Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Shehzadi Ka Kehna Durust Tha

Shehzadi Ka Kehna Durust Tha

شہزادی کا کہنا درست تھا

شیر آرہا ہے، شیر آرہا ہے کی آوازیں تھم گئیں، شیر آگیا لیکن مسلم لیگ ن کا شیر کمزور ہے عدالت تک نہیں جا سکا اس لئے فنگر پرنٹ کے لئے انہیں خان کی طرح ہر حالت میں عدالت میں اس لئے نہیں بلایا گیا کہ اس کی گرفتاری مقصود نہیں تھی اس لئے بھی کہ 9 مئی کے ڈرامہ نگار جانتے تھے کہ میاں صاحب پریس کانفرنس کرکے آرہے ہیں جہاز میں بیٹھنے سے پہلے ان کے بازو پر کبوتر بٹھا دیا گیا، یہی وجہ ہے کہ میاں کے لئے عدالت ایر پورٹ پہنچی، فنگر پرنٹ ہوئے عدالتی مفرور کی ضمانت کنفرم ہوئی اور میاں صاحب پاکستان بھر سے آئے ہوئے اپنے چاہنے والو ں کے ہجوم میں مینار پاکستان چلے آئے جلوس کے پس منظر میں چور آیا چور آیا کی آوازیں آتی رہیں۔ پٹواریوں کا خیال تھا کہ میاں صاحب اپنے خطاب میں کوئی دھماکہ کریں گے، لیکن وہ تو امن کا پیغامبر بن کے آئے ہیں، نہ آواز میں گرج تھی نہ کسی کو آ نکھ دکھائی اور نہ کسی کو دھمکی دی۔

بڈھا شیر پاکستان آیا تو کیسے آیا ہر کوئی جانتا ہے اگر کوئی نہیں جانتا تو وہ بھی چند دنوں میں جان جائے گا ہر پاکستانی جانتا ہے کہ سعد کون ہے اور چور کون ہے اگر نہیں جانتے تو پاکستان کے وہ درباری ہیں یا درباریوں کے غلام ہیں یا وہ پھر اپنے حلف کی قیمت، اپنے مقام کی عظمت اور وقار کو جانتے ہوئے بھی نہیں جانتے کیونکہ وہ درباری سرکار کے غلام ہیں، جو کل صادق اور امین نہیں تھا آج اس پر گلپاشی ہو ر ہی ہے اور جو صادق اور امین تھا وہ جیل میں ہے۔

آگے کیا ہوگا کوئی نہیں جانتا اگر جانتے ہیں تو دربار کے درباری، جنہیں پاکستانی جان گئے ہیں رہی بات مخالفین کی تو ان کا یہ کہنا کہ میاں صاحب کا جلسہ ناکام ہوا، تو وہ صرف اپنا دل پشاوری کر رہے ہیں، بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ وہ سیاسی چشم پو ش ہیں کیا وہ نہیں جانتے کہ پاکستان کے بے روز گار مزدور وہ رقاص ہیں جو جیب خرچ اور بریانی کی پلیٹ پر ہر کسی کے حضور رقصاں ہوتے ہیں۔

حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ میاں صاحب نے جلسہ عام میں اپنے مخالفین کا نام لیا اور نہ وہ زبان استعمال کی جو، مجھے کیوں نکالا؟ کے دور میں استعمال کیا کرتے تھے، شاید اس لئے کہ، ا گر اس زبان میں بات کرتے تو جلسہ عام سے گھر نہیں سیدھے ادھر جاتے جہاں سے 50 روپے کے سٹام پیر پر انگوٹھا لگا کر نکلے تھے، وہ ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر عوام کے ردِ عمل کو بھی جان گئے ہیں پاکستانی عوام تو ہاتھی کے دانت ہیں کھا نے کے اور، دکھانے کے اور۔ لیڈر سامنے ہو تو اس کے حضور رقص کرتے ہیں، لیڈر جیل جائے تو گھروں میں بیٹھ کر ماتم کرتے ہیں، اور لیڈر پھانسی گھاٹ میں لٹکا دیئے جاتے ہیں میاں صاحب اب کھاؤ اور کھلاؤ کی پالیسی اپنائیں گے کسی کو ناراض نہیں کریں گے۔

میاں صاحب نے جلسہ عام میں کہا کہ میں انتقام پر یقین نہیں رکھتا، بات ہوگی تو صرف آئین اور قانون کی ہوگی، لیکن میاں صاحب نے یہ نہیں بتا یاکہ کون سے آئین کی، رجیم چینج سے پہلے والے یا رجیم چینج کے بعد اپنے بھائی کے بنائے ہوئے آئین اور قانون کی، اگر رجیم چینج سے پہلے وا لا آئین اور قانون زندہ ہوتا تو میاں صاحب پاکستان کیسے آسکتے تھے وہ یہ بھی جان گئے ہیں کہ ایک خان کی مقبولیت سے خائف امریکی غلاموں کا پورا نظام ہی ننگا ہوگیا ہے، لیکن شاہین کے پر نہیں کاٹے جا سکے آج بھی اس کی پرواز بلندیوں پر ہے، جیسے جیالوں کا بھٹو آج بھی زندہ ہے۔

مسلم لیگ ن کی شہزادی مریم نواز کہتی رہی ہیں کہ جب تک نواز شریف پاکستان نہیں آئیں گے عام انتخابات کیسے ہو سکتے ہیں، شہزادی کا کہنا درست تھا، کہ ایک قومی جماعت کا قائد انتخابی اکھاڑے میں نہ ہو تو عام انتخابات کیسے ہو سکتے تھے، اب تو میاں صاحب خیر سے پاکستان میں ہیں، قاضی بھی ان کا ہے درباری بھی ان کے ہیں البتہ خان جیل میں ہیں، اور جب تک خان جیل میں ہیں اس وقت تک نہ تو قاضی کچھ کر سکے گا اور نہ درباری، لیکن اگر کچھ کر بھی لیں، تو انتخابی عمل پر اربوں روپے ضائع کریں گے، کیونکہ انتخابات کے بعد عوام دھاندلی دھاندلی کی تاپ پر پھر سڑکوں پر شیطانی رقص کریں گے، اور پاکستان میں وہ ہی کچھ ہوگا جو یہودی چاہتا ہے!

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz