Sunday, 15 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Imran Khan Ke Mojooda Halaat Ka Asal Zimmedar Kon?

Imran Khan Ke Mojooda Halaat Ka Asal Zimmedar Kon?

عمران خان کے موجودہ حالات کا اصل ذمہ دار کون؟

آج کل جسٹس اطہر من اللہ کو عمران خان کو معصوم لکھنے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جو کسی حد تک جائز بھی ہے اور نہیں بھی کیونکہ اگر واقعی انکا عمران خان سے تعلق رہا ہے تو ان کو عمران خان بارے اپنی رائے دینے کا حق ہے لیکن اس کا اظہار بحثیت ایک جج فیصلہ لکھتے ہوئے کرنا مناسب نہیں لگتا۔ اگر ان کے بیان کو ذاتی رائے کے طور پر لیا جائے تو اس میں ضرور وزن لگتا ہے جو وہ ہر ایک کی بات میں آجاتے ہیں اور اپنی سادگی میں یہ پہچان نہیں سکتے کہ ان کے لئے کون مخلص ہے اور کون نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو سب سے زیادہ نقصان ان کے ساتھیوں نے دیا ہے جنہوں نے ان کی سوچوں کو تعریف کے خمار میں ڈبو کر ان کے نیک نامیوں سے بھرے ماضی کو کنگلا کر دیا اور خوشامد کے دھوکے میں ڈال کر اپنے مفادات اور خواہشات کے حصول کی خاطر ان کو غلطیوں کا احساس نہیں ہونے دیا۔

وہ لوگ تو ان کے ساتھ قطعاً بھی مخلص نہیں تھے جنہوں نے ان کو صادق و امین کے لقب سے نوازا اور بعد میں مقدمے کی حد تک محدود کرنے کی وضاحتیں دیتے رہے۔ کچھ ان کے کندھے استعمال کرکے اپنے حسد اور دکھ پیٹتے رہے اور کچھ ان کے نام پر کروڑوں کی ٹکٹیں بیچ کر اپنی جیبیں بھرتے رہے۔ کہتے ہیں کہ کسی کی پہچان کرنی ہوتو اس کے ماضی کو دیکھنا چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کتنا مخلص رہا ہے۔ انہیں یہ سوچنا چاہیے تھا کہ جو انہیں ان عہدوں تک پہنچانے والوں کے لئے مخلص نہیں وہ ان کے لئے کیسے ہوسکتے ہیں۔

مخلص دوست تو وہ ہوتا ہے جو مخلصانہ مشورہ ہی نہ دے بلکہ غلطیوں کی نشاندہی بھی کرے۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے سب سے مخلص دوست مخدوم جاوید ہاشمی، جسٹس وجیہ الدین تھے جنہوں نے خان کو سمجھانے کی کوشش کی اور جب وہ نہ مانا تو اپنی راہیں جدا کرلیں یوں اپنے نظریات کو بھی بچا لیا اور جماعت کو بغیر چوں و چرا چھوڑ کر عمران خان سے دوستی کی بھی لاج رکھ لی اور اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ وہ آج بھی عمران خان کے لئے دل میں نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اس کے برعکس جو اقتدار کے اچھے وقتوں میں فائدے اٹھاتے رہے آج مشکلات میں چھوڑ کر نئی سیاسی جماعتوں کے ساتھ ان کے مد مقابل کھڑے ہیں۔ ویسے اگر عمران خان برا نہ منائیں تو دوست اپنی صحبت سے ہی پہچانے جاتے ہیں اور یہ شکوہ ان کے پرانے دوستوں کو بھی ان سے رہا ہے۔

اہل دانش سے سنا ہے کہ انسان کی کامیابی اور ناکامی میں اس کی بیوی کا بھی اہم کردار ہوتا ہے جو اس کی کامیابی اور ناکامی میں اس کی ساتھی ہوتی ہے۔ مخلص بیوی تو کمزوریوں کو بھی حوصلہ دے کر توانائیوں میں بدل دیتی ہے۔ مگر دوستوں کی طرح شائد یہاں بھی وہ انتخاب میں دھوکہ کھا گئے ہیں یا پھر یہ بھی مکافات عمل ہی ہے۔ بات تو بہت ہی سادہ سی ہے کہ جو اپنوں کے ساتھ بے وفائی کرتے ہوئے کسی کو وفاؤں کا یقین دلا رہے ہوں تو ایسے میں قصور تو دھوکہ کھانے والے کا بھی ہوتا ہے۔ وفادار تو جمائما خان ہے جو اب بھی اس کی اولاد کی کفالت کر رہی ہے اور اس کی ہر طرح سے حمائت بھی۔ خیر یہ ان کی ذاتی زندگی کا معاملہ ہے۔

