Tuesday, 30 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Dr. Abrar Majid/
  4. Pti Ko Zameeni Haqaiq Samajhna Honge

Pti Ko Zameeni Haqaiq Samajhna Honge

پی ٹی آئی کو زمینی حقائق سمجھنا ہونگے

ویسے تو تحریک انصاف کی سیاسی تنزلی کا سفر اسی دن شروع ہوگیا تھا جب انہوں نے پارلیمان کو چھوڑ کی چوک چوراہوں کی سیاست کا انتخاب کیا تھا اور پھر قومی اسمبلی سے استعفوں کے بعد اپنی ہی دو صوبائی حکومتوں کو تحلیل کرکے سیاسی حلقوں میں اپنے اثر رسوخ کو ختم کرلیا۔ اپنی جارحانہ حکمت عملی جس سے اقتدار سے کم کسی بھی سطح پر سمجھوتہ نہ کرنے کا تاثر اور وہ بھی براہ راست اسٹیبلشمنٹ سے مزاکرات اور سیاسی یا جمہوری حلقوں سے ہاتھ ملانے سے اجتناب اور فوج کی سربراہی کے لئے اپنی مرضی ٹھونسنے کی کوشش اور آخر کار 9 مئی کے واقعات کے باوجود غیر ذمہ دارانہ و غیر سنجیدہ انداز سیاست سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے معیشت کو خطرات سے دوچار کرنے کی ایک ایسی لمبی داستان ہے جس سے نہ صرف سیاسی حلقوں میں بلکہ ریاستی اداروں میں بھی ان پر اعتماد زائل ہوچکا ہے جو ان کی پاکستان کے موجودہ حالات سے موافقت میں بہت بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔

اب بھی اس انداز سیاست میں تبدیلی کے اثرات دکھائی نہیں دیتے جس کی مثال ان کی موجودہ حکمت عملیاں ہیں جن میں نہ کوئی نظم و ضبط ہے اور نہ ہی پختگی و سنجیدگی جس سے ان کا بیانیہ اب بھی بے راہ روی کا شکار ہے اور وہ ایک کے بعد ایک ایسی آئینی و قانونی اور سیاسی غلطیاں کرتے جارہے ہیں جن سے ان کے لئے مشکلات کم ہونے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ ہوتی جارہی ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے بارے ابھرنے والے تاثر کو بدلیں جس کے لئے ان کو اپنی فیصلہ سازی کا اختیار کسی سنجیدہ اور پختہ سوچ کی حامل شخصیت کو سونپنا پڑے گا تاکہ ان کی صفون کے اندر نظم وضبط پیدا ہوسکے۔

جیسے لاہور ہائیکورٹ میں رٹ پٹیشن کے زریعے سے الیکشن کمیشن کے آئینی کردار میں بے جا رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی گئی جس سے یہ تاثر ابھرا کہ شائد وہ انتخابات کو التوا کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ ایک تو اس معاملے میں چاہیے تھا کہ پہلے الیکشن کمیشن میں اپنے تحفظات کے بارے درخواست دائر کرتے اور اگر وہاں سے ان کو ریلیف نہ ملتا تو پھر اس کے خلاف پٹیشن دائر کی جاسکتی تھی اور پھر اس کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کی سماعت کے دوران اپنے موقف کو پیش نہ کر سکے۔ چیف جسٹس صاحب نے پوچھا بھی کہ یہاں کوئی پی ٹی آئی کا وکیل ہے تو کوئی بھی وہاں موجود نہیں تھا۔ اور بعد میں میڈیا میں بھی یہ تاثر ابھرا کہ جیسے عمیر نیازی نے انفرادی طور پر یہ پٹیشن دائر کی تھی۔

اسی طرح چند دن قبل چیف جسٹس صاحب کے نام ایک خط لکھا گیا جس میں درخواست دہندہ کے طور پر عمران خان کا نام تھا مگر نہ کوئی کونسل کا نام تھا اور نہ ہی اس پر باقاعدہ طریقہ کار اپنایا گیا تھا جس کے لئے چاہیے تھا کہ جیل سپرٹنڈنٹ کے دستخط ہوتے۔ اس پر بھی سبکی ہوئی۔ تو اس طرح کی غلطیوں کی وجہ سے ان کی حکمت عملی میں مشورے اور نظم وضبط کی کمی اور بیانیے میں جارحیت کے تاثر والی پرانی روش کا رجحان ابھی بھی موجود ہے جس سے سیاسی عدم استحکام کے خطرات کے پھر سے خدشات کا گماں ہونے لگتا ہے۔

اس کو بدلنے کے لئے ان کو چاہیے کہ وہ حامد خان، علی محمد، شبلی فراز وغیر پر مشتمل ایک کمیٹی بنائیں جو مشورے کے بعد حکمت عملی طے کریں اور سوشل میڈیا پر اپنے بیانیے کو بھی اپنی نئی حکمت عملی کی مطابقت میں لائیں جس میں سنجیدگی، پختگی، مستقل مزاجی اور تسلسل دیکھنے کو ملے۔ ایسا نہ ہو کہ اگر کوئی عدلیہ سے فیصلہ ان کے حق میں آئے تو وہ اس پر شادیانے بجانے لگیں اور جیسے ہی کہیں سے ریلیف نہ ملے تو ججز کی ٹرولنگ شروع ہوجائے اور ٹویٹر ٹرینڈز بننے شروع ہوجائیں۔ اداروں پر بے جا الزامات لگانے کی روش بھی بدلنا ہوگی اور خاص کر جھوٹ کی بنیاد پر خود ساختہ سپوکس پرسنز سے بھی اپنے آپ کو لاتعلق کرنا ہوگا جو ان کے فوجی تنصیبات، پی ٹی وی اور پارلیمان پر حملوں کی یادیں تازہ کررہے ہیں اور اگر وہ ان سے تعلق رکھتے ہیں تو پھر ان کو اپنی نئی حکمت عملی کے تابع لانا ہوگا تاکہ ان کے بارے قائم تاثر کو بدلا جاسکے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے سیاسی و معاشی حالات ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم بن چکے ہیں اور جیسے ہی سیاسی استحکام کے آثار پیدا ہوتے ہیں تو معاشی حالت بہتری کر طرف بڑھنے لگتی ہے اور جیسے ہی دوبارہ سے عدم استحکام کے خدشات پیدا ہوتے ہیں تو پھر سے معاشی ابتری شروع ہوجاتی ہے۔ لہذا ایسے حالات میں سیاسی جماعتوں اور خاص کر تحریک انصاف کو اپنے عمل سے یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ وہ اپنا انداز سیاست مکمل طور پر اصولی اور جمہوری رکھیں گے اور جہاں بھی اقتدار میں یا حزب اختلاف میں ملک و قوم کی خدمت کا موقع ملا اس کو احسن طریقے سے سر انجام دینے کی کوشش کریں گے۔ اب اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے سے حاصل شدہ جذباتی مقبولیت کو اصولی سیاست، جمہوری اقدار اور آئینی تقاضوں سے ہم آہنگ بنا کر سیاست کرنی پڑے گی اور اب انتشاری سیاست کی گنجائش کسی بھی صورت نظر نہیں آتی اور نہ ہی اس کی اجازت کی توقع کی جاسکتی ہے۔

ان کی زیادتیوں کے خطرات سے کھیل کر آزادی پانے والی غیر جانبدار اور شفاف عدلیہ بھی ان کو میسر غیر مشروط ماضی کی عدالتی مہربانیوں سے نہ غافل ہے اور نہ ہی ان کی متحمل ہو سکتی ہے۔ اور نہ ہی ان کو ڈسکہ کے ضمنی انتخابات کی طرز والی برابری کی سطح کی لیول پلینگ فیلڈ کی سہولتیں مہیا ہونے کے بندوبست موجود ہیں۔ جس آئین و قانون کے سامنے جمہوریت کو اور ریاست کے سامنے جمہور کو کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اب وہ آئین و قانون اور ریاست حرکت میں آچکے ہیں اور یہ سارا خاموش بندوبست ان ماضی کی حکمت عملیوں کے نتائج کا توڑ ہے جس کا غیر جانبداری اور شفافیت بھی احاطہ نہیں کر سکتی۔

پچھلے چھ مہینوں کے حالات سے ان کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ اب پاکستان کے سیاسی حالات میں جگہ بنانے کے لئے حکمت عملی بدلے بغیر کوئی چارہ نہیں اور اگر ان کا یہ جارحانہ بیانیہ کارگر ثابت ہونا ہوتا تو لوگ ان کو جوق در جوق چھوڑ کر نہ جاتے۔ اب سوشل میڈیا کی سیاست کو زمینی حقائق سے مربوط کرنے کے لئے بیانیوں کو پر امن بنانا ہوگا تاکہ اپنے بارے ابھرنے والے تاثرات کو بدلا جاسکے وگرنہ ریاست اس وقت ان کے ہر طرح کے دباؤ سے آزاد ہوچکی ہے جنہیں وہ اپنا ہتھیار سمجھتے تھے وہ سہولت کاریاں اور منصوبے بے نقاب ہوچکے ہیں۔

اب پابند سلاسل قیادت کے زیر سایہ مقبولیت ان منصوبوں، مفادات میں لتھڑی ہوئی زیر عتاب سہولت کاریوں پر پردے ڈالنے کے لئے کافی نہیں اور نہ ہی ان کی سابقہ کارکردگی اس پائے کی ہے کہ وہ ان سے درگزر کا کوئی جواز پیدا ہو سکے۔ لہذا اب سمجھ جانا چاہیے کہ زمینی حقائق ان کی سیاست کے موافق نہیں رہے۔

Check Also

Jan Bohat Sharminda Hain

By Cyma Malik