Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. U-Turn Lena Koi Jurm Nahi

U-Turn Lena Koi Jurm Nahi

یو ٹرن لینا کوئی جرم نہیں

جارج گورڈن بائرن کہتے ہیں کہ جو لوگ سوال نہیں اٹھاتے وہ منافق ہیں، اور جن کے ذہن میں سوال پیدا ہی نہیں ہوتا وہ غلام ہیں۔ شاید انہوں نے یہ آج کے پاکستانیوں سے متعلق کہا ہے اس لئے کہ ہم اپنے دماغ سے اپنے دیس کو نہیں سوچتے، مجھے میرے کچھ اپنے کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پرستاروں کے سامنے سچائی کا بین بجانے کی کیا ضرورت ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ جن کے ہاتھ میں ان کا قلم صادق اور امین ہوتا ہے وہ پاکستان کے ارشد شریف ہوتے ہیں، وہ اپنے بولنے اور لکھنے کے عمل کے ردِعمل کو نہیں سوچتے۔

آج ضلع گجرات میں پرویز الٰہی کا طوطی بول رہا ہے، اور ان کے درباری طوطوں کی اڑان قابل دید ہے اس لئے کہ پرویز الٰہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ ہیں۔ اور اپنے گنے چنے دنوں میں بے مثال ترقیاتی کاموں کے اعلانات کر رہے۔ ضلع گجرات کے غیر سیاسی اور غیر جانبدار شخصیات کا کہنا ہے کہ چوہدری برادران نے گجرات کے لئے کون سا ایسا سرپرائز کارنامہ سر انجام دیا ہے جس کی تعریف کی جائے لیکن بدقسمتی سے ہم پاکستانی شخصیت پرست ہیں۔ ہم شخصیت کو سوچتے ہیں اس کے کردار کو نہیں سوچتے۔

غیر جانبدار گجراتی اگر ایسی سوچ سوچتے ہیں تو غلط نہیں سوچتے، چوہدری برادران ہر قومی سیاسی جماعت اور فوج کی حکمرانی میں حکمران رہے اور آج بھی حکمران ہیں۔ آج کی حکمرانی میں وہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ بوٹوں والی سرکار نے ہمیں تحریکِ انصاف کے ساتھ کھڑا کیا ہے اس تحریکِ انصاف کے ساتھ جس کے قائد عمران خان اقتدار سے پہلے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا کرتے تھے، لیکن خان کیا کرتے افواج پاکستان کے زیر سایہ حکمرانی میں قاتل لیگ کو ساتھ رکھنا ان کی مجبوری تھی۔

آج بھی اگر وہ وزیر اعلیٰ نہ ہوتے تو جانے اپنی لیگ کے ساتھ کہاں ہوتے، اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ گجرات کی مسلم لیگ ق، پنجاب میں سندھ کی ایم کیو ایم ہے، ہر دور حکمرانی میں ان کا ساتھ دیتے ہیں جن کا کھاتے ہیں لیکن اگر نوالے میں کچھ دیر ہو جائے تو آنکھ دکھاتے ہیں، اور جب آنکھ دکھاتے ہیں تو ان کے در دولت پر اپوزیشن کے بڑے بڑوں کی لائین لگ جاتی ہے، ایسے ہی کرتوتوں سے ایم کیو ایم کا شیرازہ تو بکھر گیا اب باری ہے چوہدری برادران کی یہ بھی ایم کیو ایم کی طرح تاریخ میں ماضی کا ایک باب بن کر رہ جائیں گے۔

ممتاز کالم نگار حسن نثار کہتے ہیں کہ چوہدری ظہور الٰہی مرحوم نے بھٹو کی سزائے موت کے بعد جنرل ضیاءالحق سے وہ قلم مانگا تھا جس قلم سے ضیاءالحق نے بھٹو کی سزائے موت لکھی تھی اور جنرل ضیاءالحق نے وہ قلم چوہدری ظہور الٰہی کو دے دیا تھا، چوہدری ظہور الٰہی کے خاندان نے اگر سوچا ہے تو صرف اپنے خاندان کو سوچا ہے انہوں نے گجرات اور ان گجراتیوں کو نہیں سوچا جو برسات کی بارشوں میں بارش اور گجرات کے گندے پانی کے تالاب میں جینے پر مجبور ہوتے ہیں، اور ان کے وجود کے خون سے مچھر بھی مچھر جاتے ہیں۔ چوہدری برادران گجرات میں سیورج کا نظام تو درست نہ کر سکے، لیکن ان کے درباری کہہ رہے ہیں کہ چوہدری برادران گجرات کو ماڈل شہر بنائیں گے۔

گجرات شہر اور شہریوں کو نظر انداز کرنے والے موروثی سیاست کے علمبردار چوہدری برادران اپنے گھر میں تقسیم ہو گئے ہیں اور یہ اس خاندان کے سیاسی زوال کی ابتداء ہے۔

آج چوہدری شجاعت حسین بھی بلاول زرداری کی زبان میں عمران خان کو اسمبلی میں واپس آنے کا کہتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ سیاست دان ملک کو بچائیں، سیاسی جماعتیں اپنی نہیں ملک کی بات کریں، تو یہ سوچ چوہدری صاحب کو اس وقت کیوں نہیں آئی جب عمران خان حکمران تھے اسمبلیاں مچھلی منڈیاں تھیں، اگر ان کو اپنے دیس سے اتنا ہی پیار ہے تو رجیم چینج کا حصہ کیوں بنے تھے؟ یہ سب سیاسی ڈرامہ بازیاں ہیں لیکن اب قوم کسی حد تک جاگ چکی ہے، وہ جان چکی ہے کہ کون پاکستان کے ساتھ ہے اور کون مغربی یہودی کے پرستار اسٹیبلشمنٹ کا یار ہے۔

ممتاز کالم نگار وسعت اللہ خان لکھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی وغیرہ وغیرہ تو کھیل کے قوانین ہضم کرنے کی مشق سیکھ چکے ہیں۔ خان صاحب کو اسی دائرے میں رکھنے اور اس کا عادی بنانے کا کام گجرات کے چوہدریوں کے ذمہ ہے۔ جب تک چوہدری پہرے دار ہیں تب تک اسٹیبلشمنٹ کو کوئی غم نہیں۔ ایسے ماہر سائیسوں کے ہوتے غیرجانبداری کے چسکے لینے میں بھی کیا حرج ہے۔

ایک سینیئر چینی سفارتکار نے پاک چین قربت پر ناک بھوں چڑھانے والے اپنے ہم منصب امریکی سفارتکار سے کہا تھا کہ پاکستان اس خطے میں چین کا اسرائیل ہے۔ اسی کسوٹی پر پاکستان بالخصوص پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ق اسٹیبلشمنٹ کا اسرائیل ہے۔ اور اس سچائی سے عمران خان بھی انکار نہیں کر سکتے اس لئے کہ وہ بھی سیاسی گرو ہیں، وہ کہتے ہیں حالات کے پیش نظر یوٹرن لینا کوئی جرم نہیں۔

Check Also

Ghair Yahudion Ko Jakarne Wale Israeli Qawaneen (1)

By Wusat Ullah Khan