Wo Kya Waqai Neutral No Gaye Hain?
وہ کیا واقعی نیوٹرل ہوگئےہے؟
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات میں عوام کے ذہنوں میں سب سے زیادہ گردش کرنے والا سوال بن کر رہ گیا ہے جس کی وجوہات پچھلے چند سالوں میں رونما ہونے والے واقعاتی شواہد ہیں جن کو دہرانے کی ضرورت نہیں اور ان کو تاریخ کے واقعات سے بھی تقویت ملتی ہے جن میں جنرل ایوب خاں، جنرل ضیاءالحق اور پرویز مشرف کا اپنے آئینی اختیارات سے تجاوز ہے جن کا انکار کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی پاکستانی شہری نہیں کرسکتا۔
آمریت کی اس تاریخ میں فوج کے کردار کے علاوہ عدالتوں کے ان اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے والے فیصلے بھی تنقید کا نشانہ بنتے رہے اور نظام انصاف سے منسلک طبقے میں ان کرداروں کا نام نظام انصاف پر ایک داغ سمجھا جاتا ہے اور اس میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے والے سیاستدانوں کو بھی طعنوں اور تنقید کا سامنا کرنا پڑتا رہا ہے اور بالآخر یہ سوچ ہر سطح پر پختہ ہوتی گئی اور آج صورتحال یہ ہے کہ ان کی مذمت برملا ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
کچھ جدید دنیا کے حالات نے بھی اس صورتحال کو متاثر کیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی سہولتوں سوشل میڈیا میں معلومات تک رسائی اور حق آزادی اظہار رائے نے اس کام میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس سے فوج کے سیاست میں کردار کا تاثر عام ہوتا ہوا دکھائی دینے لگا اور اس صوتحال پر قابو پانے کے لئے تکنیکی مشکلات کے علاوہ دائرہ اختیارات کا بھی مسئلہ درپیش آیا جس کی بنیاد وہ جدید تصور ہے جس نے دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا ہے اور معلومات پہنچانے والا یا حق اظہار رائے کا استعمال کرنے والا پہنچ اور کنٹرول سے دور تھا۔
ماضی کے برعکس موجودہ دور میں حاضر سربراہان پر سوالات اٹھائے جانے لگے جیسا کہ نواز شریف کی طرف سے جنرل باجوہ کو حساب دینے کی بات نے ایک کہرام مچا دیا تھا۔ عدلیہ اور پارلیمان کے اندر بھی کھل کر ایسے اشارے ملنے لگے جن سے فوج کے انٹیلی جنس اداروں پر سوالات اٹھنے لگے۔ شروع میں اس کو ایک انہونی بات سمجھا گیا مگر پھر سیاستدانوں اور عوام میں بھی حوصلہ بڑھتا گیا اور یوں ایک تنقید کا ماحول وجود پانے لگا۔
سیاسی جلسے جلوسوں تک یہ بیانیہ پہنچ گیا اور تحریک انصاف کی حکومت کو ہائبرڈ اور سلیکٹد کے طعنے ملنے لگے جو دراصل ان کو مہیا کردہ اس مدد کی نشاندہی تھا جن کو بے نقاب خود سیاستدانوں کی ناپختگیاں اور بے بسیوں کا اظہار تھا جو امداد کے باوجود بھی کچھ کارکردگی دکھانے سے قاصر تھے۔
ایسے میں ادارے کو یہ احساس ہوا کہ اس تاثر کو ختم کرنے کی ضرورت ہے تو انہوں نے اپنے ترجمان کے زریعے سے باقاعدہ نیوٹرل ہونے کا اعلان کیا جس کو شروع میں تو کوئی وزن نہیں دیا گیا مگر کے پی کے میں بلدیاتی الیکشنز کے بعد سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی طرف سے گواہیوں کے سامنے آنے سے اس بیان کو تقویت ملنا شروع ہوگئی۔
جس کو مزید توانائی اس وقت ملی جب عدم اعتماد کے زریعے سے حکومت تبدیل ہوگئی جس کی بنیاد معاشی بدحالی کی مجبوریاں بھی ہوسکتی ہیں مگر نیوٹریلیٹی کے تاثر سے تو بہرحال انکار نہیں کیا جاسکتا جو کہ خوش آئند بات ہے۔
