Nalaiq Talib e Ilm, Ustad, Kamyab Aadmi
نالائق طالب علم، استاد، کامیاب آدمی
وہ ایک انتہائی نالائق اور کند ذہن طالب علم تھا۔ اس کے دوستوں اور اساتذہ کاخیال تھاکہ وہ ذہنی طور پر معذور ہے۔ ساتھی طالب علم اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ ابتدائی عمر سے ہی وہ بدقسمت بچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کی پیدائش 17 فروری 1945کو امریکہ کے شہر میامی میں ایک کمرے کے تنگ و تاریک مکان میں ہوئی جس کی حالت انتہائی خستہ حال تھی۔
اس کی ماں نے اسے چھ سال کی عمر میں ایک دوسری عورت کے حوالے کردیا جو کہ ایک چھوٹے سے ریسٹورینٹ میں ویٹریس کا کام کرتی تھی۔ اس عورت نے اس کی پرورش کی ذمہ داری سنبھال لی۔ وہ سارا دن گلیوں میں اپنے دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی کرتا جو اس کو میڈ بوائے کے نام سے پکارتے رہتےتھے۔
زندگی کے شروعاتی ایام میں وہ ایک نالائق اور کند ذہن بچہ تھا۔ وہ چیزوں، اور لوگوں کے نام بہت جلد بھول جاتا تھا۔ اس کو کوئی بھی کام کرنے کے لیے بار بار یاد کروانا پرتا مگر اس کے باوجود وہ بہت جلد بھول جاتا تھا۔ جب اس کو سکول داخل کروایا گیا تو اس کی عمر تقریبا 10سال تھی۔ اس نے سکول میں پہلے دن سے ہی اساتذہ اور دوسرے بچوں کی نظر میں اپنا مقام ایک نالائق اور لاپرواہ قسم کے طالب علم کے طور پر بنالیا تھا۔ سکول میں وہ سارا دن ایک ڈیسک پر خاموش بیٹھے گزار دیتا تھا۔ اس میں اعتماد کی انتہائی کمی تھی۔ بولتے ہوئے اس کی زبان لڑکھڑاتی تھی۔ تقریبا سارے اساتذہ کے نزدیک اس کا پڑھائی جاری رکھنا ناممکن تھا۔
چھٹی کلاس میں اس کی کلاس ٹیسٹنگ میں انکشاف ہو ا کہ اس کو تو بہت سادہ قسم کی چیزیں بھی یاد نہیں تھے۔ ریاضی کے بہت ابتدائی قوانین سے وہ یکسر ناشناس تھا۔ سکول انتظامیہ نے اس کو سکول سے نکالنے کا حتمی فیصلہ کرلیا۔ اس سرپرست عورت کو بلایا گیا جو اس کی کفالت کرتی تھی۔ آپ کا بچہ ہمارے سکول میں نہیں پڑھ سکتا۔ ہم اس کا نام سکول سے خارج کررہے ہیں۔ یہ ذہنی طور پر بالکل مفلوج ہے۔ اس کو کوئی بھی سبق یاد نہیں رہتا ہے۔ اور نہ ہی یہ سبق یاد کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس عورت کو اپنے بچے سے انتہائی وابستگی تھی۔ دیکھیں آپ اسے سکول سے مت نکالیں۔ اس کی زندگی تباہ ہوجائے گی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں۔
بحث و تقرار کے بعد بالاآخر پرنسپل اسےچھٹی سے واپس پانچویں کلاس میں کرنے پر رضامند ہوگیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ اسی طرح گزرتا رہا۔ ایک دن اس کے سکول میں ایک نئے ٹیچر کو اپوائنٹ کیا گیا۔ جو اس کی کیس ہسٹری کو یکسر نہیں جانتا تھا۔ نہ ہی اسے معلوم تھا کہ وہ ایک نالائق طالب علم ہے۔ سبق پڑھاتے ہوئے اس نئے استاد نے اسے اپنے پاس بلایا۔ چاک بوڑد پر کوئی ریاضی کا سوال تحریر تھا۔ نوجوان میز پر سے چاک اٹھاؤ اور اس سوال کو حل کرو جو چاک بوڑد پر لکھا ہوا ہے۔ پر میں کیسے حل کرسکتا ہوں اس نے لڑکھڑاتی آواز او ر کانپتے ہوئے وجود کے ساتھ انکار میں سر ہلایا۔ بیشک تم کرسکتے ہو۔ نئے استاد نے اسے یقین دلانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ میں یہ سوال حل نہیں کرسکتا۔ میں تو نالائق ہوں۔ اس نے بے ساختہ بولا۔ سارا کلاس اس پر ہنسنا شروع ہوگئی۔
وہ کلاس میں سب سےآگے کھڑا شرمندگی اور ڈر سے کانپ رہا تھا۔ اس کے چہرے کی رنگت سرخ ہوچکی تھی اور ماتھے پر پسینے کی دھاریں پھوٹ رہی تھی۔ اس کو لگ رہا تھا کہ وہ اس کے بعد اس کلاس میں دوبارہ نہیں آسکے گا۔ استاد جو اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے ڈائس سے قدم اس کی طرف بڑھائے۔ ڈر کی وجہ سے اس کی سانس بند ہونے کے قریب تھی۔ استاد نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں۔ تم آج کے بعد اپنے آپ کو نالائق نہیں کہو گے۔ استاد نے مضبوط لہجے میں اسے کہا۔ کسی کی تمہارے بارے میں کیا رائے ہے۔ وہ رائے تمہاری اصلیت نہیں ہے۔ تمہاری اصلیت وہی ہے جو تم ابنے بارے میں سوچتے ہو۔ اس بچے نے استاد کے الفاظ کو یاد کرلیا اور اس کے بعد وہ اپنی باقی زندگی میں استاد کے ان الفاظ کی بدولت حیران کن تبدیلی لے آیا۔ وہ لڑکا لیس براؤن تھا۔ جو دنیا کہ بہت مہنگا مصنف، ٹیلی وژن اینکر، اور موٹیویشنل سپیکر سمجھا جاتا ہے۔ اس کی کتاب "کامیابی کے بارہ اصول"نے 61 ملین ڈالر کمائے ہیں۔
لیس براؤن کا زندگی کا سفر ایک نالائق اور ذہنی معذور طالب علم کی حیثیت سے شروع ہوا اور پھر ایک استاد کی بدولت وہ ایک کامیاب مصنف اور اینکر کی حیثیت سے مقبول ہوگیا۔ استاد کے چند الفاظ نے اس کی زندگی کا زاویہ بدل کر رکھ دیا۔
اس لیے آج جو لوگ استاد کے مقام پر فائز ہیں۔ بلاشبہ یہ ایک بہت بڑا درجہ ہے۔ جس پر اللہ پاک کی ذات نے آپ کو فائز کیاہے۔ تو غور کریں آپ کی کلاسز میں بہت سے لیس براؤن ہیں جو منتظر ہیں کہ آپ ان کی زندگیوں کو چند الفاظ سے بدل دیں گے۔ یہ میں نے اپنے سکول کی دیوارپر لکھا ہوا پڑھا تھا کہ اگر استاد ایک نالائق بچے میں یقین پیدا کردے کہ وہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ تو اس یقین سے بچےکی تقدیر بدل سکتی ہے۔