Afaq Ahmed Ka Satwa Adhoora Janam
آفاق احمد کا ساتواں ادھورا جنم

کراچی میں جو چیز سب سے زیادہ زیر بحث ہے وہ واٹر ٹینکر اور ڈمپر مافیا ہے۔
پچھلے بیس دن سے کراچی میں ہوں۔ ہر طرح کے لوگوں سے ملنا ملانا ہوگیا۔ تقریباََ سبھی کا احساس یہ ہے کہ ڈمپر مافیا منصوبہ بند طریقے سے شہریوں کو روند رہا ہے۔
سوال آتا ہے: یہ انہی لوگوں کو کیوں روند رہا ہے جن سے اس کی روزی روٹی کا معاملہ جڑا ہوا ہے۔ اس سوال کا جواب جڑا ہوا ہے ایک اور سوال کے ساتھ۔
"اس روندا کاری کا اینڈ بینیفشری آخر کون ہے"
مطلب انجام کار کس کو فایدہ ہو رہا ہے؟ خود ڈمپر مافیا کو؟ پس پردہ سرمایہ کاروں کو؟ پی پی پی کو یا حکومت سندھ کو؟ آخر کس کو؟
اس سوال کے مختلف جوابات آرہے ہیں۔ ایک آدھ جواب سے کہانی والی حس تو مطمئن ہو جاتی ہے مگر تجزیے والی حس پیاسی کی پیاسی رہ جاتی ہے۔
گھوم پھر کر ایک ہی صاحب ہیں جو پورے فائدے میں نظر آتے ہیں۔ ان کا نام آفاق احمد ہے۔ لوٹ جاتی ہے ادھر کو ہی نظر کیا کیجے!
آفاق احمد سیاست کے امتحان گاہ میں بیٹھے ہیں۔ ان کے سامنے دس نمبر کا ایک لازمی سوال رکھ دیا گیا ہے۔
"خالی جگہ پر کریں "
اس خالی جگہ کو وہ ڈمپر مافیا والے نعرے سے پر کرنا چاہتے ہیں۔ کیوں؟ جس نے پرچے میں سوال رکھا ہے وہ ڈمپر والے جواب پر ہی پورے نمبر دے رہا ہے۔
کل رات یوپی موڑ سے لے کر نارتھ ناظم آباد تک جلاو گھیراو والے واقعات جس ترتیب سے ہوئے ہیں، وہ پرچہ آوٹ کرنے کی واردات ہی لگتے ہیں۔ شہر کو بتایا جارہا ہے کہ سوال کا درست جواب کیا ہے۔
پھر گرفتاریوں کی جو ترتیب رکھی گئی ہے اس کا فایدہ بھی ایک آفاق کے سوا کس کو ہے۔ 12 اپریل جوں جوں قریب آرہی ہے آفاق احمد کے سیاسی ایندھن میں توں توں اضافہ ہو رہا ہے۔
آفاق احمد نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر پہلا سیاسی جنم بھی ایک روڈ حادثے سے لیا تھا۔ ساتواں اور آخری جنم بھی روڈ حادثے سے ہی لے رہے ہیں۔
آفاق احمد نوے کے اوائل میں الطاف کا متبادل بننے کے لیے ٹینک پر سوار ہوئے تھے۔ آج پھر سے الطاف ہی کا متبادل بن کر بیلچے اور جیری کین والی جیپ پر چلے آرہے ہیں۔
تب کچھ خاص پذیرائی اس لیے نہیں ملی کہ یہ خود مہاجروں کی ہی گردنیں ناپنے بیٹھ گئے تھے۔ اب ہجوم اس لیے زیادہ ہے کہ ڈمپر والا راگ الاپنے بیٹھ گئے ہیں۔
در اصل ڈھونڈنے والے پندرہ برس سے وہ پاوں ڈھونڈ رہے ہیں جو الطاف حسین کے جوتے میں دیا جاسکے۔ اس کے لیے کئی طرح کے تجربات ہوچکے ہیں۔
پہلے تجربے میں خان صاحب کو مع اہل و عیال عزیز آباد گراونڈ میں غزنوی کی طرح داخل کیا گیا تھا۔ پی ٹی آئی کراچی کی ایک بڑی جماعت بن بھی گئی مگر وہ جو ایک چیز نمائندگی ہوتی ہے، وہ عنصر غائب رہا۔
پھر فاروق ستار کو تہہ خانے میں بند کرکے ایم کیو ایم پاکستان والا تجربہ کر لیا گیا۔ ایم کیو ایم پاکستان تنظیم تو تھی مگر اس کی روح نکل چکی تھی۔ نمائندگی والے خلیے یہاں بھی کم رہے۔
تیسرا تجربہ کرنے کے لیے مصطفی کمال اور انیس قائم خانی کو پیراشوٹ سے باندھ کر سیدھا کراچی پریس کلب میں اتارا گیا۔ ان کے آنسووں میں جذباتی تیزاب کی مقدار اچھی خاصی تھی، پھر بھی لوگوں کی ہنسی نکل گئی۔
چوتھا تجربہ کرنے کے لیے خود الطاف حسین سے ہی رابطہ کر لیا گیا۔ کہا گیا، آپ لندن سے قائدانہ کردار انجوائے کریں، فیصلوں کی توثیق کریں، نائن زیرو بحال کریں، سیاست میں اپنا حصہ وصول کریں مگر۔!
