکثر شام کو ہم بھی یہیں کھانا کھاتے دو سالن ان کے مستقل تھے ایک سبزی، جو روزانہ بدلتی رہتی تھی، دوسری چنے کی دال گوشت۔ اتوار کی دوپہر کو البتہ میں چنے کی دال گوشت کی بجائے آلو گوشت پکتا تھا۔ 2روٹیوں کے ساتھ 10روپے میں کھانا کھانے والوں کو ان کی طلب پر نصف یا ایک روٹی مزید مل جاتی تھی۔

ہم فلیٹوں میں رہنے والے لڑکے بالے ان کے بیٹے تھے اور کچھ بڑی عمر کے لوگ بھائی، ان کا برتائو بھی بچوں اور بھائیوں جیسا ہی ہوتا تھا کبھی اگر کسی نے کھانا کھانے کے بعد یا پہلے ان سے یہ کہنے کی کوشش کی کہ اماں آج پیسے نہیں ہیں تو وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر کہتیں۔

"ماں صدقے فیر پیسے دے جائیں"۔ ایسے کسی بھی شخص سے وہ کھانا کھاکر جاتے ہوئے یہ کہنا نہ بھولتیں"وے پتر فجرے دفتر جان دا کرایہ ہے وی کہ ماں دیوے"۔

معاف کیجئے گا روٹی 25 روپے کی کیا ہوئی یادوں کے دفتر کھل گئے۔ پرانی انارکلی میں ایک گلشن ریسٹورنٹ ہوتا تھا یہ ان برسوں میں انارکلی کا سستا ترین ہوٹل سمجھا جاتا تھا۔ کھانے بھی ذائقہ دار ہوتے یہاں بھی 10 سے 12 روپے میں پیٹ بھر کر کھانا کھایا جاسکتا تھا۔ آئوٹ فال روڈ پر ویٹنری سائنس کالج کے قریب ایک ہوٹل ہوا کرتا تھا اس ہوٹل پر سالن کی قیمت دینا ہوتی روٹی مفت فراہم کی جاتی تھی۔ دو سے زائد روٹیوں کی البتہ قیمت دینا ہوتی۔

یہ 1980ء کی دہائی کا لاہور تھا۔ ہمارا بچپن کراچی میں گزرا۔ دوران تعلیم ہی محنت مزدوری کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ میری آج بھی یہی رائے ہے کہ اگر آئی آئی چندریگر روڈ، صدر میں جہانگیر پارک کے جنگلے کے گرد، ایم اے جناح روڈ پر میمن مسجد کے عقب کی فٹ پاتھ، کپڑا مارکیٹ اور چند دیگر مقامات پر نان چنے، حلیم نان اور چنے چاول والوں کی ریڑھیاں نہ ہوتیں تو ہزاروں محنت کش بچے اور نوجوان پیٹ بھر کے کھانے کے ساتھ تعلیم کے مراحل طے نہ کرپاتے۔

ہمارے جنم شہر ملتان میں طویل عرصے تک دال منگ، چنے، آلو چنے بھیں، مٹھے وغیرہ کے ساتھ 2روٹیاں 10روپے میں مل جاتی تھیں جس سے محنت کشوں اور سفید پوشوں کا بھرم قائم رہتا۔ برسوں قبل ایک دن ہم نے اپنی بیٹی فاطمہ حیدر کو بتایا کہ کسی زمانہ میں ملتان سے لاہور کیلئے عام بس میں کرایہ 5روپے اور نان سٹاپ بس میں 5روپے 4آنے ہوتا تھا۔

اپنی پیشانی پر ہاتھ مارتے ہوئے اس نے کہا "بابا جانی اب تو 5روپے میں چاکلیٹ نہیں ملتی"۔ وقت کے ساتھ ساتھ کیا کیا تبدیل نہیں ہوگیا۔

