Pakistan Ki Mojuda Siasat Aur Munafiqat
پاکستان کی موجودہ سیاست اور منافقت

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو نظریۂ اسلام اور مساوات کے سنہری اصولوں کی بنیاد پر قائم ہوا تھا۔ مگر آج جب ہم اپنے اردگرد نظر دوڑاتے ہیں، تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم نے ان اصولوں کو محض کتابی باتوں اور تقریری دعووں کی حد تک محدود کر دیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ سیاست کا اگر غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو سب سے نمایاں پہلو جو سامنے آتا ہے، وہ "منافقت" ہے، ایسی منافقت جو اب صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی اور ادارہ جاتی شکل اختیار کر چکی ہے۔
آج کے سیاستدان قول و فعل کے تضاد کا جیتا جاگتا نمونہ بن چکے ہیں۔ ایک طرف عوامی جلسوں میں بلند و بانگ دعوے کیے جاتے ہیں، غریبوں کے لیے درد کے نعرے لگائے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ اور بیرونی طاقتوں کی خوشنودی کے لیے پس پردہ معاہدے کیے جاتے ہیں۔ قوم کو سبز باغ دکھا کر جب اقتدار کی سیڑھی چڑھ لی جاتی ہے تو عوامی فلاح پس پشت ڈال دی جاتی ہے اور ہر جانب صرف ذاتی مفادات، کرسی کی بقا اور اپنے خاندانوں کے تحفظ کی فکر باقی رہ جاتی ہے۔
اخبارات اور میڈیا پر ایک اور تماشا چل رہا ہے، ایک تصویر، ایک افتتاح اور ساتھ میں ایک ایسا بیان جیسے پوری قوم پر احسان کیا جا رہا ہو۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ عوام کی خدمت ان کا فرضِ منصبی ہے، کوئی ذاتی خیرات یا احسان نہیں۔ لیکن افسوس کہ سیاستدانوں کی تشہیر کا انداز ہی سب کچھ بتا دیتا ہے۔
بیوروکریسی کا حال بھی کچھ مختلف نہیں۔ جہاں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، وہاں اقرباپروری اور ذاتی تعلقات کی بنیاد پر فیصلے کیے جاتے ہیں۔ قانون ساز ادارے، جو قوم کی سمت متعین کرتے ہیں، وہ بھی کسی کے اشاروں کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ عدلیہ، جو انصاف کی آخری امید ہے، وہ بھی کبھی دباؤ میں، کبھی خاموشی میں لپٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ صحافت، جو معاشرے کی آنکھ اور زبان تھی، وہ بھی اب بیشتر جگہوں پر کاروبار، مصلحت یا مافیا کے شکنجے میں ہے۔
یہ سب کچھ صرف اداروں کا مسئلہ نہیں، یہ ایک اجتماعی رویہ بن چکا ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے میں ایک دوہرا معیار پنپ چکا ہے۔ سچ کہیے تو ہمیں اب جھوٹ، مفاد اور دھوکہ دہی میں مہارت حاصل ہو چکی ہے۔ ہمیں شاید اندازہ بھی نہیں کہ یہ منافقت ہمیں کہاں لے جا رہی ہے۔ اب نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ملک کا کوئی سابق وزیر اعظم، کوئی بزنس مین، یا کوئی ریٹائرڈ جنرل بھی محفوظ نہیں۔ ہر کوئی کسی بھی وقت کسی بھی رگڑے میں آ سکتا ہے اور قانون صرف کمزور کے لیے حرکت میں آتا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں ذاتی جاگیریں بن چکی ہیں۔ ایک مخصوص خاندان، اس کا اگلا وارث اور پھر اس کے بعد اس کا جانشین، جیسے ملک عوام کی نہیں بلکہ ان کی ملکیت ہو۔ ایک عام محنت کش کا بچہ اگر صلاحیت بھی رکھتا ہو تو وہ کبھی ان ایوانوں تک نہیں پہنچ سکتا جہاں فیصلے ہوتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آج تعلیم یافتہ نوجوان، اہل دماغ، ہنر مند افراد ملک چھوڑنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ انہیں یہاں اپنا مستقبل تاریک اور غیر یقینی دکھائی دیتا ہے۔ یہاں نہ عدل ہے، نہ احترام، نہ تحفظ۔ ملک سے محبت اپنی جگہ، مگر بے بسی کی حد بھی کوئی ہوتی ہے۔