مگر؟
مگر فرنٹ پر کمال و ستار والی کاما سترا پارٹی ہوگی۔ الطاف حسین نے سب مان لیا کاما سترا پر اٹک گئے۔ اس سے تو کوک شاستر اچھی ہے کم از کم نہاری حلیم تو بناتا رہوں گا۔
حال ہی میں پانچواں تجربہ کرنے کے لیے کوزہ گر نے بنی اسرائیل کے تمام قبیلوں سے مٹی مانگ کر ایم کیو ایم کا ایک اجتماعی چہرہ بنا دیا۔
پاکستان والی ایم کیو ایم اس گمان کے ساتھ بلدیاتی انتخابات میں اتری کہ الطاف حسین خاموش رہیں گے۔ یہ خاموشی ہماری تائید بن جائے گی اور ہم جیت جاویں گے۔
انتخاب سے دو تین دن پہلے بائیکاٹ کی اپیل کرکے الطاف حسین نے کاما سترا کی کتاب بند کردی۔ کوزے والی ایم کیو ایم حلقہ بندیوں کو بنیاد بناکر الیکشن کی دوڑ سے نکل گئی۔
عام انتخابات میں اسی ایم کیو ایم پاکستان کو جتوا تو دیا، مگر غیبی مددگاروں کو مزا نہیں آیا۔ وہی نمائندگی والی بات۔ سیٹیں تو ایک سو چالیس بھی نکال لو گے لیکن نمائندگی والا جوہر کہاں سے لاوگے۔
چھٹے تجربے کے طور پر اب آفاق اس امید کے ساتھ آرہے ہیں کہ میرے اور الطاف حسین کے بیچ ٹندولکر اور سہواگ والی جوڑی بن سکتی ہے۔
بس مجھے کرنا یہ ہے کہ مہاجر نعرے کو زندہ کروں، بنیادی مسائل پینڈنگ رکھوں، کسی جذباتی ایشو کو ایندھن کے طور پر استعمال کروں، الطاف حسین پر کسی قسم کی تنقید سے گریز کروں۔
فائدہ؟
الطاف حسین کے پیڑ میں لگے آم میری جھولی میں گر جائیں گے، ایم کیو ایم پاکستان کے لیے زمین تنگ ہو جائے گی، الطاف بغض معاویہ میں خاموش رہ جائے گا یا میرا ہمنوا ہو جائے گا، ایسا ہوجائے گا تو یہ بھی ثابت ہوجائے گا کہ میں الطاف کو واپس مہاجر نعرے کی طرف لے آیا ہوں، یوں میرا شاپر ڈبل ہو جائے گا اور میں چھوٹا شکیل بن کر شہر کا ڈان ہوجاوں گا۔
یہ ہو بھی جائے گا۔ ماحول ہر طرح سے آفاق کو ہیرو بنانے کے لیے سازگار ہے۔ جنگل پربت شاعر و انشا سب ان کے ہوگئے ہیں۔ بلاشبہ لوگ نکل آئیں گے، روح کو تڑپا دینے اور قلب کو گرما دینے والے خطاب ہو جائیں گے۔
پھر کیا ہوگا؟
پھر ایک سوال سامنے آئے گا۔
ڈمپر سے آگے کچھ اور بھی جہان ہیں، جو ایم کیو ایم حقیقی سے زیادہ حقیقی ہیں۔ ان کا کیا کرنا ہے؟
جو راستہ آفاق احمد کو مل رہا ہے وہ کچھ ایسا برا بھی نہیں ہے۔ کراچی کے سیاسی ذہن کو انگیج کرنا چاہیے، پھر چاہے آفاق احمد کے ذریعے ہی کیوں نہ ہو۔
لیکن کیا آفاق کے پاس ڈمپر سے آگے بڑھ کر کسی مسئلے پر یہاں وہاں دینے کے لیے منہ ہے؟ میری رائے میں نہیں ہے۔
تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ہر بار کے بندو بست میں آفاق کا جنم ادھورا رہ جاتا ہے۔ یقینی طور پر جس چیز کا جنم ہوتا ہے وہ ایک بے چہرہ قسم کا فساد ہے۔ بے چہرہ اس لیے کہ آفاق احمد کا اپنی آواز کی بلندی پر بھی کبھی اختیار نہیں رہا۔ اختیار سے ان کا جی بہت گھبراتا ہے۔
اب کی بار بھی لگتا یہ ہے کہ ان کا جنم ادھورا رہ جائے گا۔ دوسری کئی وجوہات کے علاؤہ اس کی ایک وجہ اور بھی ہے۔ ایک "ہیلو" کا وزن اب بھی دس لوڈڈ ڈمپروں سے زیادہ ہے۔