Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Nawaz Sharif Ka Bayaniya Unki Majboori Hai?

Nawaz Sharif Ka Bayaniya Unki Majboori Hai?

نواز شریف کا بیانیہ انکی مجبوری ہے؟

نواز شریف نے مسلم لیگ نون کی مجلس عاملہ سے خطاب کے دوران چار ججز اور دو جرنیلوں کا نام لے کر ان کے احتساب کی جو بات کی ہے اس سے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک ہلچل مچ گئی ہے بلکہ ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی تھرتھراہٹ جاری ہوگئی ہوگی کیونکہ اس طرح کی بات کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ ہماری سیاست کی کچھ روایات ہیں جن کے خلاف چلنے والوں کا انجام اچھا نہیں ہوتا رہا اور اسی طرح کے جرم کی پاداش میں نواز شریف کو تین دفعہ اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے جس کی بنیاد پر "ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ وجود میں آیا تھا۔

سچ بات تو یہ ہے کہ اگر ہم 2013 اور 2018 کے پاکستان کے فرق کو دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ نواز شریف نے اس ملک کے لئے بہت محنت کی ہے اور جس نے محنت کی ہوتی ہے اس کو اپنی محنت کے ضائع ہونے کا افسوس بھی ہوتا ہے۔ تو ایسے میں کیا ان کو یہ حق بھی نہیں پہنچتا کہ وہ 2018 کے پاکستان کو آج کا پاکستان بنانے والوں کے کارناموں کا ذکر ہی کرلیں۔ آج ملک کو اس نہج پر پہنچانے والوں کے نام زد عام ہیں بلکہ بعض نے تو خوداپنی غلطیوں کا اعتراف بھی کیا ہے۔ عدالت عالیہ اور نیب عدالت کے ججز کی شہادتیں موجود ہیں جو تاریخ کا حصہ ہیں۔

جس طرح سے ان کو وزیر اعظم کی کرسی سے ہٹایا گیا، پارٹی کی صدارت سے سبکدوش کرکے بعد میں سیاست سے بھی باہر کرنے کی پوری کوشش کی گئی، مقدمات بنا کر جیل میں ڈال دیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اور اگر آج وہ اپنی سیاست کا آغاز اپنے اور اس ملک و قوم کے ساتھ ہونے والے ظلم سے شروع نہیں کریں گے تو پھر کہاں سے شروع کریں؟ عوام آج جس مہنگائی، غربت اور بیروزگاری کی مشکلات سے دوچار ہیں وہ اس صورتحال کے ذمہ داران کو جاننا اور قصوروار ٹھہرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر وہ اصل ذمہ داران کو بے نقاب نہیں کرتے تو یہ سارا عوامی غضب کا ملبہ ان کی جماعت پر پڑ جائے گا کیونکہ انہوں نے ڈیڑھ سال حکومت کی ہے اور بظاہر ان مہینوں میں مہنگائی زیادہ ہوئی ہے مگر اس کی وجوہات تو پہلے والوں کی نااہلیاں اور پالیسیاں ہیں۔

اگر آج وہ اپنے "ووٹ کو عزت دو" کے نعرے پر خاموش ہو گئے تو دوسری جماعتوں کے شعبدہ باز، بہروپیے باہمی گٹھ جوڑ سے اقتدار کے مزے لوٹنے کے بعد اب اس نعرے کو بھی چرالیں گے۔ اس بیانیے پر کسی کو گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ نواز شریف چاہیں بھی تو اس کو نظر انداز نہیں کر سکتے یہ ان کی سیاسی مجبوری ہے بلکہ عوام کے دل کی آواز ہے۔ ویسے بھی اگر اتنے لمبے عرصے کی ریاستی وسائل کے استعمال اور اختیارات کے باوجود اگر نواز شریف کو سیاست کے منظر نامے سے ہٹایا نہیں جاسکا تو پھر اس کو بیانیے سمیت برداشت کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔

اس ملک میں کیا کچھ ہوتا رہا اور اس کا نتیجہ کیا نکلا سب کو معلوم ہے۔ کسی کو سزا ہو یانہ ہو یہ الگ بات ہے لیکن تاریخ کو خاموش تو نہیں کرایا جاسکتا۔ یہ بات سچ ہے کہ ہم بحثیت قوم ابھی اس سطح کا شعور اور اخلاق نہیں رکھتے کہ ہم ساری سچ کی باتیں کرنے لگ جائیں یااس کو برداشت کرسکیں اور نہ ہی ہماری سوچ و عمل اس کا ساتھ دینے کے قابل ہیں لیکن جرم کو جرم تو کہنا ہی پڑے گا اور اگر جرم کی نشاندہی نہیں کی جائے گی تو پھر اس کے خاتمے کو بھی ممکن نہیں بنایا جاسکتا۔

دنیا آرٹیفیشل انٹیلی جنس سے مستفید ہونے کے خواب دیکھ رہی ہے اور ہم اپنی روائتی انٹیلی جنس سے چھٹکارہ نہیں کر پا رہے اور افواہوں کی سیاست نے ہمیں جکڑ ا ہوا ہے۔ خود ساختہ سپوکس پرسنزکے بارے بھی وضاحت ہونی چاہیے۔ اگر بیانیے میں کوئی مفاہمتی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ بھی ریاست کے مفاد میں دیکھی جانی چاہیے کیونکہ ان معاملات میں الجھ کر خوشحالی و ترقی کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ نوازشریف ایک ذمہ دار سیاستدان ہیں وہ سیاست کے تاؤ پیچ بھی جانتے ہیں اور خوشحالی و ترقی کے راز بھی۔

