Kisi Se Kya Karen Shikwa
کسی سے کیا کریں شکوہ
پنجاب اسمبلی گرانے اور بچانے کا ڈرامہ لاہور ہائی کورٹ میں کھیلا گیا، پی ڈی ایم اور ق لیگ کے انٹرول سے قبل تک اس ڈرامے کا تماشہ دنیا نے دیکھا سمجھنے والے پہلے ہی سمجھ گئے تھے کہ اس ڈرامے کا اختتام لاہور ہائی کورٹ بنچ کے فیصلے سے ہوگا اور انٹر ول تک ڈرامے فیصلہ ہوگیا، پرویز الٰہی وزارتِ اعلیٰ کے تخت پر بیٹھ گئے، اس لئے کہ جو وہ چاہتے تھے انہیں وہ مل گیا۔
لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کو ان کی جانب سے اسمبلی نہ توڑنے کی یقین دہانی کروانے کے بعد انہیں وزارتِ اعلیٰ کے عہدے پر بحال کرنے کا حکم جاری کرتے ہوئے فیصلہ دیا کہ ہم تمہیں ووٹ آف کانفیڈنس لینے کا پابند نہیں کرتے، آپ چاہیں تو اپنے طور پر اعتماد کا ووٹ لے سکتے ہیں البتہ پی ڈی ایم نے پرویز الٰہی سے وعدہ پورا کرتے ہوئے عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی، اس لئے کہ پی ڈی ایم جو چاہتی تھی عدالت نے ان کو دیدیا، بظاہر ق لیگ اور پی ٹی آ ئی کے درمیان کوئی تنازع نہیں ہے۔ لیکن پس پردہ پرویز الٰہی اور ان کے ایم پی ایز کی بھی خواہش تھی کہ ابھی اسمبلیاں نہ توڑی جائیں۔
پی ڈی ایم اور ق لیگ نے مٹھائی کھائی اور تحریک انصاف منہ دیکھتے رہ گئی، عمران خان قومی سیاست کو عوامی عدالت میں لانا چاہتے ہیں جمہوریت کا تقاضہ بھی یہ ہی ہے لیکن قومی سیاست کے گرو جان گئے ہیں کہ وہ اپنے کرتوتوں کے سمندر میں ڈوب چکے ہیں، ان کے چہروں سے عوام دوستی کے نقاب اتر چکے ہیں وہ تنکوں کے سہار وں کی تلاش میں ہیں اب ان کو ان کی پرستار قومی عدالتوں کی بیساکیاں ہی قومی سیاست میں زندہ رکھ سکتی ہیں۔
تحریکِ انصاف کے قائد عمران خان نے قومی سیاست کے بد کرداروں کو عوامی طاقت سے آگے لگایا ہوا ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کا عوامی دباؤ شدت اختیار کر چکا ہے وہ چاہتے ہیں کہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے مقررہ مدت کے اندر نئے انتخابات کرائے جائیں، لیکن پی ڈی ایم حکومت کے مطابق ایسا کئے جانا قبل از وقت ہے اور موجودہ پارلیمان کے پاس ابھی مزید ایک سال کا امپورٹڈ مینڈیٹ باقی ہے۔
اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ اس دیس کو جتنا چاہیں لوٹ لیں اور ایسی انتخابی اصلاحات لائیں جس میں وہ قومی لوٹ مار کے لئے خود کو زندہ رکھ سکیں، موجودہ صورت حال میں امپورٹڈ حکمران عوامی مشکلات اور قومی معیشت کی بربادی سے بے پرواہ ہیں وہ آئے رونئے سے نیا آئینی اور انتظامی بحران پیدا کر رہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک ایسی کوئی مثال نہیں ملتی جو ہمارے دیس پاکستان میں ہو رہا ہے، جن ریاستوں میں آئے دن انقلابات آتے رہے وہاں بھی ایسی مثالیں دیکھنے کو نہیں ملتیں، عدالت کے جانبدار فیصلے سے، حکومتی اتحاد کے ریلیف مل گیا۔
پاکستان کے زندہ ضمیر لوگ سمجھتے ہیں کہ ہائی کورٹ کے فیصلے سے عمران خان کے بیانیہ کو نقصان پہنچا ہے، البتہ پرویز الٰہی جو چاہتے تھے اسے مل گیا یہ الگ بات ہے کہ کان سیدھے ہاتھ سے نہیں الٹے ہاتھ سے پکڑا گیا ہے جسے ہم عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنا کہہ سکتے ہیں، اسپیکر پنجاب اسمبلی نے بھی کہا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ ہمارے موقف کی تائید کی ہے، وزیراعلیٰ نے لکھ کر دیا ہے کہ گیارہ جنوری تک اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے گیارہ جنوری کے بعد عدالتیں لگیں گی اور وقفے کے بعد ڈرامے کا دوسر حصہ عوام کو بے و قوف بنانے کے لئے دکھایا جائے گا اور یہ بھی ممکن ہے کہ عدالت عمران خان سے کہہ دے کہ اگر آپ وعدہ کریں کہ عام انتخابات میں آپ ایک تہائی اکثریت نہیں لیں گے تو ہم انتخابات کا حکم صادر فرما دیتے ہیں۔
کیا یہ اس آئے روز کے ڈرامہ بازی سے بہتر نہیں ہوگا کہ سپریم کورٹ 50 روپے کے اسٹام پیپر پر پاکستان کی ملکیت اشرافیہ کے نام لکھ دے اگر ایسا نہیں کیا تو بڑے بڑوں کے ضمیر جاگنے لگے ہیں، اعتزاز احسن۔ مصطفیٰ کھوکھر، کامل آغا کے بعد پیپلز پارٹی کے کھوسہ صاحب بھی کہنے لگے ہیں کہ میں اس لئے ٹی وی ٹاکروں میں نہیں جاتا کہ اگر میں نے پاکستان کی بات کی تو پارٹی کا پھندہ میرے گلے میں ہوگا، وہ کہتے ہیں کہ سیاست دانوں نے پارلیمنٹ کے وقار کا جنازہ نکال دیا، اقتدار کی حوس میں کھبی ہم نیوٹرل کے پاس ہوتے ہیں تو کھبی عدالت کی دہلیز پر، اگر یہ ہی کچھ کرنا ہے تو پھر پارلیمنٹ کی کیا ضرورت ہے، نیوٹرل ہے نا، جس کی عدالت بھی غلام ہے
کسی سے کیا کریں شکوہ کہ دور حاضر میں
ہمارے دیس میں غنڈے وزیر ہوتے ہیں