Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Gul Bakhshalvi
  4. Khuda Kare Ke Naya Dorr Sab Ko Raas Aye

Khuda Kare Ke Naya Dorr Sab Ko Raas Aye

خدا کرے کہ نیا دور سب کو راس آئے

صدرِ پاکستان عارف علوی نے سمری پر دستخط کر دیئے اور قومی اسمبلی تین دن قبل تحلیل ہوگئی۔ مقررہ مدت سے تین دن قبل 13 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم (مشترکہ مفادات کونسل) کی بدترین حکمرانی کا دور ختم ہوگیا، اس حکمرانی میں سب سے برا کردار مسلم لیگ ن اور فضل الرحمان گروپ کا رہا، انہوں نے اپنی حکمرانی میں مرحوم جنرل ضیاءالحق کے ظلم اور جبر کی حکمرانی کی آخری سرحدیں تک عبور کرنے کے بعد قومی خزانے سے الوداعی دعوت اڑائی اور جہاں جہاں سے آئے تھے وہاں واپس چلے گئے، اب ان کے مقدر کا فیصلہ عوامی عدالت میں ہوگا۔

پاکستان پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لئے امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے ایک بار پھر کہا ہے کہ امریکا پاکستان میں سابق وزیراعظم کیخلاف کسی سازش میں ملوث نہیں۔ امریکا نے سابق وزیراعظم پاکستان کے دورہ روس پر تشویش کا اظہار ضرور کیا تھا۔ سابق وزیراعظم پاکستان نے روس کے یوکرین پر حملے والے دن دورہ کیا، میتھیو ملر نے کہا کہ سابق پاکستانی سفیر بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکا پر الزامات جھوٹے ہیں۔ امریکا نے نہیں کہا کہ سابق پاکستانی وزیراعظم کو جانا چاہیے۔ لیکن وہ یہ کہنا بھول گئے کہ اگر عمران خان کی حکمرانی قائم رہی تو پاکستان کو تنہا کر دیں گے۔

مشترکہ مفادات کونسل کی حکمرانی میں اداروں نے جو کردار ادا کیا دنیا جانتی ہے لیکن پاکستان میں آج بھی کچھ زندہ لاشیں ہیں جو چوروں اور قومی لٹیروں کی بد کرداریوں کے باوجود ان کے گیت گا رہے ہیں، ان کی نظر میں سابق وزیرِاعظم ہی مجرم اور قومی غدار ہیں اس لئے کہ وہ پاکستان کی حقیقی آزادی کے لئے آواز حق بلند کر رہے ہیں، دنیا بھر نے عمران خان کو حق و صداقت کا علمبردار قرار دیا لیکن، پاکستان کی زندہ لاشوں نے انہیں قبول نہیں کیا۔

یزید پرست درباریوں کا کہنا ہے کہ توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے بعد تحریکِ انصاف کا شیدائی سڑک پر نہیں آیا، دراصل امریکی غلاموں کے غلام شعور کے اندھے ہیں، وہ پاکستانی ہیں لیکن امریکی غلاموں کے درباری ہیں، دیکھنے کے لئے چشمِ بینا کی ضرورت ہوتی ہے، شیدائی سڑکوں پر آئے ہیں، لیکن وہ شیدائی تھے پی ڈی ایم کے بلوائی نہیں تھے تحریکِ انصاف کے یہ ہی شیدائی 9 مئی کو بھی سڑکوں پر نکلے تھے لیکں ان میں کچھ پی ڈی ایم کے بلوائی تھے، جنہوں نے اداروں کی خواہش پر وہ کیا جو کوئی دیسی اپنے دیس کے وقار کے ساتھ نہیں کر سکتا۔

9 کو احتجاجی مظاہروں میں شیدائی کم اور نقاب پوش بلوائی زیادہ تھے۔ صرف ایک آواز حق کو دبانے کے لئے ان کمبختوں نے نجی اور قومی اداروں کی تنصیبات کو توڑا اور آگ لگا کے قوم، دیس اور دین کی توہین کی۔ پی ڈی ایم کے درباری بخوبی جانتے ہیں کہ تحریکِ انصاف کا خاموش ووٹ وقتی طور پر تماشائی ہے، وہ خاموش ووٹر ہے۔ اگر دور حاضر کے نگران حکمران، اداروں کی بجائے پاکستان کو سوچیں گے تو امریکی غلاموں اور یزیدی درباریوں کو لگ پتہ جائے گا، اس لئے کہ سابق وزیراعظم عمران خان چٹان کی طرح کھڑا ہے، اور کالہ کوٹ ان کے ساتھ کھڑا ہے جب کہ پاکستان کی صحافت قلم فروشوں کے ہاتھ میں ہے۔

ان ہی کے سعادت حسن منٹو نے کہا ہے، کہ (ایک قلم فروش صحافی جسم فروش عورت سے بھی زیادہ بد کردار ہوتا ہے)۔ جنگل میں شیر کو قید کرنے مطلب یہ نہیں کہ جنگل میں کتے راج کریں گے بڑے بزرگوں نے کیا خوب کہا ہے کہ ہر برتن سے وہ ہی کچھ ٹپکتا ہے جو اس کے اندر ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے، اور مشکل دور ایسا فلٹر ہے جو آپ کو منافق، لالچی اور مکار دوستوں سے پاک کر دیتا ہے۔

امریکہ کے مشہور جج فرینک کیپرو ریٹائرڈ ہوئے تو اس کو کورٹ سے الوداع کے لئے پورا شہر امڈ آیا، اس لئے کہ وہ جج تھا فیصلے، لئے ہوئے حلف کی شان کے لئے کرتا تھا، وہ امریکی تھا لیکن امریکی صدور اور جرنیلوں کا درباری نہیں تھا، ایمانداری سے فرائض سرانجام دینے والوں کی عزت ہوتی ہے جب کہ پاکستان میں ایڈیشنل سیشن جج عجلت میں فیصلے کرکے دیس سے بھاگ جاتے ہیں، لیکن وہ نہیں جانتے کہ پاکستان میں انصاف کے شیدائی دنیا کے کونے کونے میں آباد ہیں۔

جج دلاور کے ساتھ برطانیہ میں جو ہوا اور ہوگا دنیا نے دیکھا اور دیکھ رہی ہے۔ اس لئے قومی عدالتوں میں حق اور صداقت کے علم بردار اپنے آنے والے کل کا بھی ضرور سوچیں۔

افغانستان کے جنرل کا کہنا ہے کہ جب بھی پاکستان میں دہشت گردی ہوتی ہے تو الزام افغانستان کو دیا جاتا ہے کہ دہشت گرد افغانستان سے آئے تھے، تم نے تو امریکہ سے ڈالر لے کر سرحد پر باڑ لگا دی ہے دہشت گرد کس راستے سے آتے ہیں، اور اگر آتے ہیں تو تمہارے ادارےکہا ہوتے ہیں؟ انہیں تو تم نے عمران خان کے پیچھے لگایا ہے، جب افغانستان سے دہشت گردی کے لئے بارود سے بھری گاڑیاں آتی ہیں تو انہیں کیوں نہیں پکڑتے؟ اپنے اداروں کو تنخواہ کس بات کی دیتے ہو۔ کالم کے آخر میں دعا کرتا ہوں کہ

نہ کوئی رنج کا لمحہ کسی کے پاس آئے

خدا کرے کہ نیا دور سب کو راس آئے

Check Also

Aalmi Siasat 2024, Tanz o Mazah Ko Roshni Mein

By Muhammad Salahuddin