Nawaz Sharif Ko Sahulat Kari Mil Rahi Hai? (1)
نواز شریف کو سہولت کاری مل رہی ہے؟ (1)
جمہوریت اور سہولت کاری میں بنیادی فرق یہ ہے کہ جمہوریت میں عوام اور امیدوار اپنی حمائت کا فیصلہ آزاد رائے سے کرتے ہیں جبکہ سہولت کاری میں دباؤ کے تحت حمائت دلوائی جاتی ہے۔ ہماری سیاست میں 2018 کے انتخابات میں یہ اصطلاح متعارف ہوئی تھی اور اب اس کے شواہد ایک کھلی کتاب کی صورت موجود ہیں جن کا اعتراف سہولت کاری مہیا کرنے والے خود بھی کر چکے ہیں۔
جس کے احتجاج میں نواز شریف نے "مجھے کیوں نکالا" کا بیانیہ اپنایا تھا جو بہت مقبول ہوا اور پھر نواز شریف کی مقبولیت سے خائف اس وقت کی مقتدرہ نے ان کو جیل میں ڈال دیا اور انتخابات سے پہلے امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کروانے کا ایک سلسلہ شروع ہوا جسکا انتخابات میں بھی خاصہ بندوبست دیکھنے کو ملا جسے موجودہ سیاسی منظر نامے میں تحریک انصاف کے بانی چئیرمین پر مقدمات اور ان کی قیادت کی طرف سے جماعت کو چھوڑنے کے واقعات کا موازنہ کرکے خدشات پیدا کرکے مسلم لیگ اور نواز شریف کی سہولت کاری سے جوڑا جارہا ہے۔ جس میں بظاہر کافی حد تک مماثلت بھی دکھائی دیتی ہے لیکن اگر اس سیاسی منظرنامے کے کینوس پر 9 مئی کے وقوعے کو رکھ کر دیکھا جائے تو اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔
اس کے لئے ہمیں 9 مئی سے پہلے اور بعد والے حالات کا تقابلی جائزہ لیں گے تو واضح ہو جائے گا کہ تحریک انصاف کے ساتھ موجودہ رویہ انکے 9 مئی کے اقدامات کی وجہ سے ہی نہ کہ کسی سہولت کاری یا انتقام کا نتیجہ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ 9 مئی سے قبل تک عمران خان صاحب کے جو انداز، لہجہ اور الفاظ تھے جن میں"ڈرٹی ہیری"، "میر صادق اور میر جعفر" حتیٰ کہ قتل کے مقدمے میں آئی ایس آئی کے سربراہ کو ایف آئی آر میں ملوث کرنے کی درخواستیں اور فوج کے حاضر سروس جرنیلوں اور سربراہ کو دھمکیوں پر مشتمل بیانات جن کی پاکستان کی ماضی کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی لیکن اس کے باوجود ان کو اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے میں کوئی رکاوٹ دیکھنے میں نہیں آتی۔ بلکہ 9 مئی سے پہلے والے دورانیے کو بھی اگر دو حصوں میں تقسیم کیا جائے تو ایک وہ جو نومبر 2022 تک جنرل عاصم منیر کی تعیناتی سے قبل کا ہے جس میں جنرل باجوہ کی توسیع کے بعد ہمدردیوں کے تناسب میں فرق ضرور آیا ہوگا مگر عمران خاں کے فوج سے تعلقات میں فرق آجانے اور اپریل 2022 میں عدم اعتماد کے نتیجہ میں حکومت چلے جانے کے بعد جرنیلوں کی ٹرولنگ کے باوجود ان کے ساتھ ہمدردیوں کا رویہ غالب رہا۔
لہذا ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے 9 مئی کے واقعات کے بعد ان کی سنئیر قیادت کا چھوڑنا بھی سمجھ میں آنا آسان ہوجاتا ہے کہ وہ 9 مئی کے واقعات کے نتائج کا بوجھ نہ اٹھاتے ہوئے ان کے ساتھی چھوڑ کر جماعت کو گئے ہیں اور انہوں نے مسلم لیگ کی بجائے ایک نئی جماعت میں شمولیت اختیارکی ہے اور کچھ نے اپنی علیحدہ تحریک انصاف کے نام پر جماعت بنالی ہے جس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے ان پر مسلم لیگ کی حمائت کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی تحریک انصاف کو چھوڑنے کے لئے دباؤ کا کوئی بیان سامنے آیا ہے۔ جبکہ 2018 میں واضح طور پر ممبران کی طرف سے دباؤ کا اعتراف بھی سامنے آیا تھا جبکہ موجودہ منظر نامے میں ایک بھی ایسا ثبوت سامنے نہیں آیا۔
