Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Mein Siasat Se Break Lena Chahti Hoon

Mein Siasat Se Break Lena Chahti Hoon

میں سیاست سے بریک لینا چاہتی ہوں

دنیا تسلیم کرتی ہے کہ وہ امت مسلمہ کا ترجمان اور عظیم مذہبی سکالر ہے، لیکن اپنے دیس میں سیاسی وڈیروں کی نظر میں دہشت گرد ہے، قلم اٹھانے کے دور سے پہلے سنا کرتے تھے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت اندھی اور لنگڑی ہے سہارا لے کر چلتی لیکن جب سے شعور نے قلم اٹھایا ہے تو دیکھ رہے ہیں محسوس بھی کر رہے ہیں کہ وجود پر لباس تو غلاف کعبہ کی صورت ہے لیکن فیصلے دربار یزید کے ہیں۔

قوم میں جو کوفی ہیں وہ طاقتور اور جو حسینی ہیں وہ مظلوم، جن منزل شہادت ہے لیکن اس منزل تک رسائی میں وہ کس ازیت سے گزرتے ہیں ہر کوئی جانتا ہے لیکن جو جانب دار ہیں وہ نیوٹرل ہیں اور قلم فروش تماشائی۔ لیکن جب انہیں ان کا ضمیر اندر سے مارنے لگتا ہے تو بولتے ہیں اس لئے کہ وہ سب کچھ نہ صرف جانتے ہیں اس لئے کہ ان کا دل منافق نہیں، اس لئے جب وہ قلم اٹھاتے ہیں تو اشاروں میں سچائی لکھ دیتے ہیں۔

عاصمہ شیرازی اپنے نئے کالم میں لکھتی ہیں۔

جناب عالی، طاقت کے ایوانوں میں میری حاضری ہر دور میں رہی جبکہ میرا نظریہ مصلحت پسندی ہی رہا۔ میرا منشور چڑھتے سورج کو سلام اور میری طاقت وقت اور حالات کے مطابق بدلنے میں رہی۔ نظریہ مقبولیت اور نعرہ فریب رہا۔

جناب! میں دست بستہ معافی کا طلبگار ہوں، مجھ سے غلطی یہ ہوگئی کہ میں چند شرپسندوں کے بہکاوے میں آ گیا اور انتشار کو انقلاب سمجھ بیٹھا۔ مجھے لگا کہ حقیقی آزادی بالکل قریب اور غلامی کی زنجیریں بس ٹوٹنے ہی والی ہیں اور میں جو کئی دہائیوں سے صرف اس آس میں رہا کہ اب حقیقی آزادی ملے گی، برس ہا برس سے جی ایچ کیو کو رپورٹ کرتے کرتے تھک گیا تھا اور عوام سے ملنے والے طعنوں سے بھی اکتا گیا تھا کہ میں صرف بوٹوں کے بل بوتے پر ہی سیاست کر سکتا ہوں۔ سوچا کہ نئے زمانے میں جمہوریت، شخصی آزادی، انسانی حقوق وغیرہ وغیرہ کے پہناوے میں میری برسوں کی موقع پرست سیاست کو ڈھال مل جاوے گی، بس اسی لیے میں پاجامے سے نکل گیا اور مائی باپ اب آپ کے سامنے زبان کھول دی۔

سرکار! فدوی کو قیادت کے بہکانے پر جو انقلاب کا بخار چڑھا تھا وہ اب یکسر اتر چکا ہے۔ میری توبہ جو میں آج کے بعد کبھی جماعت کی آستینوں میں پایا جاؤں اور اگر ایسا ہو تو کسی مرقد سے اٹھایا جاؤں۔

سرکار! آج کے بعد آپ مجھے کسی جلسے میں نہ دیکھیں گے اور نہ ہی کسی ٹاک شو پر بولتا دکھائی دوں گا، اب کبھی کسی تبدیلی کے جھانسے میں نہیں آؤں گا اور نہ ہی کسی کپتان کو رہنما بناؤں گا۔ فدوی آج کے بعد صرف اپنے کاروبار پر توجہ دے گا اور خاندان کی پرواہ کرے گا۔

جناب میری معذرت مگر جاتے جاتے ایک معافی نامہ ان سے بھی لکھوا لیں جن کی خواہشوں کی بھینٹ ہم چڑھ گئے۔ ان غیر سیاسی مگر سیاسی رہنماؤں کو بھی جیل کی سیر کرا دیں جن کی خواہش نے آج ہمیں یہاں کھڑا کر دیا ہے۔

جناب! ایک معافی نامہ ان کا بھی آ جاوے تو روح کو سکون مل جاوے۔ ورنہ ہم تو راندہ درگاہ ہو ہی گئے، نہ اِدھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔ باقی جو سرکار کو ٹھیک لگے۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو چل رہی ہے جس میں پاکستان تحریک انصاف کی رہنما کنیز فاطمہ پریس کانفرنس کر رہی اور بتا رہی ہیں کہ ان پر پی ٹی آئی چھوڑنے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اس پر ایک صحافی نے دوران اعلان تبصرہ کیا جی یاد ہوگیا ہمیں، اور ہال میں موجود شرکا نے قہقہہ لگایا۔

ساتھ ہی پریس کانفرنس میں موجود مقامی صحافی نے بے تکلف انداز میں سوال کیا یہ جو آپ کو پرچی دیتے ہیں، اس میں آپ سپیلنگ سپولنگ کا فرق نہیں کرتے؟ کہ کوئی سپیلنگ کا ہی فرق آ جائے۔ سب کو ایک ہی فوٹو کاپی کرکے دیتے ہیں؟ انہوں نے تجویز دی کہ تھوڑا بہت تو اونچ نیچ اپنے پاس سے کر لیا کریں۔ اس سوال کے جواب میں کنیز فاطمہ کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی سکرپٹ نہیں دیا گیا، اور یہ کہ بس وہ سیاست سے بریک لینا چاہتی ہیں اور اس کے بعد وہ پریس کانفرنس ختم کرکے چلی گئیں۔

Check Also

Something Lost, Something Gained

By Rauf Klasra