Deewaron Se Sar Takrane Ki Zaroorat Nahi
دیواروں سے سر ٹکرانے کی ضرورت نہیں
ایوبی دورِ حکمرانی میں معاشرتی اور سیاسی شعور کی آنکھ اس وقت کھلی جب چینی دو آنے مہنگی ہوگئی تھی۔ عوام سراپا احتجاج تھے۔ ایوب خان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو عوام کی آواز بن کر سڑک پر آئے تھے۔ میں اس وقت کھاریاں میں پاک فوج کا سپاہی تھا، ہم فوجیوں کے لئے بھٹو کا نام لینا بھی جرم تھا، لیکن دیکھنا تو تھا اس بھٹو کو! جو مقبولیت کی بلندیوں پر تھے۔
مارشل لاء احکامات سے بے پروا کھاریاں شہر آیا اور جی ٹی روڈ پر بھٹو کے استقبالیوں میں شامل ہوگیا، موقع ملا اور ذوالفقار علی بھٹو کے عوامی سمندر میں بھٹو سے ہاتھ ملایا۔ تب سے سیاست کا کھیل دیکھ اور بھگت رہا ہوں، شاید ہم اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوری حکومت جمہوریت کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے ہم پاکستانی تو امریکی درباریوں کے کھیل کھلونے ہیں۔ درباری جنہیں چاہتے ہیں وہ حکمران اور ہم پاکستانی ان کے غلام ہوتے ہیں۔
لیاقت علی خان کی شہادت ایوبی دورِ حکومت تک تو میں سیاسی نابالغ تھا لیکن راولپنڈی میں امریکہ کے دھمکی آمیز خط کے لہرانے اور دنیائے اسلام کے مقبول ترین مسلم لیڈر پاکستان کے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوکے خلاف پی این اے کی تحریک کے دوران سیاسی عقل داڑ نکل آئی اور میں نے فوج کو سلام کیا، پاکستان کا غلام بن گیا! اس وقت سے آج تک پاکستان میں درباریوں کی حکمرانی دیکھ رہا ہوں، جس بھی کسی عوامی قائد جمہوری حکمران کے پاؤں جمتے ہیں تو درباریوں کو اشارہ ملتا ہے۔
حکمرانی کے خلاف تحریک اٹھتی ہے لاشیں گرتی ہیں عدلیہ کے وقار پر کالا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے رات بارہ بجے عدالت لگتی ہے اور حکمرا ن کا چہرہ تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ یہودی پاکستان میں پاکستانیوں کی نہیں غلاموں کی حکمرانی چاہتے ہیں، امریکی دربار کے ڈسے ہوئے موروثی اور کاروباری سیاست دان بھی جانتے ہیں لیکن ذاتی مفادات کے لئے قوم کے اجتماعی مفاد کا شملہ سر سے اتار کر امریکی درباریوں کے قدموں میں رکھ دیتے ہیں ڈالروں کی بوریوں کے منہ کھل جاتے ہیں اور لوٹوں کے وارے نیارے ہو جاتے ہیں، آزادی تو بس نام کی ہے محب وطن پاکستانی تو امریکی غلاموں کے غلام بھی نہیں کمی کمین ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قومی مقبولیت کو کراچی میں ایم کیو ایم اور پنجاب میں اشرافیہ کا پودا لگایا گیا تو پیپلز پارٹی کے لوٹے مسلم لیگ ن کی ڈالی سے لٹکنے لگے پیپلز پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی، جب ایم کیو ایم پر بہار آئی تو اس کا شیرازہ بکھیر دیا گیا، اور پاکستان میں زردار ی اور اشرافیہ کی نورا کشتی شروع ہوگئی ایک دوسرے کے خلاف غداری اور کرپشن کے مقدمات درج ہونے لگے۔ عدالتوں کے جج خریدے جانے لگے، یہ کھیل بھی زیادہ دیر نہیں کھیلا گیا، اس لئے کہ مسلم لیگ ن قومی سطح پر ثمر بار ہوئی، تو عدالت سے فیصلہ آ گیا میاں صاحب تم صادق اور امین نہیں ہو عدالت نے ہاتھ دیکھایا اور میاں صاحب ہر کسی سے سوال کرنے لگے، مجھے کیوں نکالا؟
درباریوں کی نظر تحریک انصاف پر تھی، پیپلز پارٹی اور اشرافیہ کے لوٹے تحریکِ انصاف میں شامل ہونے لگے، لیکن لوٹوں کی بد قسمتی کھلاڑی نے، ایبسلوٹلی ناٹ، کا نعرہ لگایا اور ماورائے عدالت قتل ہونے والے ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پاکستان کے لئے بے لگام ہوگیا۔ آستین کے سانپ، آستین سے باہر آئے درباریوں کی ڈگڈگی بجنے لگی اور سابق چینی چور کی استحکام پارٹی میں شامل ہونے لگے لوٹے ناچنے لگے، جو پاکستان دوست بولا اسے شہید کیا جانے لگا، زبانیں کٹنے لگیں، اور سیاسی مزدور تماشہ دیکھتے رہ گئے۔
ظلم کے خلاف گھر سے نہیں نکلے اس لئے کے درباریوں کی آنکھوں میں خون اترا ہے، موت تو برحق ہے لیکن میاں بیٹیوں اور بہنوں کو مادر زاد ننگا نہیں دیکھ سکتے۔
دیکھتے ہیں کہ حکمرانی کے لئے امریکہ کی نظر اشرافیہ پر ہے یا لوٹا استحکام پارٹی پر کوئی نہیں جانتا، جہاں تک تحریکِ انصاف کے چیئر مین عمران خان کی بات ہے تو، اگر اس کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو والا سلوک نہیں کیا گیا تو وہ جیل ہی میں رہیں گے، وکلاءکا دیواروں سے سر ٹکرانے کی ضرورت نہیں!