Aam Intehabaat Nahi Honge
عام انتخابات نہیں ہوں گے
ذوالفقار علی بھٹو کو امریکی وزیر خارجہ ہینری کیسجنر نے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا اگر آپ نے ری پروسیسنگ پلانٹ کے معاہدے کو منسوخ، تبدیل یا معطل نہیں کیا تو ہم آپ کو عبرت کا نشان بنا دیں گے، تو ذوالفقار علی بھٹو نے جواب میں کہا، کر لو جو کرنا ہے، میں اپنے ملک کی خاطر بلیک میلنگ اور دھمکی کو نہیں مانوں گا۔ میں وہ ہی کچھ کروں گا جو میرے دیس پاکستان کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ ذوالفقار علی بھٹو بنیادی طور پر قوم پرست لیڈر تھے وہ پاکستان پر انڈیا کے تسلط کو کسی بھی طرح قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔
قوم پرست سیاست دان نہیں ہوتے وہ لیڈر ہوتے ہیں، لیڈر میدان عمل میں اترنے سے پہلے منزل کا تعین کرتے ہیں اور پھر منزل تک رسائی کی جستجو میں ذات کے انجام کو بھول جاتے ہیں، وہ ڈکٹیشن نہیں لیتے لیڈر قومی اور عوامی مفاد کو سوچتے ہیں، اس لئے ایسے لیڈر دیس دشمن قوتوں اور قوم کے بے ضمیر کاسہ لیسوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، وہ چاہتے ہیں کہ انہیں راستے سے ہٹا دیں لیکن مجبور ہوتے ہیں اس لئے کہ وطن دوست عوام لیڈر کے ساتھ ہوتی ہے، تو لیڈر کو نہ چاہنے والے دستانے پہن لیتے ہیں، پاکستان میں ایسے قوم پرست لیڈر سے نجات کے لئے جنرل الیکشن ہوا کرتے ہیں۔
پاکستان کے عام شہری اپنے دیس میں عام انتخابات کا یہ مطلب تو جانتے تھے کہ ہم اپنے محبوب لیڈر کو ووٹ دے کر دیس کا حکمران منتخب کریں گے لیکن عوام نے جنرل الیکشن کے مطلب پر کوئی خاص توجہ نہیں دی وہ سمجھتے تھے کہ عام انتخابات کو خاص لوگ جنرل الیکشن اس لئے کہتے ہیں کہ وہ قومی زبان اردو کی بجائے انگریز کی انگریزی سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ وہ ذہنی غلام ہیں ذہنی غلامی میں وہ عام انتخابات کو جنرل الیکشن کہتے ہیں، میری ایک غزل کا شعر ہے۔
بڑی مدت سے زنجیرِ فرنگی کٹ گئی لیکن
ہمارے ذہن سے ان کی وہ نگرانی نہیں جاتی
عام انتخابات میں پاکستان کے شہری عام طور پر اپنے دیس کی خوشحالی اور مذہبی عظمت کے لئے اپنے پسند کے قومی لیڈر کو ووٹ دیتے ہیں، لیکن انتخاب کی شام کو جب نتائج آنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے تو ان کی انگلی ان کے دانتوں میں دب جاتی ہے۔ وہ حیران ہوتے ہیں کی جو ہیرو تھا وہ زیرو کیسے ہوگیا؟ لیکن پاکستان میں رجیم چینج کے بعد جب سابق وزیراعظم عمران خان نے رجیم چینج کے حقائق میں عام انتخابات کے چہرے سے نقاب اتارا تو قوم کو جنرل الیکشن کے لفظی معنی کا، علم ہوا، جنرل الیکشن کا مطلب ہے حکمران وہ جس کو جنرل پسند کریں گے۔
2018 کے عام انتخابات جنرلز کا جھکاؤ عمران خان کی طرف تھا لیکن ان کو غلط فہمی تھی عمران وہ نہیں تھا جو جنرل سوچ رہے تھے اس لئے کہ عمران خان سیاستدان نہیں لیڈر تھا، وزیرِاعظم عمران خان کو جنرل کسی حد تک برداشت کرتے رہے لیکن "ایبسلوٹلی ناٹ" نے نہ صرف مغرب بلکہ قومی جنرلز کی آنکھیں بھی کھول دیں۔ جنرل جان گئے کہ عمران خان اگر برسرِ اقتدار رہا، تو آنے والے کل کو وہ جوڑوں میں بیٹھ جائے گا اس لئے عمران خان سے نجات کے لئے لوٹے خریدے گئے اور رات بارہ بجے سپریم عدالت لگی، سپریم عدالت کے فیصلے سے عوام کا پاکستان ہار گیا اور جنرل کا پاکستان جیت گیا۔
لیکن جنرل نہیں جانتے تھے کہ وزیراعظم عمران خان اگر لاکھ کا ہے تو تختِ اقتدار سے گرائے جانے کے بعد ڈھائی لاکھ کا ہوگا، اور مکافات عمل میں دنیا نے دیکھ لیا جن کے لئے سپریم عدالت رات بارہ بجے لگی ان خود پرستوں نے سپریم عدالت کو جوتے کی نوک پر رکھ دیا، اور آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ عمران خان نے حاضر سروس فوجی افسر پر بے بنیاد الزامات لگائے ہیں ادارہ اس پروپیگنڈے کے خلاف قانونی کاروائی کا حق رکھتا ہے اس لئے عمران خان کہتے ہیں وقت آ گیا ہے کہ ہم باضابطہ طور پر اعلان کریں کہ پاکستان میں محض جنگل کا قانون رائج ہے جہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون کارفرما ہے، ادارے اور عمران خان کی ٹویٹ کے بعد ہم پاکستانیوں کو جان لینا چاہیے کہ عام انتخابات یا جنرل الیکشن نہیں ہوں گے۔