اس تبدیلی سے سیاست، صحافت اور ملازمت کے شعبہ سے تعلق رکھنے والوں کے مفادات جب متاثر ہوئے تو وہ بھی کھل کر اپنا موقف پیش کرنے لگے جس سے نیوٹریلٹی کو اپنے مخالف استعمال ہونے کا رنگ دیا جانے لگا جو کہ ایک فطری عمل تھا۔ ماضی میں ریٹآئرڈ جرنلز پر تو لوگ انگلیاں اٹھاتے رہے بلکہ فوج ہی کے افسران کی طرف سے مذمت ہوتی رہی ہے مگر حالیہ ان ریٹائرڈ فوجی افسران کے کردار سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ وہ شائد ماضی کے مداخلت کے سلسلے کو جاری دیکھنا چاہ رہے ہیں جس کی باقائدہ سوشل میڈیا پر کپمین چلائی جارہی ہے اور اس نیوٹریلیٹی کے اقدامات کو ریاست کے خلاف سازش کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تاثر یا کوشش، جانے انجانے میں فوج کی کمانڈ کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ فوج کے اندر ایسے لوگوں کے خلاف تادیبی کاروائی اور مراعات کو ختم یا کم کرنے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔
حکومت کی تبدیلی سے تو اس موضوع پر کھل کر دلائل اور شواہد کے ساتھ بات ہونے لگی اور اس میں پیش پیش تحریک انصاف ہے جس پر حمائت کا الزام تھا جو ایک نادان کی دوستی کے مصداق ہے۔
تحریک انصاف نے جو انداز اور بیانیہ اپنایا ہوا ہے اس سے ابھرنے والے تاثر سے انکی حیثیت پر اٹھنے والے کئی سوالوں کے خاموش جوابات سامنے آگئے ہیں اور ان کی طرف سے نیوٹریلٹی کو غیر انسانی فعل سے تشبیہ دینا اور مداخلت کو تاریخ سے دلائل کے حوالوں سے ثابت کرنے کی کوشش سے اپوزیشن جماعتوں کے دعوے کے تاثر کہ ان کو حمایت حاصل تھی کو سند کی حد تک تقویت مل گئی ہے۔
مزید قریب مستقبل میں اب مداخلت کا کوئی چانس بھی نہیں کیونکہ اب قائم اعتماد کو ٹھیس پہنچانے کا رسک نہیں لیا جاسکتا اور جو مداخلت سے جلدی الیکشنز اور حمائت کی امید لگائے بیٹھے ہیں وہ اپنی سوچ کو بدل لیں اور اپنے آپ کو جمہوری پراسیس کا حصہ بنا لیں اور ملک کو سیاسی عدم استحکام کے طرف لے جانے سے باز آجائیں اسی میں ملک و قوم کی بھلائی ہے۔
اس میں ایک اور بہت ہی مثبت پیش رفت کراچی میں ڈاکٹر عامر لیاقت کی خالی سیٹ پر انتخاب کے انتظامات کے ضمرے میں ڈان خبر میں چھپنے والی خبر سے سامنے آئی ہے جس میں فوج کو نگرانی کا کہنے پر جواب ہے کہ ان کی موجودگی پولنگ اسٹیشنز کے باہر تک رہے گی اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے وہ اپنی خدمات کو سرانجام دیں گے۔ جو کہ بہت ہی خوش آئیند بات ہے۔
اصل معاملہ سوچ کو بدلنے کا ہے، ماضی میں مداخلت اور عدم مداخلت دونوں طرح کی مثالیں ملتی ہے جن کا تعلق اخلاقی قوت، قومی جذبے اور آئین کی پاسداری کے احساس سے ہے۔ ضرورت اس چیز کی ہے کہ سوچوں، رویوں اور اخلاقیات میں مزید پختگی آئے یا پھر نظام کو مضبوط بنایا جائے جس سے اس سوچ کو احتساب کے عمل کے تابع ہونے کے احساس سے تبدیل کیا جاسکے۔ یا ایسی مثالیں قائم ہوں جن سے ایسا خوف یا حوصلہ افزائی کا عنصر سامنے آئے جو ماحول کو تبدیل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔
مجھے امید ہے کہ تاریخ کے اسباق سے بھی سوچ پر فرق پڑا ہوگا اور اب ہمارے قومی ریاستی ستون اپنے آپ کو غیر آئینی اور غیر فطری دوستی سے باز رکھیں گے کیونکہ یہ دوستیاں اور تعلق ہر اس فرد اور ادارے کی رسوائی کا سبب بنے ہیں جو ان کا حصہ رہا ہے۔