ہمیں بحثیت قوم اگر ماضی کو بھلا کر آگے بڑھنا ہے تو ماضی کی قومی بے وقوفیوں کو بھی سدھارنے کا کوئی لائحہ عمل بنانا ہوگا۔ اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان کو نہ دہرانے کی یقین دہانی کا کوئی عملی ثبوت دینا ہوگا تاکہ مستقبل کو ان ناخوش گوار واقعات سے محفوظ بنایا جاسکے۔ نواز شریف کے سابقہ آخری ادوار میں کوئی بھی انتقامی کاراوئیوں والی بات نہیں ملتی اور ویسے بھی عمران خان کے اپنے محسنوں کو بے نقاب کرنے کے بعد بدلہ لینے کی کسی کو کیا ضرورت ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اب پاکستان کے ہر ادارے بشمول پارلیمان، عدلیہ، بیوروکریسی اور فوج سب اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے طور پر ان الزامات کی انکوائریز کروا کر معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا ئیں۔ اگر سب کچھ ٹھیک ہونے کا عویٰ حقیقی ثابت کرنا ہے تو پھر ایسا ماحول تو پیدا کرنا پڑے گا جس میں لوگ ذمہ داران کا احتساب ہوتا ہوا دیکھیں وگرنہ پھر دعووں سے بات تو نہیں چل سکتی؟

اس احتساب کا مقصد کسی سے بدلا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصد ملک سے بدعنوانی کو ختم کرنا، ریاست کے وسائل، اختیارات کو محفوظ اور قومی صلاحیتوں کو ضائع ہونے سے بچانا ہونا چاہیے۔ ادارے ریاست کے دست و بازو ہوتے ہیں لہذا ان کی تکریم بھی ضروری ہے اور ان کے اندر تذبذب کو پیدا ہونے اور اعلیٰ افسران کے مورال کے گرنے سے بچانے کا بھی خیال رکھنا انتہائی ضروری ہےمگر اس کے ساتھ ساتھ اداروں اور ان کے وسائل کو ذاتی مفادات کے لئے استعمال کرنے والی سوچوں سے بھی محفوظ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ریاست اور اداروں کے باہمی ربط کو مضبوط کرکے تمام تر وسائل اختیارات اور صلاحیتوں کو ریاست کی خوشحالی و ترقی کے لئے استعمال ہونے کے قابل بنایا جاسکے۔

سادہ لفظوں میں اگر ادارے نیوٹرل ہوگئے ہیں اور ایوان عدل میں شفافیت اور غیر جانبداری آگئی ہے تو پھر ایسی صورتحال میں کوئی بھی قانون سے بالا تر تو نہیں ہوسکتا۔ یہی انصاف کا آسان سا ٹیسٹ ہے۔

جن لوگوں کا نواز شریف نے نام لیا ہے ان میں سے تقریباً سبھی ریٹائر ہوچکے ہیں اور صرف ایک جج جسٹس اعجاز الحسن ابھی سپریم کورٹ کے دوسرے سنئیر ترین جج ہیں اور اگر نواز شریف ان کا نام لے کر بات کر رہے ہیں تو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ وہ تین دفعہ اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں وہ بخوبی معاملے کی حساسیت کو سمجھتے ہیں کہ جسٹس اعجاز الا حسن اگلے چیف جسٹس بننے والے ہیں اور اگر وہ ان پر خواہ مخواہ کا الزام لگائیں گے تو پھر ان کی بھی پوچھ پکڑ ہوسکتی ہے۔

اس سے لگتا ہے کہ ان کے پاس ضرور کوئی ٹھوس شواہد ہونگے جن کو وہ وقت آنے پر عوام کے سامنے یا کسی دوسرے فورم پر پیش بھی کر سکتے ہیں۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ بات چل پڑی ہے تو پھر ضرور اس کی انکوائری بھی ہونی چاہیے اور الزامات کو کسی منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن خود بھی نواز شریف کے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی کر سکتے ہیں یا سپریم کورٹ اس پر نوٹس لے سکتی ہے۔ آخر میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ شوق سے جبر حضوری کے بعد دستوری جبر کا سامنا کرنے میں مضائقہ ہی کیا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ ہر کسی کو ذمہ داری سے بات کرنی چاہیے اور الزامات کی سیاست اب ختم ہونی چاہیے جس کا حل تحقیقات کے بغیر ممکن نہیں اس لئے جس جس پر بھی الزام ہے اس کی تحقیق ہونی چاہیے اور اگر الزام غلط ثابت ہوتا ہے تو پھر الزام لگانے والے کو سزا ہونی چاہیے اور اگر جرم ثابت ہوجاتا ہے تو پھر اس پر کاروائی کو عمل میں لانے کی ضرورت ہے۔

Check Also

Qomon Ke Shanakhti Nishan

By Ali Raza Ahmed