Nawaz Sharif Ki Himayat Mulki Taraqi o Baqa Ka Taqaza Hai
نواز شریف کی حمائت ملکی ترقی و بقاء کا تقاضہ ہے
جس طرح سے 28 مئی کا دن ہمارے لئے ایک یادگار دن ہے اسی طرح نواز شریف کا لازوال حوصلہ، بہادری اور اور دباؤ کے باوجود ڈٹ جانا بھی اپنی قوم کے نام مصمم جذبوں کا ایک بیش بہا تحفہ بھی ہے جس کی بدولت آج ہم دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہیں۔ قوموں کی زندگی میں ایسے مواقع کبھی کبھی آتے ہیں اور جو قومیں بروقت فیصلہ کرکے اس سے فائدہ اٹھا لیتی ہیں وہ ناقابل تسخیر بن جاتی ہیں اور ہماری اس دھرتی کو ناقابل تسخیر بنانے کا سہرا بھی نواز شریف کے سر ہے۔ اگر اس دن وہ اس جرات، بہادری اور کی جانے والی آفرز کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکہ نہ کرتے اور مصلحتوں میں پڑ جاتے تو شائد پھر کبھی بھی زندگی میں یہ موقع نہ ملتا۔
نواز شریف نے اس ملک کی سلامتی اور ترقی کی ایک تاریخ رقم کی ہے جسے کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتا بلکہ آپ کی یاد دہانی کے لئے صرف اتنا ہی کہوں گا کہ 2013 اور 2108 کے پاکستان کا فرق دیکھ لیں سب سمجھ آ جائے گی کہ اس ملک کی ترقی و بقاء کا محسن کون ہے۔ اتنی زیادہ مخالفت اور رکاوٹوں کے باوجود اس نے پانچ سالوں میں ملک کو کہاں پہنچا دیا تھا۔ صرف دہشت گردی کے خاتمے، توانائی کے بحران اور ترقیاتی پراجیکٹ سی پیک کو ہی اگر یاد کر لیا جائے تو تصور میں ایک خوشحال پاکستان کا خاکہ لہرانے لگتا ہے۔
میں ذاتی طور پر شخصیت پرستی کی سیاست کو ترجیح نہیں دیتا مگر کسی کے احسانوں کو بھول جانا یا ان کو صرف اس لئے نظر انداز کر دینا کہ روائتی سیاست کو ہوا ملے گی بھی تاریخ اور حقائق کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ اور کسی کو اس کے احسانوں کی بدولت اس کا جائز احترام اور مقام نہ دینا بھی مہذب قوموں کا شیوہ نہیں۔ اگر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر پاکستان کی سیاست میں مقام پیدا کیا ہے تو یہ ان کی کارکردگی ہے جس کو اکنالج کرنا ان کا حق ہے اور کسی کو اس کے جائز حق سے محروم کرنا بھی ظلم کے زمرے میں آتا ہے۔
پاکستان کی سیاست اور جموریت میں جو ان کو مقام ہے وہ شائد ہی اس وقت کسی سیاستدان کو حاصل ہو۔ پاکستان کی جمہوریت کو زندہ کرنے کے لئے ان کی اور محترمہ شہید بےنظیر کی کوششوں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس کی ایک زندہ مثال "میثاق جمہوریت"ہے۔ جس کی بدولت آج اس ملک کی تیسری قومی اسمبلی اپنا وقت پورا کرنے جا رہی ہے۔ اس بات کی ہر ذی شعور کو گواہی دینی پڑے گی کہ اگر اس ملک کو نواز شریف کی شکل میں پختہ اور سنجیدہ سیاستدان کی ذات میسر نہ ہوتی تو شائد جموریت اپنی پٹڑی پر نہ چڑھ سکتی۔
پیپلز پارٹی کے 2008 سے لے کر 2013 تک جس حوصلے اور تدبر کے ساتھ نواز شریف نے مک مکا کے طعنے سنتے ہوئے، انتہائی ناساز سیاسی حالات کے باوجود ان کو اپنا وقت پورا کرنے کا موقع دیا میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ اس ملک کے کسی اور سیاستدان کی بس کی بات ہی نہیں۔ نواز شریف کا ایک ہلکا سا اشارہ حکومت کے لئے مشکلات کھڑی کرکے ان کو گھر بھیجنے کا سبب بن سکتا تھا۔ مگر اس سیاسی شعور کے حامل شخص نے تعمیری تنقید بھی کی اور جمہوریت کے سفر کو بھی ڈسٹرب نہیں کیا۔
