Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Main Imran Khan Ko Zaya Nahi Hone Doonga

Main Imran Khan Ko Zaya Nahi Hone Doonga

میں عمران خان کو ضائع نہیں ہونے دوں گا

پاکستان اور دنیائے اسلام کیا غیر مسلم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان کا خدا پر ایمان اور توکل بہت قوی ہے، لیکن موجودہ پاکستان میں عمران خان جیسے پاکستان اور مذہب دوستوں کو جینے کا کوئی حق نہیں، حق اور صداقت کی آواز بلند کرنے والے پاکستان دوستوں کے لئے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کی طرح اپنے دیس کی سر زمین تنگ کر دی گئی ہے۔ حق پرستوں پر پاکستان میں ظلم و جبر کی انتہا اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگی؟

قومی میڈیا پر کشمیر پر قابض اور گجرات کے مسلمانوں کے قاتل مودی اور فلسطینی مظلوم عوام کے قاتل نیتن یاہو کا نام میڈیا پر لیا جا سکتا ہے لیکن وطن کے بیٹے اور قومی ہیرو عمران خان کا نام لینا سنگین جرم ہے۔ تھانہ کچہری اور عدالتوں میں خواتین کی عزت نفس کی توہین، گھروں میں گھسنا اور انسانی حقوق کی پامالی تو اب پاکستان کی پہچان بن گئی ہے، لیکن قومی میڈیا کی غیرت خاموش ہے۔ وطن عزیز میں ظلم وبربریت کا رقص جاری ہے، مظلوم کی آہ بھی فلک تک نہیں جاتی اس لئے کہ 27 سال تک ہم چوروں لٹیروں، درندوں اور اسلام دشمن قوتوں کے غلاموں کے سر پر حکمرانی کا تاج رکھتے آئے ہیں۔

دنیا جانتی ہے کہ پاکستان میں ایسے محب وطن اور عوام دوست قیادت کا جینا قومی جرم ہے، عمران خان مجرم ہے، اس لئے کہ وہ پاکستان کو مدینہ ثانی دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک آزاد اور خود مختار پاکستان کی بات کرتا ہے۔ اسلام دشمن قوتیں اور ان کے غلام پاکستان میں ایسی شخصیت اور اس کی حکمرانی کہاں برداشت کر سکتے ہیں اس لئے وہ نہ صرف برملا بولتے بلکہ اپنی کتابوں میں لکھ رہے ہیں۔

امریکی مصنف "ڈینیل مارکے" اپنی کتاب "نوایگزٹ فرام پاکستان" میں لکھتا ہے کہ امریکہ پاکستان کو تین وجوہات کی وجہ سے کسی بھی صورت آزاد نہیں چھوڑ سکتا۔

پہلی وجہ، پاکستان کا نیوکلیئر و میزائل پروگرام جو بہت بڑا اور طاقتور ہے۔ دوسری وجہ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جس کے چین کی سول ملٹری قیادت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں، تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے پاس اتنی بڑی فوج ہے کہ نہ صرف ریجن کو بلکہ پوری دنیا کو ہلا کر رکھ سکتی ہے۔ اس لئے پاکستان پر نظر رکھنے کیلئے پاکستان کے ساتھ انگیج رہنا بہت ضروری ہے۔

ڈینیل مارکے، مزید لکھتا ہے کہ ہم نے 72 سال پہلے فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان کو ڈویلپ ہونے اور اسلامی دنیا کو لیڈ کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ اس کیلئے ہم نے کچھ طریقے اپنائے ہیں، ہم پاکستانی لیڈروں کو خرید لیتے ہیں جن میں پولیٹیکل لیڈرز، سول بیوروکریسی کے افسران، جرنلسٹ اور میڈیا ہاوسز بھی شامل ہیں، ڈینیل مارکے اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ پاکستانی لیڈرز خود کو بہت تھوڑی قیمت پر بیچ دیتے ہیں، اتنی تھوڑی قیمت کہ انہیں امریکا جانے کا ویزہ مل جائے یا ان کے بچوں کو اسکالر شپ مل جائے اتنی چھوٹی چیز پر وہ پاکستان کے مفادات بیچنے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

آج پی ڈی ایم کی حکمرانی میں مسلم لیگ ن، جنرل ضیاءالحق کے نقشِ قدم پر ہے، وہ ہی کچھ ہونے جا رہا ہے جو بھٹو کے ساتھ ہوا تھا، بھٹو کی حکومت گرائی گئی تو اس کے جانثار ساتھی بھی اس کا ساتھ چھوڑ گئے یا چھوڑ جانے پر مجبور کئے گئے، ذوالفقار علی بھٹو، اگر تختِ اسلام آباد پر لاکھ کے تھے، تو تخت سے گرائے جانے کے بعد سوا لاکھ کے ہو گئے تھے اس لئے بھٹو سے چھٹکارے کا جب اور کوئی راستہ نہ ملا تو قتل کے نام نہاد مقدمے میں انہیں ماورائے عدالت قتل کر دیا گیا، یہ ہی کچھ عمران خان کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔

ذوا لفقار علی بھٹو کی طرح عمران خان بھی کہہ رہے ہیں، میرا جینا مرنا پاکستان میں ہے اس لئے اس کی یہ خواہش پوری کرنے کی تیاری جاری ہے ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔

عمران خان سے اپنے گھر میں ملاقات کے بعد سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ کہتے ہیں، میں تحریکِ انصاف میں شامل ہوا اور نہ ہی عمران خان نے اس موضوع پر کوئی بات کی، میرے گھر پر حملہ ہوا اس پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا، عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر میں بلوچستان گیا تو مجھ پر قاتلانہ حملہ ہوگا یا پھر وہ ہی کچھ ہوگا جو بھٹو کے ساتھ ہوا تھا وہ مجھے اپنے خلاف قتل کے مقدمے میں وکیل کرنے آئے تھے اور میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں آپ کی وکالت کروں گا، میں جانتا ہوں کہ مقتول وکیل عبدالرزاق کے قتل سے عمران خان کا دور سے بھی کوئی واسطہ نہیں، میں قوم سے وعدہ کرتا ہوں، عمران خان کو ضائع نہیں ہونے دوں گا۔

ہم پہلے بھی ایک عظیم قومی لیڈر کو کھو چکے ہیں۔

Check Also

Hum Wohi Purane Lutere Hain

By Muhammad Salahuddin