روپے کی قدر میں کمی اور دوسرے مسائل کے ساتھ پچھلی نصف صدی میں بے ہنگم انداز میں بڑھنے والی آبادی بھی مہنگائی کی ایک وجہ ہے۔ پہلے کبھی ان سطور میں لکھ چکا کہ آبادی میں طوفانی اضافے کی بڑی وجہ وہ متھ ہے کہ آنے والا رزق اپنے ہمراہ لاتا ہے۔ حالانکہ آنے والے کے رزق اور دوسری ضروریات کی ذمہ داری اسے لانے والوں پر ہے۔

ہم پتہ نہیں کیوں اس تلخ حقیقت کو سمجھنے کی بجائے گھسی پٹی متھوں کے سہارے زندگی بسر کرنے پر نسل در نسل تلے ہوئے ہیں۔

بات 25روپے کی روٹی سے شروع ہوئی تھی۔ آٹا مہنگا ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ گندم کی نئی فصل کے لئے مقرر کی گئی امدادی قیمت پر پچھلی فصل کی گندم فروخت ہونے لگی ہے بلکہ اس سے کچھ زائد قیمت پر۔ کیا ہمارے پالیسی سازوں نے کبھی یہ سوچا ہے کہ بھارت میں پیاز 18سے 22روپے (دہلی 20روپے کلو) ہیں تو ہمارے ہاں یہ فی کلو 240روپے میں کیوں۔

چند ماہ قبل 400روپے کلو بھی فروخت ہوئے۔ یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ بنیادی طور پر زرعی معیشت کی شناخت رکھنے والے ملک میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی زحمت کبھی نہیں کی گئی۔ 10سال قبل کی کاٹن کی مجموعی پیداوار اور آج کی پیداور کا حساب دیکھ لیجئے۔ شوگر ملوں کی بہتات نے گنے کی نقدآور فصل لگانے کا رجحان بڑھایا اور چینی کی قیمت؟

کاشتکار شاکی ہے کہ فی ایکڑ پیداوار کے اخراجات مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔ کھاد بہت مہنگی ہے بھارت کے مقابلہ میں یہاں اس کی قیمت تین سو فیصد سے بھی زائد ہے۔ ادویات، بیج وغیرہ کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں۔ ان سارے گھٹالوں کا بوجھ اس عام آدمی پر پڑتا ہے جس کی روزانہ آمدنی کی اوسط مشکل سے ایک ہزار روپے بنتی ہے۔

یقیناً یہ صورتحال ارباب اختیار کی غیرذمہ داری سے پیدا ہوئی لیکن کیا صرف ارباب اختیار (وہ آج کے یا گزرے کل کے) ہی اس کے ذمہ دار ہیں؟ ٹھنڈے دل سے اس پر غور کیجئے۔

میری رائے یہ ہے کہ اس صورتحال کے ہم سبھی ذمہ دار ہیں۔ ہمیں اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری کا اعتراف کرنا چاہیے۔ منافع خور، ذخیرہ اندوز آسمان سے نہیں اترتے ہمارے درمیان ہی رہتے ہیں۔ ہم میں صارف ہونے کا شعور بھی نہیں ہے کہ مہنگائی اور خصوصاً مصنوعی مہنگائی کے خلاف بائیکاٹ کی مہم چلاکر منہ توڑ جواب دے سکیں۔ خود میرا اور آپ کا خریداری کے وقت رویہ عجیب ہوتا ہے۔

مہنگائی پر احتجاج کرتے دوسرے صارف کا ہم مذاق اڑاتے ہیں۔ درجنوں بلکہ سینکڑوں آنکھوں دیکھے واقعات مثال کے طور پر عرض کرسکتا ہوں لیکن کالم کے دامن میں گنجائش ختم ہورہی ہے۔ ابھی فقط یہ عرض کرسکتا ہوں کہ حکومت یا کسی کو کوسنے کی بجائے صارف ہونے کے حق کا شعور اپنایئے، متھوں سے لپٹے رہنے کی بجائے انہیں توڑنے کا حوصلہ پیدا کیجئے۔

Check Also

Karakti Bijliyan

By Zafar Iqbal Wattoo