Sipahi Maqbool Hussain Ki Panchvi Barsi
سپاہی مقبول حسین کا پانچویں برسی
آج 28 اگست سپاہی مقبول حسین کا پانچواں یوم وفات ہے۔ تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور ہجرت کی تاریخ ہو، یا پھر دفاع پاکستان کی، ہمار ی تاریخ عوام اور پاک فوج کے جوانوں اور افسران کی شجاعت، بہادری اور قربانی کی داستانوں سے بھری پڑی ہے۔
اپنے ملک سے محبت اور وفاداری کی علامت بن جانے والی ایسی بے شمار داستانیں ہیں جو نہ صرف ہمیں یاد رکھنی ہیں بلکہ اپنی اگلی نسلوں میں منتقل بھی کرنی ہیں اور بار بار دہرانی بھی ہیں تاکہ ہم، عوام، لیڈر اور افسران کو اپنے روز کے گورکھ دھندوں سے کبھی تھوڑی فرصت ملے تو شاید کبھی وہ یہ سوچیں کہ اس ملک کے لیے اپنی جان و مال، اولادوں، زندگیوں کی قربانی دینے والوں نے یہ ملک ہمارے حوالے کرتے ہوئے کیا سوچا اور چاہا ہوگا؟
اپنی آنکھوں میں اس ملک کے مستقبل کے بارے میں کیسے خواب سجائے ہونگے کہ یہ ملک کیسا امن اور سکون کا گہوارہ بنے گا جہاں ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل اور تحفظ کی کوئی فکر نہیں ہوگی۔ لیکن ہم نے آج اسے کیا بنا دیا ہے؟ شاید کبھی یہ بھی سوچیں کہ ان عظیم ہستیوں کی قربانیوں سے سبق سیکھنا ہے، احساس کرنا ہے یا پھر اسی ڈگر اسی راستے پر چلتے رہنا ہے؟ ایسا ہی ایک ناقابل فراموش واقعہ سپاہی مقبول حسین کی داستان ہے۔
مقبول حسین، کا تعلق کشمیر کے علاقہ " تراڑ کھل" سے تھا کی پیدائش 1940 میں ہوئی اور 1960میں پاک فوج میں شمولیت کے بعد وہ " سپاہی مقبول حسین " بن گئے۔ اگست 1965 میں وہ چھٹیوں پر اپنے گائوں آئے ہوئے تھے اور انکے گھر والے انکی شادی جلد از جلد کرنے کی تیاریوں میں مصروف تھیں۔ دوسری جانب عملی طور پر کشمیر کے علاقے میں پاک بھارت جنگ کا آغاز اگست کے مہینے میں ہوگیا تھا۔ ایسے میں ان کو اپنی رجمنٹ کی جانب سے پیغام ملتا ہے کہ وطن کو تمہاری ضرورت ہے۔
سپاہی مقبول حسین نے اپنے گھر والوں اور منگیتر کی آنکھوں میں بسے سپنوں پر اپنے فرض کو ترجیح دی اور اپنی شادی کی تیاریوں میں مصروف والدین، بھائی اور منگیتر کی آنکھوں میں انتظار کے دیے روشن کرکے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے سرحد کی جانب روانہ ہو گئے۔
کشمیر کے محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے سپاہی مقبول حسین دشمن کی گولیوں سے زخمی ہو گئے اور پھر زخموں سے چور اس مرد مجاہد کو بھارتی فوج نے قیدی بنا لیا۔ لیکن عیار دشمن نے نہ تو انکو باقاعدہ جنگی قیدی کا درجہ دیا نہ پاکستان کو انکے بارے میں کوئی اطلاع۔
بھارتی افواج کا ایک شدید زخمی کو پکڑ کر اسکے بارے میں معلومات چھپانے اور انکو جنگی قیدی کا درجہ نہ دینے کا ایک ہی مقصد تھا اور وہ یہ کہ " سپاہی مقبول حسین " پر ہر ممکن تشدد اور ظلم کرکے انکی زبان کھلوئی جائے اور ان سے پاک افواج کے بارے میں معلومات حاصل کی جا سکیں جو آنے والے دنوں میں دوران جنگ پاکستان کے خلاف استعمال ہو سکیں۔ لیکن بے پناہ جسمانی اور ذہنی تشدد بھی انکی زبان نہ کھلوا سکا۔
