Maqsad Hum Ko Darana Hai
مقصد ہم کو ڈرانا ہے
کینیا کے جس علاقے میں سچائی کے علمبردار صحافی ارشد شریف کو جس خاموش غیر آباد راستے پر شہید کیا گیا وہ کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے تقریبا 100 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور بظاہر ایسی جگہ نہیں جہاں ہمیں ارشد شریف جیسے صحافی کی موجودگی کی توقع ہو۔ یہ بہت ہی کم آبادی والا علاقہ ہے جہاں دور دور تک تا حد نگاہ خاردار جھاڑیوں کا جنگل پھیلا ہوا ہے اس علاقے کو نہ صرف رات بلکہ دن میں بھی غیر محفوظ علاقہ تصور کیا جاتا ہے۔
کینیا پولیس کے سپیشل سروس یونٹ ماورائے قانون قتل اور جبری گمشدگیوں کے الزامات کی وجہ سے کینیا کے نئے صدر نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس یونٹ پر پابندی کا اعلان کیا تھا کیونکہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہے، اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ارشد شریف اس غیر آباد علاقے میں کیوں گئے تھے؟
آج لاشوں پر سیاست کے قائل طبقہ شہید ارشد شریف کے پوسٹ مارٹم کی تصاویر میڈیا میں دکھا رہا ہے اور ان کے درباری تجزیہ نگار شہید کے خاندان اور شہید کے چاہنے والوں کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خالد مسعود کہتے ہیں یہ تصاویر ہسپتال سے ہی لیک ہوئی ہیں، تو سوال پیدا ہوتا ہے کیوں؟
کیا لے پالک اینکر اور کاسہ لیس چینل کے ذریعے ارشد شریف پر قتل سے پہلے تشدد کی تصویریں اور شواہد نشر کرنے کا مقصد صرف اینکروں اور صحافیوں کو خوفزدہ کرنا ہے؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ کی تصاویر نشر کرتے ہوئے نشر کرنے والے کو ذرا برابر بھی شرم نہیں آئی، کیا وہ نہیں جانتا ہے کہ شہید کا تعلق اس کے قبیلے سے تھا۔ لگتا ہے شہید ارشد شریف کی تصاویر نشر کروانے والے کا مقصد اپنی یزیدیت، بربریت اور فرعونیت سے اہلِ قلم، اہلِ زبان اور فوج کو ڈرانا ہے، لیکن وہ بھول چکا ہے کہ جب کسی کردار کا خون گرتا ہے تو وہ بہتا نہیں جم جایا کرتا ہے۔
ایک دلیر صحافی کی شہادت ایک ایسا سوال ہے جس کا کسی کے پاس کوئی مثبت جواب نہیں، سچ کیا ہے خدا جانتا ہے، لیکن ہم اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ہمارے دیس میں ہی نہیں دنیا بھر میں جھوٹ کی حکمرانی ہے سچائی کو برداشت نہیں کیا جاتا، ظلم کے خلاف حق اور صداقت کی آواز پر پابندی ہے اور جو اس پابندی کو تسلیم نہیں کرتا اس آواز کو خون میں نہلا کر دفن کر دیا جاتا ہے لیکن جھوٹ اور لاشوں پر حکمرانی کے قائل شیطان صفت نہیں جانتے کہ آخرت کی خوبصورتی کے پرستار، نا تو جھکتے ہیں، نا بکتے ہیں اور نا ڈرتے ہیں، اور ہم وطن دوست، ایسے کرداروں کی شہادت پر سر اٹھا کر کہتے ہیں۔
تو نے ظالم گل فروشوں پر ستم جب کر دیئے
جام پھر اہلِ قلم نے اپنے خوں سے بھر دیئے
دے گئے بجھتے چراغوں کو نئی تم زندگی
تا ابد روشن رہیں گے اپنے اپنے گھر دیئے
ناز ہے تم پر تمہارے دیس کو ارشد شریف
ماؤں نے تم سے بہادر، دیس کو دلبر دیے
صورتِ انساں میں وہ شیطان دہشت گرد ہیں
حکمرانی کے لئے مغرب نے جو نوکر دیئے
بد نصیبوں میں ہیں شامل اپنے وہ اہل قلم
جو جلاتے ہیں یزیدوں کے لئے در پر دیئے
جگمگاتے ہیں فلک پر شب کی تاریکی میں وہ
دیس کی تابندگی کو رب نے جو اختر دیئے
رنگ لاتا ہے شہیدوں کے لہو سے انقلاب
دین کو ابن علی نے بھی بہتر سر دیئے
دیس کے مردہ ضمیروں اور غداروں نے گل
کس قدر روشن دیئے اس دیس میں گل کر دیئے