Liaqat Ali Khan Se Imran Khan Tak (2)
لیاقت علی خان سے عمران خان تک (2)
عالم اسلام کی عظیم سیاسی شخصیت با نیء پاکستان محمد علی جناحؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں تحریکِ پاکستان کے علمبردار ہیروز ڈاکٹر علامہ اقبال، لیاقت علی خان اور سردار عبدالرب نشتر جیسی قد آور شخصیات کی جدوجہد سے ہندوستان کے مسلمانوں کےلئے ایک الگ اور خود مختار پاکستان دنیا کے نقشے میں جلوہ افروز ہوا، مقصد ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ریاستِ مدینہ کی شان سی ریاست کا قیام تھا، وہ ریاست جو دین مصطفی کی روشنی میں ایک آزاد اور خود مختار مہکتے پاکستان میں پاکستانی اپنے مذہبی ماحول میں خدائے بزرگ و برتر کی عبادت کریں اور مذہبی زندگی کی مسرتوں سے سرفراز ہوں۔
قائدِ اعظم کی تحریکِ پاکستان کی کامیابی کا زخم سامراج کے سینے میں لگا تھا وہ کیسے خاموش رہ سکتے تھے ان کے رابطے ضمیر فروش درباریوں سے ہونے لگے تب سے پاکستان اور پاکستانیوں کے ساتھ جو ہوا اور ہو رہا ہے، ہم بھی دیکھ رہے ہیں اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے قائد اعظم محمد علی جناح 11، ستمبر 1948، کو اپنے بنائے ہوئے پاکستان سے کس نا گفتہ بے حالت میں جہانِ فانی سے رخصت ہوئے آج کے بڑے بزرگ جانتے ہیں، قائدِ اعظم، علامہ اقبال کے اس شعر کی تفسیر تھے
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دید ہ ور پیدا
قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے دست وباز و، وزیر اعظم لیاقت علی خان کو یہودیوں نے شیشے میں اتارنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن وہ پاکستان دوست اور دین اسلام کے شیدائی تھے، اس جرم میں 16 اکتوبر 1951، کو راولپنڈی کے کمپنی باغ کے جلسہءعام میں افغان باشندے سید اکبر نے آپ پر دو فائر کرکے شہید کر دیا، جواب میں قتل کا نشان مٹانے کے لئے انسپکٹر محمد شاہ نے سید اکبر کے وجود میں پانچ گولیاں داغ کر اس وقت قتل کر دیا جب قاتل کو عوام نے پکڑ کر اس سے اس کا پستول بھی چھین لیا تھا، لیکن قتل کے محرکات مٹانا مقصود تھے لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد آزاد مملکت پاکستان میں آزادی صرف نام تک محدود ہو کر رہ گئی، اور قومی قیادت یہودیوں کی غلام ہوگئی، سکندر مرز سے دور ایوب تک یہودی درباریوں نے پاکستان کے ساتھ جو کیا، وہ ایک الگ تاریخ ہے۔
افوا ج پاکستان کے حاضر سروس وزیرِ دفاع جنرل محمد ایوب خان 7، اکتوبر 1958، کو مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے، 24، کو وزیر اعظم اور 27، اکتوبر کو صدرِ پاکستان بن گئے جنرل محمد ایوب خان جب پاکستان کے لئے پاؤں پر کھڑے ہو کر دنیائے اسلام میں پاکستان کی پہچان بن گئے تو امریکہ کے کان کھڑے ہو گئے اس لئے کہ یہودی کسی بھی صورت میں مستحکم پاکستان دیکھنا گوارا نہیں کرتے، اس لئے 1965، کی جنگ چھیڑ دی گئی، لیکن افواجِ پاکستان اور پاکستان کی غیور عوام نے دنیا پر ثابت کر دیا۔
"ہم زندہ قوم ہیں" اقوام متحدہ میں پاکستان کی جنگ کامیابی سے لڑنے والے پاکستان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے قرارداد پھاڑ کر دنیائے اسلام کے دل جیت لئے تھے، لیکن سامراجی قوتوں کو جنرل ایوب خان کی جیت ناگوار گذری۔ اس لئے ضمیر فروش درباریوں سے رابطہ ہوا اور چینی دو آنے مہنگی ہوگئی اور وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو کو سڑک پر آئے اس طرح عام انتخابات کے بعد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں نظامِ جمہور یت کا پرچم لہرانے لگا۔ ایک نئے عوامی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا، دنیائے اسلام میں پاکستان اور وزیرِ اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت انگریز کو کہاں گوارا تھی بھٹو بڑا جرم تو قادیانیوں کو کافر قرار دیا جانا تھا!
