Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Liaqat Ali Khan Se Imran Khan Tak

Liaqat Ali Khan Se Imran Khan Tak

لیاقت علی خان سے عمران خان تک

قومی سیاست میں رونما ہونے والے واقعات کو مردہ ضمیر اور ایمان فروش تسلیم نہیں کریں گے کیونکہ وہ امریکی وینٹی لیٹر پر ہیں مغربی قوتوں کے غلام ہیں اس لئے کہ ہمارا پاکستان ہم محب وطن پاکستانیوں کا نہیں اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان ہے، پسِ پردہ پاکستان پر اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر سیاست دان مسلط ہیں، عوام پر قومی عدالتیں اور عدالتوں پر اسٹیبلشمنٹ سوار ہیں، اسٹیبلشمنٹ میں پاکستان کو سوچتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کو سوچتے ہیں۔

آج کا پاکستان قائدِاعظم کا پاکستان نہیں اسٹیبلشمنٹ کا پاکستان ہے، قائداعظم کا پاکستان تو لیاقت علی خان کے ساتھ ہیں دفن کر دیا گیا تھا۔ تاریخ کے جھروکے میں دیکھیں تو، 16 اکتوبر 1951 پاکستان کے پہلے وزیراعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کو راولپنڈی لیاقت باغ کے ایک جلسہ عام میں شہید کر دیا گیا تھا۔ اور لیاقت علی خان کی شہادت کے دس روز بعد 25 اکتوبر 1951 کو اس وقت کی حکومت نے قتل کی تحقیقات کے لیے جو کمیشن تشکیل دیا تھا اس کمیشن کی رپورٹ کو لیاقت علی خان کی بیوہ بیگم رعنا لیاقت علی خان نے ہی نہیں بلکہ عوام نے بھی مسترد کر دیا۔

اس کمیشن کی رپورٹ کی اشاعت کے دس دن بعد 26 اگست 1952 کو پاکستان کے انسپکٹر جنرل اسپیشل پولیس نوابزادہ اعتزاز الدین جو کراچی سے بذریعہ ہوائی جہاز پشاور جا رہے تھے وہ جہاز کھیوڑہ کے مقام پر حادثے کا شکار ہوا۔ صاحبزادہ اعتزاز الدین جو لیاقت علی خان کے قتل کی تفتیش کر رہے تھے۔ اس حادثے میں انتقال کر گئے اور اس کیس کے بعض اہم دستاویزات کی فائلیں بھی جل کر راکھ ہو گئیں۔

لیاقت علی خان کی شہادت کے آٹھ دن بعد ایک مضمون بھوپال سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ ندیم، میں شائع ہوا، مضمون کی تلخیص کچھ یوں کی گئی تھی: پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق برطانیہ نے پاکستان پر ایران کے سلسلے میں تعاون کرنے کا دباؤ ڈالا۔ امریکہ نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران پر اثر و رسوخ استعمال کر کے اس پر دباؤ ڈالے کہ ایران تیل کے کنویں امریکہ کے حوالے کر دے۔ لیاقت علی خان نے امریکہ کی درخواست مسترد کر دی۔

امریکہ نے کشمیر پر خفیہ معاہدہ ختم کرنے کی دھمکی دی تو لیاقت علی خان نے کہا کہ پاکستان نے امریکہ کے تعاون کے بغیر آدھا کشمیر لے لیا ہے باقی کا کشمیر بھی پاکستان حاصل کر لے گا، اور امریکہ سے پاکستان میں ہوائی اڈے خالی کرنے کا مطالبہ کر دیا۔ وزیرِاعظم لیاقت علی خان کا یہ مطالبہ واشنگٹن پر بم بن کر گرا۔ اس لئے کہ امریکہ کے حکمران پاکستان کے ہوائی اڈوں سے روس کو فتح کرنے کے جو خواب دیکھ رہے تھے وہ چکنا چور ہو گئے۔ تب امریکہ نے لیاقت کو قتل کرانے کے بارے میں سوچنا شروع کر دیا۔

امریکہ چاہتا تھا کہ قاتل مسلمان ہو، تاکہ بین الاقوامی پیچیدگیاں دور کی جا سکیں۔ لیکن امریکہ اس وقت پاکستان میں کوئی باغی تلاش نہ کر سکا جیسا کہ وہ ایران، عراق اور ایران میں کامیاب رہا تھا۔ امریکی حکمرانوں نے یہ ذمہ داری کابل کے امریکی سفارت خانے کو سونپی۔ سفارت خانے نے پشتون لیڈروں سے رابطہ کیا اور انھیں یقین دلایا کہ اگر لیاقت علی کو قتل کروا دیا جائے تو امریکہ 1952 تک پختونستان قائم کرا دے گا۔ پشتون لیڈروں نے سید اکبر کو قتل کی ترغیب دی اور اسے بھی موقع پر ہی قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تاکہ سازش کا پتا نہ چل سکے۔

ندیم اپنے مضمون میں لکھتا ہے کہ جب گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین نے بیگم رعنا لیاقت علی خان کو ان کے شوہر کے قتل کی خبر سنائی اور ان سے تعزیت کی، تو اس سے ساڑھے تین منٹ پہلے، امریکی سفیر بیگم صاحبہ کو یہ خبر سنا کر تعزیت کر چکے تھے۔ یہ تمام عوامل ثابت کرتے ہیں کہ امریکہ لیاقت علی خان کا قاتل ہے، منصوبے کے مطابق مشتعل ہجوم نے قاتل سید اکبر کو جائے واردات پر قتل کر دیا تھا اس پر بیگم رعنا لیاقت علی خان نے اس وقت کچھ سوال اٹھائے تھے۔

ایک ایسے موقع پر جب لیاقت علی خان ایک اہم پالیسی بیان دینے والے تھے اور اپنی مقبولیت کی انتہا پر تھے انھیں کیوں قتل کردیا گیا؟ قاتل کو ایسے موقع پر جب وہ بے بس کیا جا چکا تھا کیوں ہلاک کر دیا گیا؟ قاتل پر گولی چلانے والے پولیس اہلکار کو سزا دینے کی بجائے ترقی کیوں دی گئی؟ ملک میں چند اہم اور بااثر افراد لیاقت علی خان کو اپنے راستے سے کیوں ہٹانا چاہتے تھے؟ قائداعظم کی شخصیت اور ان کے نام کو بعض اہم معاملات میں کیوں نظر انداز کیا جا رہا ہے؟ محترمہ رعنا لیاقت علی خان کے اٹھائے گئے یہ سوالات آج بھی اپنے جواب کے منتظر ہیں۔

مغربی قوتوں نے ایوب خان کی مارشل لاء تک کے دور میں پاکستان کے بے ضمیروں کو مکمل طور پر اپنا غلام بنا لیا، لیکن پاکستان کی عوام کے شعور پر قبضہ نہیں کر سکا۔ اس لئے جب ذوالفقار علی بھٹو، طاقت کا سرچشمہ عوام ہے، کا نعرہ لے امریکہ کے خلاف عوام میں آئے تو دنیا نے ذوالفقار علی بھٹو کو سر آنکھوں پر بٹھا لیا، پاکستان جب ایمان کی قوت کے ساتھ ایٹمی قوت بن گیا تو مغرب کو اپنا آنے والا کل تاریک نظر آنا تھا۔

اس لئے امریکہ نے اسٹیبلشمنٹ کو تخت اسلام آباد پر بٹھا دیا، جس نے پاکستانی عوام پر ظلم و تشدد کی تاریخ رقم کی لیکن قوم کے زندہ ضمیروں کو زیر نہیں کر سکا اور اس کم بخت نے پاکستان کے ضمیر فروشوں کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کو ماورائے عدالت شہید کروا دیا۔ پاکستان کی بیٹی، بےنظیر بھٹو اپنے شہید باپ کا پرچم اٹھا کر میدان میں آئیں۔ بےنظیر بھٹو دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں، اس کی رگوں میں پاکستان دوست ذوالفقار علی بھٹو کا خون تھا۔

سامراجی قوتوں نے ہر ممکن کوشش کی لیکن خاتون اعظم نے جب مغربی قوتوں کو نظر انداز کر دیا تو پاکستان دشمن قوتوں نے بےنظیر بھٹو کو لیاقت علی خان کی جائے شہادت لیاقت باغ راولپنڈی کے سامنے عوام کے جم غفیر میں گولی مار کر شہید کر دیا اور سامراجی غلام آصف علی زرداری تختِ اسلام آباد پر بیٹھ گئے اور اس نے ضیاءالحق کے لے پالک میاں محمد نواز شریف کے ساتھ مغربی غلامی میں نورا کشتی کا کھیل شروع کر دیا۔

زرداری اور نواز شریف نے اداروں کی خواہشات کے احترام میں اپنے حواریوں کے ساتھ پاکستان کو جی بھر کے کھایا اور اداروں کو کھلایا، لیکن پاکستان کی زندہ ضمیر قوم نے ان کی قومی قیادت کو تسلیم نہیں کیا، اس لئے جب عمران خان نے آزاد اور خود مختار خوبصورت پاکستان کی جانب سفر شروع کیا تو قوم اس کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئی، ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پاکستان سے محبت کرنے والے زندہ ضمیر عمران خان کے ساتھ میدان میں نکلے تو عالم اسلام نے عمران خان کو دنیائے اسلام کا قائد تسلیم کر لیا۔

لیکن سامراجی قوتوں کو عمران خان کی قومی اور مذہبی ادائیں پسند نہ آئیں اور پھر وہ ہی ہوا، امریکہ نے پاکستان کے مردہ ضمیروں کے شانے پر ہاتھ رکھا اور دنیائے اسلام کے عظیم لیڈر عمران خان کو تخت اسلام آباد سے گرا دیا لیکن وہ اسے پاکستان کی عوام کے دلوں سے نہ نکال سکے، جیسے جیالوں کا بھٹو زندہ ہے، اسی طرح عمران خان عوام کے دلوں کی دھڑکن ہیں اور اس حقیقت کو ضمنی انتخابات میں دنیا نے دیکھ لیا عمران خان عوامی مقبولیت میں ذوالفقار علی بھٹو سے بھی آگے نکل گئے۔

عمران خان نے قومی اسمبلی کی آٹھ نشستوں میں سات پر الیکشن لڑا اور چھ پر کامیاب ہو کر نہ صرف ذوالفقار علی بھٹو کا بلکہ اپنا ہی سابقہ ریکارڈ بھی توڑ دیا، بھٹو پانچ نشستوں پر انتخاب جیتے تھے اور سنہ 2018 کے عام انتخابات میں عمران خان قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر الیکشن جیتے تھے۔ عمران خان اس وقت سیاسی مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔

لیکن پی ڈی ایم کی صحت پر عمران کی اس جیت کا کوئی اثر نہیں پڑے گا، اس لئے کہ وہ امریکی غلام اداروں کی خواہشات پر اقتدار میں آئے ہیں اور اپنے راستے کے ہر پتھر کو امریکہ ہی کے مدد سے ہٹا رہے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہم پاکستانیوں کے مقدر میں کیا لکھا ہے، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ہم پاکستان اور عمران خان کی طویل اور خوبصورت زندگی کے لیئے دعا گو ہیں۔

Check Also

Baat Kahan Se Kahan Pohanch Gayi, Toba

By Farnood Alam