چالیس سال تک اپنی قید میں ہر ظلم اور ہر حربہ آزمانے کے بعد آخر کار 2005 میں بھارتی درندوں نے سپاہی مقبول حسین کے جذے کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور انکو آزاد کر دیا۔ لیکن اپنی مکاری اور بزدلی چھپانے کی خاطر انکو بھارت نے اب بھی جنگی قیدی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک سولین بنا کر مچھیروں کے ایک گروہ کے ساتھ واہگہ بارڈر پر پاکستانی حکام کے حوالے کیا۔
چالیس برس تک قید اور دوران اسیری ہونے والے جسمانی اور ذہنی تشدد نے اس لمبے چوڑے جوان کو ایک نہایت کمزور، لاغر اور ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل کر دیا تھا۔ ساتھ ساتھ ذہن بھی اتنا مائوف ہو چکا تھا کہ یہ اپنی شناخت سمیت اپنے بارے میں سب کچھ بھول چکے تھے۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ یہ بوڑھا شخص کون ہے اور اگر اسکے کوئی عزیز رشتہ دار ہیں تو کہاں ہیں۔
دیکھنے والوں نے دیکھا کہ کچھ بھی بولنے سے قاصر یہ بوڑھا اپنی آنکھوں میں ایک انجانی چمک لیے خاموش بیٹھا رہتا تھا اور اسکی نظریں نہ جانے خلائو ں میں کیا تلاش کرتی رہتی تھیں۔ جب ان سے انکا اتا پتہ معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی تو بھی یہ خاموش ہی بیٹھے رہتے۔ ہاں کبھی کبھی جب بہت زیادہ جذباتی ہوتے تو کاغذ پر ایک نمبر (335139) تحریر کرتے۔ اس نمبر کے علاوہ انکو اپنی کوئی شناخت یاد نہ تھی۔ ان کو مچھیرا سمجھنے والوں کو اس نمبر کا کوئی مطلب سمجھ میں نہ آتا تھا۔ پھر ایک روز اللہ تعالیٰ نے کسی کے دل میں یہ بات ڈالی کہ کہیں یہ نمبر جو اس بوڑھے کی واحد شناخت ہے " آرمی نمبر" تو نہیں ہے اور پاکستان آرمی سے رابطہ کیا گیا تو حوصلے، استقامت اور وطن سے بہادری کی یہ داستان لوگوں کے سامنے آئی۔
23 مارچ 2005 کو سپاہی مقبول حسین کو ستارہ جرأت عطا کیا گیا۔ 28 اگست 2018 کو یہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ یہ صرف ایک غازی ایک سپاہی کی داستان ہے۔ ایسے ہزاروں غازیوں ا ور شہیدوں کا لہو ہمارے پاک وطن کی مٹی میں موجود ہے۔ ان اللہ کے شیروں کا ہی حوصلہ ہے جو کبھی شہید تو کبھی اپنی پوری پوری زندگیاں اپنے وطن پر قربان کر دینے والے غازیوں کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔ یہ ان ہی کی مائوں کا حوصلہ ہے جو اپنی جوان اولاد کو وطن کی مٹی پر قربان ہونے کے لیے خوشی خوشی بھیج دیتی ہیں۔ اسکے بدلے میں ہم؟ ہمارے سیاستدان، افسران ا ور صاحبان اقتدار سپاہی مقبول حسین اور انکے ساتھیوں کے پاک ملک کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