امریکہ نے بھٹو کو دھمکی دی کہ اپنی اسلام دوستی کی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ انجام عبرت ناک ہوگا، لیکن بھٹو پاکستان سے مخلص تھا اس مردِ مجاہد نے دھمکی آمیز خط راولپنڈی کے صدر بازار میں فٹ پاتھ پر کھڑے ہو کر لہرا دیا، ان کی یہ حرکت گورے کی برداشت سے باہر تھی، اس لئے یہودی بھٹو کے خلاف وہ نو ستارے سڑک پر لے آیا، جن کی سیاست، جن کی سوچ، جن کا مذہبی عقیدہ تک مختلف تھا اور یہ ستارے خوبصورت پاکستان کے خوبصورت نظام حکمرانی پر قہر بن گرے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے وقت سے پہلے 7 جنوری، 1977 کوعام انتخابات کا اعلان کر دیا تو، نو ستاروں کے ہوش اڑ گئے، عام انتخابات میں پاکستان کی غیور عوام نے ذوالفقار علی بھٹو کے امیدواروں پر ووٹ نچھاور کر د یئے، نو ستاروں، پی این اے کے، 36، قومی اسمبلی کی نشستوں کے مقابلے میں بھٹو کو، 155، نشستوں پر کامیابی ملی، پاکستان جیت گیا تھا لیکن سامراج کے درباریوں کو اپنی عبرت ناک شکست پر شرم نہیں آئی۔
وہ دھاندلی دھاندلی کی تاپ پر رقص میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے مارشل لاءکے لئے راستہ ہموار کرتے ہوئے بائیکاٹ کی آڑ میں بھا گ گئے اور جنرل ضیاءالحق نے آئین معطل کرکے مارشل لاء لگا کر عوامی نظام جمہوریت اور ذوالفقار علی بھٹو کو ماورائے عدالت قتل کرکے دفن کر دیا۔ جمہوریت تو دفن ہوگئی لیکن یہود نواز بھٹو کو نہیں مار سکے، بھٹو آج بھی زندہ ہے۔
ضیاءالحق کے دورِ یذیدیت میں پیپلز پارٹی کے جیالوں پر کیا گذری اس سے تاریخ کا لفظ لفظ لال ولال ہے، لیکن امریکہ نے اپنے مقاصد کے حصول کے بعد جابر سلطان ضیاءالحق کو بھی ہوائی جہاز میں دورانِ پرواز اپنے ہی دیس کے دلالوں کے ساتھ جس عبرت ناک انجام سے دوچار کیا، وہ بھی ایک تاریخ ہے۔
ضیاءالحق کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کا پرچم دیس بھر میں سر بلند ہوا، تو بھٹو خاندان کے خاتمے کے کھیل میں پہلے میر مرتضی بھٹو کو اپنی بہن بے نظیر بھٹو کی وزارت عظمیٰ کے دور میں کراچی میں اور لیاقت باغ میں دنیائے اسلام کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیا، تب اقتدار کے سٹیج پر زرداری اور میاں محمد نواز شریف کی نورا کشتی کا کھیل شروع ہوا، لیکن نورا کشتی کے اس کھیل میں عوام کی جمہوری، قومی اور مذہبی سوچ جاگنے لگی جو امریکہ کو گوارا نہیں تھی اور جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں نواز شریف حکومت کا تختہ ہوگیا لیکن نواز شریف جب دوبارہ وزیرِ اعظم بنے تو اس نے مشرف کے ساتھ بستر مرگ تک جو کیا وہ ظلم اور بربریت کی الگ کہانی ہے۔
وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کے پر نکل آئے توسپریم کورٹ نے یہ کہہ کر گھر بھیج دیا کہ تم صادق اور امین نہیں ہو اور جس کپتان عمران خان کو عوام نے وزیرِ اعظم بنایا، سپریم کورٹ نے صادق اور امین کہا، لیکن وہ، میں نہ مانوں کی ضد، ایبسلوٹلی ناٹِ، کہنے کے جرم میں آج اڈیالہ جیل میں اپنے کمرے کی کھڑکی سے پھانسی گھاٹ کا نظارہ کر رہا ہے، غاصب حکومت عمران خان سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ سکرین میڈیا پر اس کا تصو یر دکھانا تو کیا نام لینا تک جرم ہے، اس لئے کہ اس کا سب کچھ پاکستان ہے، وہ مومن ہے اور جانتا ہے کہ پاکستان دنیائے اسلام کا قلعہ ہے۔
اس قلعہ میں زندگی جینے والے محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کے سوا کسی زمینی خدا کی غلامی برداشت نہیں کرتے، اس سوچ کے حامل کپتان اور اس کے چاہنے والوں کے ساتھ غلام دیس میں کیا ہو رہا ہے، ہر کوئی دیکھ رہا ہے لیکن آنکھوں میں شرم و حیا کا پانی خشک ہے۔
نگران وزیرِ اعظم کاکڑ کی حکمرانی میں ایک قومی جماعت تحریکِ انصاف کے چاہنے والوں کے ساتھ جو ہو رہا ہے، ویسا ہی ظلم ضیاءدور کے مارشل لاءمیں پیپلز پارٹی کے ساتھ روا رکھا گیا تھا، عمران خان سے نجات کے لئے ضیاء الحق کے لے پالک ظلم وبربریت کی ڈگری یافتہ اشرافیہ کو بوٹ پہنا کر ایک بار پھر پاکستان پر مسلط کرنے کے لئے لایا گیا ہے، یہ تو تھی گذرے کل کی کہانی، آنے والے کل کو کیا ہوگا، وہ کاکڑ جانتا ہے، یا خالقِ ارض و سما۔۔
بڑی مدت سے زنجیرِ فرنگی کٹ گئی لیکن
ہمارے ذہن سے ان کی وہ نگرانی نہیں جاتی