اپنی سیاسی زندگی کے بائیس سال محنت کے بعد وہ اپنے نظریات کو تو بھولے ہی مگر نصیب کو بھی داؤ لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی، جو انہیں ہیرو بنانے میں ایک منفرد حیثیت رکھتی تھی۔ ان کی مقبولیت کی بنیاد تو کرکٹ تھی جسے وہ خیر باد کہہ چکے تھے مگر نصیب کی دولت نے انہیں پھر سے ایک جگمگاتا ستارہ بنا دیا۔ صدر ضیاءالحق کی ایک سپیشل بیٹی جو ان کی فین تھی، نے صدر ضیاءالحق سے ضد کی وہ اس کی بات ٹالا نہیں کرتے تھے یوں انہوں نے عمران خان کو دوبارہ مجبور کرکے کرکٹ کھیلنے پر آمادہ کرکے ان کے ہیرو بننے کے سفر کا آغاز کروایا جس میں یقیناً کارکردگی سے زیادہ ان کے نصیبوں کا کمال تھا۔

ان کو اس پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ آج بھی ان کے فین ان سے محبت ضرور کرتے ہونگے مگر سیاسی شعور میں ان کا حال بھی سپیشل چلڈرن ہی کی طرح کا ہے جن کے مشوروں نے انکو پارلیمان سے چوک چوراہوں تک اور دو صوبوں کی حکومتیں ختم کرواکے جیل میں پہنچا دیا۔ اس میں کچھ قصور ان کا بھی ہے جو نعرے ریاست مدینہ کے لگاتے رہے اور عمل میں جادو ٹونوں پر بھروسہ کرنا شروع کر دیا اور اپنے محسنوں کو نظر انداز کرکے مفاد پرستوں کے پیچھے لگ گئے۔ ان کے محسن تو وہ تھے جن کی محنت نے انہیں کرکٹ میں بلندیوں کی شہرت تک پہنچایا لیکن وہ اپنی ٹیم کو نظر انداز کرکے خود نمائی کے دھوکے میں پڑ گئے، شوکت خانم ہسپتال شروع کیا تو نواز شریف کا خاندان ان کا مددگار بنا اور آج تک اس کا ذکر تک بھی نہیں کیا۔ وہ چندے کے لئے نکلے تو ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ہدایات دی جاتی تھیں کہ پروٹوکول دیا جائے۔ قوم نے ساتھ دیا تھا اور آج وہی قوم بیڈ گورننس کے ہاتھوں مشکلات کا شکار ہے مگر پھر بھی اس کی محبت پر آنچ نہیں آنے دی۔

عمران خان نے 2014 میں دھرنوں کا پروگرام بنایا تو نواز شریف سمجھانے کے لئے بنی گالہ پہنچ گئے مگر وہ اپنے مخلص دوست کو پہچاننے میں پھر غلطی کھا گئے جو جمہوریت اور سیاست کی راہوں میں ان کا صحیح ہمسفر ثابت ہوسکتا تھا جس نے بے نظیر کے ساتھ میثاق جمہوریت کرکے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو پہلی بار اپنا وقت پورا کرتی ہوئی اسمبلیاں دیں مگر عمران خان نے مفاد پرستوں کے ہاتھوں اپنی بائیس سالہ جمہوری کوششوں کو ہی داؤ پر نہیں لگایا بلکہ جمہوریت کو بھی ناقابل تلافی نقصان میں مبتلا کر دیا۔

عمران خان کو اس بارے سوچنا چاہیے مگر شائد اس میں بھی زیادہ ان کا قصور نہیں کیونکہ بچپن سے ماحول ہی ایسا ملا تھا جس میں وہ ماں باپ اور بہنوں کے لاڈلے تھے اس لئے ساری زندگی وہ ان کے نخرے ہی اٹھاتے رہے جس سے سوچنے کا کم اور ٹیڑھے میڑھے کام کرنے کا زیادہ موقع ملا اور پھر مقتدرہ نے تیاری کے بغیر حکومت دے دی جو اس لاڈلے پن کی نظر ہوگئی اور پاکستان کی سیاسی، جمہوری و معاشرتی اساس تباہ ہونے کا سبب بنی۔

Check Also

Khula Tazad

By Dr. Ijaz Ahmad