ہمیں ایک اور اہم اور بنیادی نکتہ ہر حال میں ذہن نشین رکھنا ہوگا اور وہ یہ کہ ریاست کے ہر ادارے کو اپنی اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ آئین پاکستان ایک مقدس دستاویز ہے جو ریاست کے تمام ستونوں مقننہ، عدلیہ، انتظامیہ اور دیگر ریاستی اداروں کے اختیارات اور ذمہ داریاں متعین کرتا ہے۔ کسی بھی ادارے کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کے دائرہ اختیار میں دخل اندازی کرے یا اپنی حیثیت سے تجاوز کرے۔
بدقسمتی سے، ہمارے ہاں اکثر ادارے اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر خود کو "سپر ادارہ" ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کوئی ادارہ خود کو محافظِ اخلاق بنا لیتا ہے، کوئی خود کو واحد منصف، تو کوئی خود کو عقلِ کُل سمجھ بیٹھتا ہے۔ یوں عوامی نمائندوں کا اختیار، عدالتوں کا وقار اور بیوروکریسی کی فعالیت سب متاثر ہوتی ہے۔
یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ریاست کے اصل مالک عوام ہیں اور ہر ادارہ دراصل عوامی خدمت کے لیے قائم کیا گیا ہے، نہ کہ اپنی برتری، طاقت یا پسند و ناپسند کے اظہار کے لیے۔ اگر ہر ادارہ صرف اپنی آئینی دائرے میں کام کرے اور دوسروں کی حدود کا احترام کرے، تو نظام میں توازن، شفافیت اور کارکردگی خودبخود آ جائے گی۔
یہ ملک مقدس ہے، اس کے شہری اس ملک کی روح ہیں اور اس کا آئین وہ زنجیر ہے جو سب کو جوڑتی ہے۔ آئین کی بالادستی ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں ایک باوقار، بااعتماد اور مضبوط قوم بنا سکتا ہے۔ ہم کب تک آئینی دائرہ کار کو توڑ کر طاقت کے کھیل کھیلتے رہیں گے؟ کب تک ادارے اپنی اصل ذمہ داریوں سے منہ موڑ کر غیر ضروری مداخلت کرتے رہیں گے؟
وقت آ گیا ہے کہ ہم ادارہ جاتی توازن، آئینی وفاداری اور عوامی خودمختاری کو بحال کریں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر ایک حقیقی فلاحی ریاست کی تعمیر ممکن ہے۔
کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا؟ کیا ہم ہمیشہ اپنی جھوٹی انا، ذاتی مفادات اور سیاسی دکانداری کے اسیر رہیں گے؟ وقت آ گیا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ایک بار پھر خود کو جھنجھوڑیں۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کس سمت جا رہے ہیں۔
کیوں نہ ہم رواداری کو فروغ دیں؟ کیوں نہ ہم مساوات، محبت، بھائی چارے اور یگانگت کی فضا قائم کریں؟ کیوں نہ ہم ایک دوسرے کو معاف کرکے، ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر، مستقبل کی بہتری کے لیے متحد ہو جائیں؟ کیوں نہ ہم اپنی نئی نسل کو ایک ایسا پاکستان دیں جو خودداری، انصاف اور عوامی فلاح کی بنیاد پر کھڑا ہو؟
اب بھی وقت ہے، ہم اگر آج بھی نہ جاگے، تو کل کا مورخ صرف ہماری ناکامیوں، منافقتوں اور رسوائیوں کا ذکر کرے گا۔
آئیے، ایک نیا عہد کریں۔ خلوص، دیانت اور سچائی کا۔
ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