Do Pakistan, Kyun?
دو پاکستان، کیوں؟
خیراتی بجلی استعمال کرنے والی افسر شاہی کے مراعات سے متعلق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو بجلی کمپنیوں نے یہ رپورٹ دی ہے کہ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کی قسطیں کر دی جائینگی، مطلب ہے کہ اگر کسی صارف کو بجلی کا بل پچاس ہزار روپے آیا ہے، تو اس کی پانچ قسطیں کر دی جائیں گی اور وہ دس ہزار ماہانہ ادا کرے گا، تو کیا پانچ ماہ تک اس کو بجلی مفت ملے گی۔
وزیرِ اعظم صاحب اگلے مہینے اگر چالیس ہزار کا بل آئیگا تو صارف کو چالس ہزار کی قسط بھی ادا کرنی ہوگی۔ جانے افسر شاہی، پاکستان پرستی کا مذاق کیوں اڑا رہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ اشرافیہ افسر شاہی کو مفت بجلی کی فراہمی کا سلسلہ فوری بند کیا جائے۔ آپ کہتے ہیں کہ غریب مر رہے ہیں اور افسر شاہی مفت بجلی کے مزے لوٹ رہی ہے اگر آپ کی یہ سوچ ہے تو قوم آپ کو سلام کرے گی بشرطیکہ آپ گفتار کے نہیں کردار کے غازی بن جائیں۔
وزیر اعظم صاحب صرف واپڈا والے ہی مفت بجلی استعمال نہیں کرتے گیس کمپنی والوں کو گیس مفت، پی آ ئی اے کے ملازمین کو ائرٹکٹ مفت، ریلوے والوں کو ریل کے ٹکٹ فری دستیاب ہیں۔ افسری شاہی کے لئے تنخواہ اور الاونس کے باوجود، بجلی، گیس، اور دیگر مراعات مفت ہیں تو کیوں؟
سوشل میڈیا پریہ خبر گردش میں ہے کہ چیف جسٹس عمر عطابندیال ماہ ستمبر میں ریٹائر ہورہے ہیں۔ ریٹائر منٹ کے بعد ان کو کم و بیش دس لاکھ تک پنشن ملے گی، 3000 ٹیلی فون کالز فری ملیں گے، بجلی کے 2000 یونٹس، گیس، اور پانی فری، 300 لیٹر پیٹرول 8 گھنٹے کی شفٹ کے لیے پولیس کا ایک گارڈ اور ڈرائیور کم قیمت پر سرکاری گاڑی (بلکہ گاڑیاں خرید سکتے ہیں) ان سے پنشن پر انکم ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔ اس لئے کہ حکومت کے خزانے پر یہ بوجھ پاکستان کے محنت کش طبقے کے خوب پسینے بجلی کے بل میں وصول کیا جائے گا۔
دنیا جانتی ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، میں دو پاکستان ہیں، ایک اداروں اور اشرافیہ کا عیاش پاکستان، دوسرا، محنت کشش مزدور کا غریب پاکستان، لیکن آج محنت کشش مزدور پاکستان کے باشندوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ وہ سڑکوں پر ہیں، اداروں اور اشرافیہ پاکستان کے عیاش پاکستانیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں، محنت کشش مزدور کب تک مغرب پرست یہودی غلاموں کا ظلم برداشت کرے گا ظلم اور بربریت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے!
جو پاکستان کو چاہنے والے ہیں وہ جیلوں میں بند ہیں۔ جنہوں نے پاکستان کو لوٹا وہ لوٹ کر پاکستان سے چلے گئے ہیں وہ دہاڑیاں لگوانے آئے تھے، اداروں نے انہیں سر پہ بٹھایا، وہ قومی مجرم تھے پندرہ ماہ کی حکمرانی انہوں نے گنگا نہا لیا۔
اداروں کے خوف سے عدالتوں میں انصاف دینے کے دعویداروں کی زبان کو تالے لگے ہیں، اسلامیہ جمہوریہ پاکستان کے قانون کو دفن کر دیا گیا اداروں نے غریب پاکستان کی غریب عوام کو اپنے ظالمانہ نظام حکمرانی میں زندہ دگور کر دیا ہے آج اگر غریب پاکستان کے شہری، اشرافیہ اور اداروں کے خلاف سڑک پر سراپا احتجاج ہیں۔ گرڈ اسٹیشنوں کا گھراؤ ہے تو، اشرافیہ اور اداروں نے انہیں احتجاج پر مجبور کر دیا ہے ظلم اور بربریت کے اس دور میں، ایوان عدل گونگا، بہرہ اور اندھا ہے۔