اسی طرح نواز شریف کو عدالتوں سے ملنے والے ریلیف کا موازنہ کرکے انتخابات کو متنازع بنانے کا سلسلہ شروع ہے جس کا میں نے پہلے بھی دو کالموں میں ذکر کیا ہے جس کے بے بنیاد ہونے کی کی وجہ یہ ہے کہ جن مقدمات میں ریلیف مل رہا ہے ان میں نیب ماضی کے بندوبست کا وزن اپنے کندھوں پر اٹھانے کے لئے تیار نہیں اور ان مقدمات بارے عدلیہ کے اندر سے شواہد بھی سامنے آچکے ہیں جن کی تردید نہ پہلے آئی ہے اور نہ ہی آج کوئی ان کو جھٹلا رہا ہے۔ جو حفاظتی ضمانت کی بنیاد پر حوالے دئے جارہے ہیں اس کو اگر خاطر میں لایا بھی جائے تو وہ عمران خان کو مہیا کی گئی سہولتوں جن میں مستقبل کے مقدمات جن کا وجود بھی نہیں ہوتا تھا میں ضمانتیں مہیا کی جاتی رہی ہیں جن پر سیاسی تبصرے تو کیا سپریم کورٹ میں ججز کے کمنٹس بھی حیرانگی اور شرمندگی کا اظہارکرنے پر مجبور دکھائی دیتے ہیں۔
ماضی میں سہولت کاری عموماً فوج، نیب، الیکشن کمیشن اور عدلیہ کی طرف سے دیکھنے کو ملی ہے جن میں سے فوج کا ہم پہلے کافی حد تک جائزہ لے چکے ہیں اور موجودہ نیب کی نئی سربراہی میں ایک بھی نیا مقدمہ عمران خان کے خلاف نہیں بنایا گیا اور جہاں تک عدلیہ کی بات ہی تو اس پر عمران خان کو خود بھی کوئی اعتراض نہیں رہا بلکہ ستمبر 2023 تک تو سپریم کورٹ، ہائیکورٹس اور ماتحت عدلیہ میں انکی ہمدردیوں کا تاثر غالب رہا ہے۔ جب تک سپریم کورٹ کی سربراہی جسٹس عمر عطا بندیال کے پاس تھی اس وقت تک تو وہاں سے تکنیکی بندوبست کے زریعے سے بنچز کی تشکیل سے عمران خان کی سہولت کاری اور پی ڈی ایم حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرنے کا تاثر کسی سے بھی چھپا ڈھکا نہیں بلکہ اس زمانے کی مشہور آڈیو لیکس کی گونج آج بھی ریاست کے مختلف ایوانوں میں گونجتی ہوئی سنائی دیتی ہیں۔
جب سے سپریم کورٹ کی سربراہی جسٹس فائز عیسیٰ کے پاس آئی ہے ان پر اب تک کہیں سے بھی انگلی نہیں اٹھی اور نہ ہی انہوں نے ذاتی طور پر عمران خان کا کوئی کیس سنا ہے اور نہ ہی ان پر عمران خان کی طرف سے کوئی اعتراض سامنے آیا ہے۔
اسی طرح الیکشن کمیشن میں بھی جن مقدمات پر عمران خان کی نا اہلی ہوئی یا ان کے خلاف زیر سماعت ہیں ان میں کچھ تو انکے اپنے ہی بانی رکن اکبر ایس بابر کی طرف سے ہیں اور باقی ان کی بحثیت وزیر اعظم توشہ خانہ سے وصول کئے گئے تحائف کے متعلق ہے جس پر ثبوت اور شواہد سرکاری فائلوں کے ان کی اپنی سربراہی کے دور کے ریکارڈ پر مشتمل ہیں جس میں ان کے ساتھ کام کرنے والی سرکاری افسران گواہ ہیں۔
اگر عمومی طور پر بھی عمران خان اور انکی جماعت کے قائدین پر مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو سائفر یا عدت میں نکاح کے سوا کئی سیاسی نوعیت کے ہیں مگر نو مئی کے بعد کے مقدمات کا تعلق تو سیاسی نہیں بلکہ ریاست کے ایک دفاعی ادارے پر حملہ آور ہونے سے ہے جس کے شواہد کیمرے کی آنکھ نے محفوظ کئے ہوئے ہیں اور جن کو جھٹلانے کی کوئی گنجائش نہیں اور اگر ان پر کوئی نقطہ قابل بحث ہے بھی تو وہ یہ ہے کہ ان کی کاروائی فوجی عدالتوں میں ہونی چاہیے یا سول عدالتوں میں جبکہ سول عدالتوں میں سزا کی نوعیت زیادہ سخت ہے۔
جہاں تک خدشات میں مسلم لیگ کے فوج سے تعلق کی طرف اشارے دینے کی کوشش ہے تو چونکہ اپریل 2022 سے لے کر اگست 2023 تک پی ڈی ایم اور اتحادیوں کی حکومت رہی ہے اور وزارت عظمیٰ شہباز شریف کے پاس تھی تو ایک ریاستی ادارے کے طور پر ان کے تعلقات ایک آئینی تقاضہ تھا اور جنرل عاصم منیر کی تعیناتی بھی اسی دوران ہوئی ہے اور اس دوران بحثیت ریاست کے ادارے کے ان کی ذمہ داریوں پر اعتماد سب کے سامنے ہے مگر اس کو کسی طرح بھی سے موجودہ منظرنامے میں بغیر کسی ثبوت کے سہولتکاری سے جوڑنے کی الزام تراشیاں ادارے اور ریاست کے ساتھ نا انصافی ہے۔ جس کی تحقیقات حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ اس تاثر کو ختم کیا جاسکے۔
(جاری ہے)