Lahore Ka Jalsa
لاہور کا جلسہ
نواز شریف کے لاہور کے جلسے میں جوش و خروش بھی تھا ہوش بھی، تدبر بھی، صبر بھی، اور سب سے بڑھ کہ یہ کہ معرفت میں لپٹا سب کے لئے ایک خاموش پیغام بھی تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان کے جلسے سے وہ جو پاور شو کرنا مقصود تھا وہ اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس وقت قومی یا عالمی سطح پر کوئی بھی کسی بھی سیاسی جماعت کا قائد یا کوئی تجزیہ نگار ایسا نہیں جو ان کے جلسے میں لوگوں کی مثالی شرکت سے انکار کر رہا ہو اور عوام کی شرکت نے نواز شریف پر اعتماد کرکے ان سے وابسطہ امیدوں کی تصدیق کر دی ہے۔
اس جلسے کے بعد سیاسی جماعتوں پر عوامی رجحان واضح ہوگیا ہے اور اب ہر سیاسی جماعت ضرور چاہے گی کہ وہ بھی اپنی عوامی پزیرائی دکھانے کے لئے کوئی اس کے مقابلے کا جلسہ کرکے دکھائیں کیونکہ پاکستان کی سیاسی ثقافت میں ایسے جلسوں سے سیاسی ہوا کے رخ تبدیل ہوتے ہوئے دیکھے گئے ہیں جو عوامی رائے کو ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے انتخابات پر بہت گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
نواز شریف نےا پنے بیانیے کو بھی واضح کردیا ہے کہ ان کا بیانیہ ان کی کارکردگی ہے۔ ان کے دور میں روٹی، پٹرول، ڈالر اور بجلی کی قیمت ہی ان کا بیانیہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی بھی سیاسی جماعت کاردردگی میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہ شہباز شریف کی کوئی صفائی پیش نہیں کر رہے مگر مہنگائی کا آغاز ان کو ہٹانے سے ہی شروع ہوچکا تھا۔
انہوں نے اپنے ہٹائے جانے کا سبب بننے والے فیصلے کا بھی اظہار بڑے ہی پر تپاک ور جارحانہ انداز میں کیا اور اس کے پس پردہ کرداروں پر کاری ضرب لگائی اور قوم کی اس پر تصدیق کی گواہی بھی حاصل کی
ان کی تقریر کےلب لباب کو لیاجائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے انتقام کو چھوڑ کر خوشحالی کے انتظام کی بات کی ہے اور واضح طور پر کہا ہے کہ اب ترقی و خوشحالی کے لئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور عوام اور اداروں کو ایک ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے حقیقت پسندانہ تقریر کی ہے کہ اگر تو ترقی کرنی ہے تو پھر قوم اور اداروں کو ساتھ دینا ہوگا وہ کوشش کر سکتے ہیں۔ وہ اپنی زندگی کے اس حصے میں اپنی قوم اور ملک کو خوشحال دیکھنا چاہتے ہیں یہ انکی آخری خواہش ہے مگر اس کا احساس قوم اور اداروں کو بھی کرنا ہوگا۔ ان کو پوری امید ہے مگر اس کو یقینی عوام اور اداروں کو بنانا ہوگا۔
ایک جملہ ہو یا پوری تقریر بات ایک ہی ہے۔ انہوں نے آئین کی حکمرانی کی بات بھی کی اور کہا کہ ملک کو پہلے ایٹمی طاقت بنایا تھا اب آئینی طاقت بنانا ہوگا۔ اسی میں ان کا سول بالادستی اور آئین و قانون کی حکمرانی کا خواب پوشیدہ تھا۔
جو ان کے واپس نہ آنے کی بات کرتے تھے یا ان کو زبردستی لانے کی بات کرتے تھے ان کو بھی معلوم ہوگیا ہوگا کہ سیاستدان کیسے آتے ہیں اور پھر کیسے چھا جاتے ہیں۔
