Hukuman Jamat Aur Supreme Court
حکمران جماعت اور سپریم کورٹ
رانا ثناءاللہ کہتے ہیں یا تو عمران خان رہے گا یا ہم رہیں گے لیکن عمران خان کہتا ہے وقت کا تقاضہ ہے کہ ہم دونوں رہیں لیکن اگر وہ کہہ رہے ہیں تو کہ ایک رہے گا تو میں کہوں گا کہ وہ نہیں ہم رہیں گے۔ دونوں رہنماؤں کے یہ جملے بہت گہرائی میں کہے گئے ہیں لیکن سیاسی بونے اور لفافی صحافی ان دو جملوں کو غلط رنگ دے رہے ہیں، یا تو یہ بات ان کی سمجھ سے باہر ہے اور یا یہ قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں، دونوں سیاسی رہنما، سیاست دان ہیں، وہ نا تو خدا ہیں اور نہ علم غیب جانتے ہیں!
کو ن پہلے مرے گا یہ تو خدا جانتا ہے، دونوں رہنماؤں نے تختِ اسلام آباد کی بات کی ہے، ایک تخت نشین ہوتا ہے اور ایک تماش بین، اور یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ کون تماش بین ہوگا اور کوں تخت نشین ہوگا، البتہ یہ ضرور ہے کہ انسان یا تو غیرت مند ہوتا ہے یا بے غیرت! اور پوری قوم جانتی ہے کہ کس کا ایمان رازق پر ہے اور کون کس کے وینٹی لیٹر پر ہے، کون لبرل ہے اور کون اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہب کا علمبردار، کون غیرت مند ہے اور کون بے غیرت، یہ فیصلہ عوام نے کرنا ہے عمران خان نے سپریم کورٹ کے ججوں تک کو بے نقاب کردیا، قوم جان گئی ہے کہ کون سے جج پاکستان کے ساتھ ہیں اور کون پٹواری کے درباری!
عمران خان اپنے اور اپنے چاہنے والوں کے خلاف ناجائز حکومت اور ان کے درباریوں کے ہر ظلم و جبر کے باوجود اگر پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے تووہ جانتا ہے کی راستہ ایک ہی تھا، فرغون ڈوب گیا اور موسیٰؑ گزر گئے مطلب ہے یقین اللہ پر ہونا چاہیے راستے پر نہیں۔
پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی قوت تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ اگر آئینی تقاضوں کے مطابق نوے دن کے اندر اندر انتخابات نہ ہوئے تو دمادم مست قلندر ہوگا جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن نے اتحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد اعلامیہ جاری کیا ہے کہ، ہمیں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ پر اعتماد نہیں مسلم لیگ ن کا سپریم کورٹ کے گھوڑے پر سواری کی خواہش کوئی نئی بات نہیں۔
نواز شریف کا دوسرا دور حکومت تھا چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے نوازشریف کو توہین عدالت کا نوٹس دے کر طلب کیا بادشاہ سلامت عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے مگر انھوں نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو سبق سکھانے کا گھناونا منصوبہ بنایا۔ گوہر ایوب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ نواز شریف نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو قومی اسمبلی کی استحقاق کمیٹی کے سامنے طلب کرنے کا کہا جب انھیں بتایا گیا کہ ایسا ممکن نہیں تو نواز شریف نے کہا گوہر صا حب کوئی راستہ بتائیں کہ چیف جسٹس کو گرفتار کیا جا سکے۔ اسے میں ایک رات جیل میں رکھنا چاہتا ہوں۔
" گوہر ایوب نے کہا ایسا ممکن نہیں تو بریف کیس حرکت میں آیا رات کی تاریکی میں وزیر اعظم نواز شریف کے خصوصی طیارے پر جسٹس رفیق تارڑ اس وقت پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہبازشریف کو کوئٹہ لے گیا۔ ضابطوں کو پامال کرتے ہوئے رات گئے کوئٹہ میں طیارے کو لینڈ کرنے دیا گیا ایئر پورٹ سٹاف کو حکم جاری کیا گیا کہ عزت مآب کا دورہ کانفیڈنشل ہے۔
کانفیڈنشل دورے کے نتیجے میں پھر ایک فیصلہ آیا اور چیف جسٹس کو غیر آئینی طور پر عہدے سے ہٹایا گیا چیف جسٹس سجاد علی شاہ غیر آئینی حکم کے سامنے ڈٹ گئے پھر نوازشریف کے حکم پر جی ٹی روڈ کے اطراف سے جتھے بلوا کر سپریم کورٹ پر حملہ کرایا گیا یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک شرمناک ترین باب ہے کہ ایک حکمران سیاسی جماعت سپریم کورٹ پر ہی چڑھ دوڑ ی شریف خاندان کی تاریخ رہی ہے کہ انھوں نے ایک مافیاز کے طور پر ملک پرحکومت کی شریف خاندان اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے آج ایک بار پھر چاروں اطراف سے سپریم کورٹ پر حملہ آور ہے۔
چیف جسٹس بندیال آئین کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہیں شریف خاندان کمزور ججز کو تلاش کرکے سپریم کورٹ کو ایک بار پھر تقسیم کرنا چاہتا ہے شریف خاندان کو جسٹس تارڑ مرحوم کی طرح ایک مہرہ جسٹس جمال مندوخیل ملا ہے جسے وہ استعمال کرنا چاہتے ہیں، مگر وہ یہ بھول گئے ہیں کہ یہ نوے کی دہائی نہیں ہے یہ اکیسویں صدی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس منصور شاہ کے اختلافی نوٹ کی حیثیت اتنی ہی ہے جتنی مسٹر بھٹو کو پھانسی کے وقت عدالتی فیصلے میں جسٹس صفدر شاہ کی تھی انشاء اللہ جیت آئین کی ہوگی عوام کی ہوگی جیت سچائی کی ہوگی کیونکہ برائی کو ثبات نہیں ہوتا اچھائی کو ثبات ہوتا ہے۔
ستیہ پال آنند جی کی ایک نظم ہے
آنند جی نے جب سچ اور جھوٹ کے بارے میں ان سے پوچھا۔۔ تو بدھ نے نرمی سے فرمایا سچ کی تختی ماتھے پر آویزاں کرکے کیا کر لو گے؟
جھوٹ کا تیر چلانے والے دور سے سچ کی تختی کو پہچان کے اپنے پہلے تیر سے تختی اور ماتھا دونوں کو ایک ساتھ چھلنی کر دیں گے۔ جب جھوٹوں کے مدِ مقابل جانا ہو تو سچ کو اپنی آ ستین میں مخفی رکھ لو جھوٹے لوگوں سے میٹھے انداز میں بولو سچ تو سانپ ہے آ ستین سے جب نکلے گا۔۔ ڈس جائے گا مدِ مقابل۔
جھوٹے کو یا پھر تم کو!