ان کی عوامی پذیرائی کی ایک مثال ہی کافی ہے کہ جب انہوں نے جوڈیشری کی بحالی کی خاطر عوامی سیلاب کے ہمراہ تحریک کی صورت لاہور سے نکل کر حکومت پر دباؤ ڈالا تو وہ ابھی گوجرنوالہ بھی نہیں پہنچے تھے تو ان کے مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔ عوام کو ان پر اعتماد ہے اور انہوں نے اپنی قوم کے اعتماد کو قائم بھی رکھا ہوا ہے۔ مجھے قوم پر شکوہ صرف ایک موقع پر ہے جب انکو بےجا اور ناانصافی پر مبنی عدالتی فیصلے سے وزارت عظمیٰ سے سبکدوش کیا گیا تو انہوں نے بذریعہ سڑک لاہور جانے کا ارادہ کیا تھا۔
جس کی وجہ شائد عوام کی طاقت کا اظہار تھا یا عوام کی ان کی پالیسیوں پر مہر تصدیق ثبت کرنے کی خواہش تھی۔ اس دن پوری قوم کو سڑکوں پر نکل کر غیر جمہوری طاقتوں کو یہ پیغام دے دینا چاہیے تھا کہ اب مزید نہیں چل سکتا۔ مگر اس دن قوم نے ایک سنہری موقع ضائع کر دیا۔ اگر اس دن قوم ان ناانصافیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آتی تو یقیناً اب تک یہ جمہوریت پر سیاسی شب خون، عدالتی تسلط اور آمریت کے مظالم کا راستہ بند ہو چکا ہوتا۔
آج پھر ملک ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ایک اصولی سیاست اور جمہوریت کا راستہ ہے اور دوسرا شعور کے دھوکے پر فسطائیت کا راستہ ہے جس سے اس ملک کو سیاسی عدم استحکام کے سوا کچھ بھی میسر نہیں ہوا۔ اب قوم کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے اس ملک کو امن، سلامتی اور ترقی و خوشحالی دینے والوں کا ساتھ دینا ہے یا محض نعروں سے وقت ضائع کرنے والے سیاسی بہروپیوں کا ساتھ۔
نواز شریف کی خوبیوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفیں کے لئے بھی بھلا سوچا ہے اور کبھی ملک یا اس کے اداروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور اُن پر پاکستان کے اندر ہو یا باہر دنیا کا اعتماد بھی ہے۔ اور اس وقت ملک کو اس طرح کی قیادت کی ہی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑا تھا جس کا انصاف آج نظر آ رہا ہے اور بے گناہی ثابت ہو رہی ہے اور اُن کو بے گناہیوں کی سزا دینے والے کردار اب بے نقاب ہوتے جا رہے ہیں۔
نواز شریف نے جس طرح اس ملک کو دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنایا اسی طرح وہ اس ملک کو دنیا کی ساتویں معیشت بھی بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کی گواہی ان کا ہر دور دیتا ہے اور دو ہزار تیرہ سے لے کر اٹھارہ تک کا سفر بھی اس کا ایک سلسلہ تھا جس کو آگے بڑھانے کے لئے اب آنے والے انتخابات میں انکو اور ان کی جماعت کو موقع دینا چاہیے۔ اگر کارکردگی کی بنیاد پر ایک تقابلی مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف کے ادوار مجموعی لحاظ سے ترقی و خوشحالی میں دوسروں سے آگے رہے ہیں تو اس حقیقت کے پیش نظر ان کا حق بنتا ہے کہ ان کو خدمت کا موقع دیں تاکہ ہمارے اجتماعی قومی ترقی و خوشحالی کے خواب کو تعبیر مل سکے۔