نواز شریف ایک ایسے سیاستدان ہیں جن کے دل کی بات ہمیشہ ایک راز ہی رہتی ہے اور ایسا ہی اس دفعہ بھی ہوا اور ان کی تقریر کے دوران ہر چہرے کے تاثرات حیرانگی اور تجسس کے ایک حیسن امتزاج میں ڈوبے رہے اور ان کی تقریر سے ہر کوئی جو توقعات لگا کر بیٹھا ہوا تھا وہ ان سارے موضوعات کو چھو کر واپس آتے رہے، غالب کی زبان میں سب کچھ کہہ بھی گئے اور تجسس کو بھی قائم رکھا۔
غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ کہ پھر جوش اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیۂ طوفاں کیے ہوئے
ان کی تقریر کا امن کا جو قدرتی منظر نامہ تھا وہ امن کی علامت کبوتروں کا نوازشریف کے ارد گرد جھرمٹ اور نواز شریف کے لہراتے دائیں ہاتھ پر ٹھہراؤ ملک میں امن اور ایک نئے ترقی کے سفر کی نوید ہے جس میں امید سے یقین تک کے سفر کا قدرت کی طرف سے مثبت اشارہ تھا جس میں چھپے راز آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ اور اگر انکو حکومت ملتی ہے جو یقیناً ملے گی تو ان کی تقریر سے جو خواہشیں مجھے انگڑائیاں لیتی ہوئی نظر آئین وہ یہ ہیں کہ وہ دنیا میں اور خاص کر ایشیاء میں امن چاہتے ہیں ہمسائہ ممالک کے ساتھ نرم ویزہ پالیسی اور تجارت کی بحالی چاہتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہندوستان سے لے کر ایران اور سنٹرل ایشیاء تک تجارت کے قافلے چلیں اور اسی طرح چائینہ، یورپ اور دوسرے ایشائی ممالک بھی پاکستان کے اکنامک کوری ڈور سے ہوتے ہوئے آپس میں تجارتی تعلقات کو بحال کریں اور ترقی کا واحد یہی وہ راز ہے جس سے پاکستان اب ترقی کی منزلوں کو طے سکتا ہے۔ ساؤتھ ایشیاء کے ممالک اور خاص کر چائنہ، روس اور دوسرے مشرق وسطیٰ کے ممالک پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں مگر ان کو پاکستان میں سیاسی استحکام اور امن چاہیے جس کی امیدیں اب نواز شریف سے وابسطہ ہیں اور نواز شریف کی امیدیں اپنے عوام اور اپنے اداروں سے وابسطہ ہیں۔
اسی لئے انہوں نے اپنی تقریر کو ایک سوالیہ نشان کے طور پر چھوڑا ہے اور اب قوم اور اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے اختلافات کو بھلا کر آگے بڑھیں اور نواز شریف کا ساتھ دیں تاکہ اس ملک کو ترقی یافتہ دنیا کی قطار میں کھڑا کیا جاسکے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور اداروں کا ان کے ساتھ رویے کا اندازہ اور اس سے مستقبل کے لائحہ عمل کا تعین کرنا چاہتے ہوں اور اس کا کسی حد تک آغاز بھی ہوچکا ہے۔ اے این پی اور بی اے پی کے قائدین کی ان سے ملاقات ہوئی ہے اور وہ ان کے ساتھ مل کر اس ترقی کے سفر کا حصہ بننا چاہتے ہیں۔
جہاں تک سیاسی جماعتوں اور تحریک انصاف میں مفاہمت کی بات ہے تو ان کے اپنی سیاسی حکمت عملیوں کی وجہ سے کہیں بھی نظر آثارنظر نہیں آرہے اور اس کی وجہ ان پر عدم اعتماد ہے۔ ان کو اس اہلیت کو پانے کے لئے اپنے اوپر الزامات اور مقدمات کا سامنا کرنا پڑے گا اور سیاسی جماعتیں بشمول تحریک انصاف سمجھتی ہیں کہ اگر وہ ابھی مفاہمت کرتے ہیں تو یہ ان کی سیاسی شکست ہوگی۔ ویسے تو سیاست میں کچھ بھی ممکن ہے مگر فی الحال کوئی آثار نظر نہیں آرہے۔ اس کے لئے کوئی سیاسی فارمولا انتخابات کے بعد طے ہوسکتا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو اس کے مینڈیٹ کے مطابق عوامی خدمت کا موقع فراہم کیا جاسکے۔