Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Ilaj Jari Hai

Ilaj Jari Hai

علاج جاری ہے

2014 سے لے کر 2017 کے نئے تجربات کی کوششوں نے صحت مند وطن کو کئی بیماریوں سے دوچار کردیا اور آج صورتحال سنبھالنی ایک چیلنج بن چکی ہے۔ نہ صرف اس دوران وائرس چھوڑے گئے بلکہ بعد میں ذاتی مفادات کی تکمیل کی خاطر ان کی پراجیکشن کے لئے خاص ماحول بھی مہیا کیا جاتا رہا اور جب اس ناکام تجربے والوں کو احساس ہوا اس وقت تک مرض بہت بڑھ چکی تھی اور بدن کے مدافعتی نظام کو بھی خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔

شروع میں کوشش کی گی کہ ہومیوپیتھک علاج سے مرض کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے مگر جلد ہی اندازہ ہوا کہ اب میٹھی گولیوں سے یہ مرض سنبھالنا مشکل ہوچکا ہے بلکہ مرض کے پھیلنے سے ڈی جنریشن کا عمل شروع ہوچکا ہے اور اگر مزید دیر کی تو مرض لا علاج بھی ہوسکتا ہے تب معالجین نے جراثیم کش دوائی استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ جس سے ظاہر ہے جہاں جراثیموں کو دبایا جا رہا ہے وہاں پر مدافعتی نظام بھی متاثر ہورہا ہے مگر خوش آئیند بات یہ ہے کہ اس سے اب مرض کنٹرول میں آچکا ہے۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ابھی تک مرض کنٹرول میں نہیں لگتا کیونکہ معاشی صورتحال سنبھل نہیں رہی اور وطن عزیز وینٹی لیٹر پر جا رہا ہے۔ دراصل وہ صورتحال کو صحیح طور پر سمجھ نہیں پا رہے۔ جب بدن کو شوگر بھی لاحق ہوچکی ہو، زخموں پر لگائے جانے والی دوائی بھی خالص نہ ہو اور خون رستا رہے، گردے بھی ناکارہ ہو رہے ہوں اور اچانک اس کو دل کا دورہ لاحق ہوجائے تو وینٹی لیٹر پر جانے کا سبب صرف دورے کو تو نہیں قراد دیا جاسکتا کیونکہ دل کے دورے کے پیچھے اصل کارفرما وجوہات تو دیرینہ امراض تھیں جن کا بر وقت علاج نہیں ہوسکا۔

علاج کے شروع میں تو زخموں کو مندمل ہونا بھی ایک چیلنج بنا ہوا تھا ایک طرف سے زخموں کو صاف کرکے دوائی لگائی جاتی تو دوسری طرف سے ان کی نگہداشت کے ذمہ داران پھر سے انہیں کرید کر ان کو خون آلود بنا دیتے تھے۔ جب نومبر 2022 زخموں کو محفوظ نگہداشت میسر آئی تو سپریم کورٹ میں بیٹھے ایک کیما گر نے اپنے تجربے شروع کر دئے اور دوائی میں خطرناک کیمیکل ملانے کی پوری کوشش جاری رکھی۔ یوں ستمبر 2023 میں اس کیمیا گر سے جان چھوٹی تو خالص دوائی میسر آئی اور اب امید شفا دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔

سادہ لوح عوام کو معلوم نہیں مگر اس ملک کے معاشی، معاشرتی، اخلاقی، جمہوری اور سیاسی ماہر معالجین یہ بات بخوبی سمجھتے ہیں کہ اب اس وطن کو لگی ہوئی امراض کا حل جراثیم کش ادویات کے بغیر ممکن نہیں رہا تھا سیاست اور جمہوریت میں شفافیت اور غیر جانبداری تو بہت ضروری ہے مگر سیاست میں انتشار اور جمہوریت کو قانون و آئین کے سامنے لا کھڑا کرنا اور عوام کو ریاست کے مد مقابل کھڑا کرکے اقتدار کے حصول کی شرط پر سیاست کرنے کا جمہوریت کے نام پر عمل قابل جواز نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کی جمہوری اقدار اور اصولی سیاست میں کوئی گنجائش ہوتی ہے۔ ایسی سرگرمیوں سے اگر مرض آٹوامییون بننے لگے تو اس کے لا علاج ہونے کا خطرہ لاحق ہونے لگتا ہے۔

یہی ہوا اور 9 مئی کو مرض نے بدن کے آرگنز پر حملہ کردیا اور مدافعتی نظام کو مکمل طور پر مفلوج کرنے کی کوشش کی گئی جس سے علاج کو تبدیل کرنے اور ساتھ ساتھ فزیوتھریپی بھی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔

اب مرض تو کنٹرول میں ہے مگر مدافعتی نظام کو مکمل طور پر شفایاب بنانے کے لئے ضروری ہے کہ جراثیموں کو اس وقت تک دبا کر رکھا جائے جب تک مدافعتی نظام مکمل طور پر مضبوط نہیں ہوجاتا اس کے لئے کافی عرصہ درکار ہوتا ہے اور امید ہے کہ اگے پانچ سال اگر یہی علاج جاری رہا تو مدافعتی نظام مکمل طور پر صحت مند ہوکر ان جراثیموں پر قابو پانے کے قابل ہو جائے گا۔ عوام مطمئن رہیں مرض دریافت ہوچکا، علاج جاری ہے مگر تھوڑے عرصے کے لئے انتظار فرمانا پڑھے گا۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz