Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Dr. Abrar Majid
  4. Har Siasi Jamaat Ka Haq Hai

Har Siasi Jamaat Ka Haq Hai

ہر سیاسی جماعت کا حق ہے

اس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے اور اصولی سیاست کو فروغ دینے کا یہ تقاضا ہے کہ ہر سیاسی جماعت کو انتخابات میں برابری کی بنیاد پر حصہ لینے کی اجازت ہو مگر یہ برابری Equality کی بنیاد پر نہیں بلکہ Equity کی بنیاد پر ہونی چاہئیے۔ آج اگر ایکویلٹی کی جاتی ہے تو پھر پچھلے دس سالوں کی سہولتوں کے جھکاؤ کے ثمرات کا بدل کیا ہوگا؟ یہ تو ایسے ہی ہوا کہ ایک کو پکڑ کر پہلے مرواتے رہو اور بعد میں جب وہ نڈھال ہو جائے تو پھر دونوں کو چھوڑ کر کہا جائے کہ اب برابری کی بنیاد پر مقابلہ ہوگا۔

ہماری سیاست کا بھی اب کچھ ایسا ہی حال ہے۔ پچھلے دس سالوں سے ایک سیاسی جماعت کو ہر طرح سے نوازا جاتا رہا ہے۔ ان کو سیاست میں لانے کے لئے ہر طرح کی سہولتیں مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مخالفین کو بند کرکے خالی میدان میں اتار کر سیاست کا موقع فراہم کیا جاتا رہا ہے اور پھر اس پروجیکٹ کا مزید اگلے دس سال کا بندوبست بھی مبینہ طور پر یقینی تھا جو ان کی اپنی ہی غلطیوں کی وجہ سے جب ناکام ہوگیا ہے تو اب ان کی طرف سے برابری کی بنیاد پر سیاست میں حصہ ملنے کا مطالبہ شروع ہوگیا ہے۔

اگر اس طرح کی برابری کا مطالبہ ہے تو پھر اس برابری کا آغاز بھی وہاں سے ہونا چاہئیے جہاں سے برابری کو سبوتاژ کرنے کا آغاز ہوا تھا۔ اگر وہی ماحول بنا کر دینا ممکن ہے تو پھر اب سے برابری کے مطالبے پر بھی غور کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے پھر ضروری ہے کہ کوئی ٹروتھ کمیشن بنایا جائے جو حقائق کو قوم پر واضح کرے اور اس میں ذمہ داران اپنی غلطیوں (سازشوں) کو تسلیم کرتے ہوئے پچھلے دس سالہ غیر سنجیدہ سیاست کے دور پر قوم سے معافی مانگیں، ملک و قوم کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کریں، اپنے قومی جرموں کی سزا بھگتیں اور مستقبل میں ایسی غلطیوں کے ارتکاب سے توبہ کرتے ہوئے اصولی سیاست کرنے کا اعادہ کریں تو پھر یہ مطالبہ کہ وہ برابری کی بنیاد پر انتخابات میں حصے لینے کے حقدار ہیں، تسلیم کیا جا سکتا ہے۔

برابری کے حق سے پہلے یہ بھی ضروری ہے کہ آئین و قانون پر عمل درآمد اور جمہوریت پر قائم رہنے کے لئے سیاسی جماعتیں تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھ کر یہ تجدید عہد کریں کہ مستقبل میں ریاستی معاملات کو مفاد پرست سوچوں سے محفوظ رکھا جائے گا اور ایسی اصلاحات متعارف کروائی جائیں جن سے اس طرح کے کھلواڑ کرنے والوں کے لئے کوئی ڈاکٹرائن آف تھریٹ یا عبرت کی مثال قائم کرکے ان سوچوں کو آئین و قانون کی پاسداری کا پابند بنایا جا سکے۔

پھر اس موجودہ سیاسی تھئیٹر میں کچھ ایسے سیاسی اداکار بھی ہیں جو ریاست کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے براجمان کیے گئے اور ان کو بوقت ضرورت استعمال کرکے سیاست کے نام پر سیاسی جماعتوں اور حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی مثالیں موجود ہیں اور اب یہ اداکار کافی گہری جڑیں پکڑ چکے ہیں اور سیاست کو انتہا پسندی کی نذر کرنے میں اہم کردار رکھتے ہیں جو سیاست کے لئے ہی نہیں مذہب کے لئے بھی بہت بڑا خطرہ ہیں لہٰذا ان کی بھی تربیت کی ضرورت ہے۔

پھر اصولی سیاست کے لیے غلط معلومات، جھوٹ، بدعنوانی اور دھوکہ دہی کی سیاست کرنے والوں کی جوابدہی کا بھی کوئی سلسلہ شروع ہو جس کی بنیاد غیر جانبداری اور شفافیت ہو اور سیاست کو ریگولرائز کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کو خود مختار بنا کر اس کی سربراہی غیر جابندار، جمہوریت پسند اور سول بالادستی پر یقین رکھنے والی اچھی شہرت و تجربہ رکھنے والوں کی کسی کمیٹی کے سپرد کی جائے جو باہمی مشورے سے اس کو چلائیں اور سیاسی جماعتوں کو جمہوری و قومی اقدار سے ہم آہنگ اور آئین و قانون کی پاسداری کا پابند بناتے ہوئے ان کی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو بھی یقینی بنائیں تاکہ سیاسی جماعتوں سے جمہوریت کے ثمرات کو عوام تک پہنچنے کا بندوبست کیا جا سکے۔ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ریاست کی باگ ڈور عوام کے حقیقی منتخب عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں ہوگی۔

جب غلط معلومات اور جھوٹ پر مبنی سیاست کی بات ہوتی ہے تو پھر اس میں اہم کردار مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا کا بھی ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لہٰذا اس کے لیے بھی ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کو بیٹھ کر باہمی مشاورت سے کوئی ایسا لائحہ عمل بنانا ہوگا جس سے پیمرا کو خود مختار بنا کر ابلاغیات کے شعبے کو کاروباری مفادات کے چنگل سے نکال کر پیشہ ورانہ قابلیت و اہلیت رکھنے والے ذمہ داران کے کنٹرول میں دیا جائے اور اس میں بھی جوابدہی کے نظام کو سختی سے رائج کرنا ہوگا تا کہ سادہ عوام کو ورغلا کر ذاتی مفادات کی خاطر ریاست کے ساتھ کھلواڑ کرنے کا راستہ بند کیا جا سکے۔

سوشل میڈیا پر بھی سختی ہونی چاہئیے۔ جیسے سڑکوں پر ٹریفک کے نظام کو حادثات سے بچانے کے لئے قوانین و ضوابط کا پابند بنایا جاتا ہے اسی طرح سوشل میڈیا کی ٹریفک کو بھی قوانین و ضوابط کا پابند بنا کر سیاست کو جھوٹ اور غلط معلومات پر مبنی افواہوں سے آزاد کروایا جائے تاکہ عوام کو صحیح معلومات پہنچیں اور عوام کے ذہنوں کی حفاظت ہو سکے اور جو سیاسی جماعت بھی اس طرح کے پروپیگنڈے میں ملوث پائی جائے یا کوئی ان کی غیر مساویانہ ہمدردیوں کے ذریعے سے حمایت جاری رکھے تو ان کے خلاف بھی الیکشن کمیشن میں کارروائی عمل میں لائی جائے تا کہ ریاست اور عوام کو تباہی پر مبنی اس سوشل میڈیائی انقلاب سے محفوظ رکھا جا سکے۔ ایف آئی اے محض پکڑا پکڑائی کے علاوہ ایسے چینلز کے جھوٹ کو ثبوتوں کے ساتھ بے نقاب کرکے عوام کو ان کی چالوں سے دور رہنے کا سامان مہیا کرے اور اگر کوئی باز نہیں آتا تو ایسے چینلز کو بند کر دیا جائے تاکہ دوسروں کے لئے عبرت بنیں۔

آج ہم جس نہج پر پہنچ چکے ہیں یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا بلکہ اس کے پیچھے کارفرما وہ ساری محنتیں ہیں جو پچھلے کئی سالوں سے جاری ہیں جس سے آج ہماری سیاست، معاشرہ اور حتیٰ کہ عبادت بھی انتشار کا شکار ہو چکی ہے۔ اس کی وجوہات کو سمجھ کر ان کی بنیادوں کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تا کہ قوم کو پھر سے بردباری، عفو و درگزر، صبر و تحمل اور بھائی چارے کے ماحول کی طرف لایا جا سکے جو ریاست کے ہر فرد سے لے کر خاندان، معاشرے اور ریاست کی اجتماعی ذمہ داری ہے مگر اس کو موزوں ماحول مہیا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

اس کے علاوہ میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت کے اندر اعلیٰ اخلاقیات اور شعور کا بھی بہت بڑا کردار ہوتا ہے اور جس قوم کے اندر یہ صلاحیتیں جتنی زیادہ ہوتی ہیں وہ اتنی ہی جمہوریت کے ثمرات سے زیادہ مستفید ہوتی ہے۔ اگر عوام کو اپنے حقوق کا دعویٰ ہے تو پھر ریاست بھی عوام سے یہ توقع رکھنے میں حق بجانب ہے کہ وہ سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی کو بھی سننے، دیکھنے یا پڑھنے سے پہلے یہ دیکھ لیا کریں کہ ان کو معلومات دینے والے کی تعلیم، کردار اور ورتھ کیا ہے؟ اس کی معلومات کا ذریعہ کیا ہے یا اس کے تجزیے کس حد تک ملک و قوم کے ساتھ اخلاص کی سوچ پر مبنی ہیں اور اسی طرح ووٹ دینے سے پہلے ان کا یہ بھی فرض بنتا ہے کہ وہ دیکھیں کہ کس جماعت یا امیدوار کی سوچ، عمل اور کارکردگی ملک و قوم کے حق میں بہتر رہی ہے۔

مزید میں سمجھتا ہوں کہ جمہوریت، سیاست اور ریاست سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں سے یہ تقاضا بھی کرنے میں حق بجانب ہے کہ وہ اپنے اندر وہ صلاحیتیں، اتحاد اور یگانگت پیدا کریں جس سے ان کے اندر مفاد پرست سوچوں کو جمہوریت اور سیاست پر شب خون مارنے سے محفوظ رکھنے کی استطاعت پیدا ہو سکے اور وہ کسی بھی غیر جمہوری پیشکش کو کندھا مہیا کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کریں اور ہمیشہ جمہوریت اور اصولی سیاست کے ساتھ کھڑے ہوں۔

دنیا کے کسی بھی شعبے میں ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی بغیر علم اور تجربے کے ذمہ داریاں سنبھال لے مگر ہماری سیاست کے ہاں یہ عام ہے۔ ہماری قانون ساز اسمبلیوں میں سیاست و قانون سے بالکل بے خبر بھی عوامی یا مالی طاقت کے بل بوتے پر پہنچ جاتے ہیں اور پانچ سال بغیر کچھ کیے واپس چلے جاتے ہیں۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ منتخب نمائندوں کا بھی کوئی تربیتی کورس ہونا چاہئیے تا کہ ان کو کم از کم یہ تو معلوم ہو کہ ان کا بنیادی کام کیا ہے؟ ان کی تربیت اگر ان کے انتخاب سے پہلے ہو تو زیادہ بہتر ہے لیکن منتخب ہونے کے بعد تو یقینی طور پر ہونی چاہئیے۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے پورے دورانیے میں ترقیاتی کاموں کے فنڈز کے پیچھے ہی پڑے رہیں ان کو اپنے اصلی کام کا معلوم ہی نہ ہو۔

اس معاملے پر ریاست کو یہ بھی چاہئیے کہ وہ عوام اور سیاست دانوں کی تربیت پر توجہ دے اور میڈیا کے ذریعے ریاستی ادارہ معلومات کو ایسے پروگرام ترتیب دینے چاہئیں جن میں سیاست، معیشت اور آئین و قانون کے موضوعات پر پروگرام ہوں اور ان میں سیاست دانوں کو بھی شرکت کی دعوت دی جائے اور ان کے درمیان ایک مثبت تقابلی مکالمے کا بندوبست ہو تا کہ عوام کو سب کو سننے اور ان کو جانچنے و پرکھنے کا موقع ملے اور وہ سیاست دانوں کے بارے اپنی رائے کو سنوار سکیں۔

ایسا نہ ہو کہ جس طرح سے ہمارے سوشل میڈیا کا طریقہ واردات ہے کہ جب آپ ایک دفعہ اس کو اپنی دلچسپی دکھا دیں تو پھر وہ آپ کو کسی اور طرف جانے ہی نہ دے اور اسی متعلق سچ جھوٹ مہیا کرتا رہے آپ کو سچ جھوٹ کی تمیز کیے بغیر ایک یقین کی حد تک لے جائے یہاں تک کہ اختلاف رائے کی بنیاد پر سیاست ایک انتشاری کیفیت کا شکار ہو جائے جیسا کہ آج کل ہو رہا ہے۔ عوام ایک دوسرے کی جان کے درپے ہیں اور برداشت کا مادہ ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ صرف اور صرف غلط معلومات اور جھوٹ ہے جس کا سد باب ہونا چاہئیے۔

جب عوام کو صحیح معلومات پر مبنی ذرائع ابلاغیات تک رسائی ہو، سیاسی جماعتوں کو بھی صحیح جمہوری و قومی اقدار سے ہم آہنگ کردار اور عوامی و قومی مفادات پر مبنی منشور کے ساتھ سیاسی میدان میں اترنے کا ماحول میسر ہو اور عوام سے بھی یہ توقع کی جا سکتی ہو کہ وہ اعلیٰ اخلاقیات اور سیاسی شعور کے ساتھ ملک سے ملکیت اور اس کی اہمیت کے احساس کے ساتھ اپنی رائے کے حق یعنی ووٹ کا استعمال کریں گے تو پھر اس کو برابری کی بنیادوں پر سیاست کا ماحول کہا جا سکتا ہے جس سے بہتری کی توقعات وابستہ کی جا سکتی ہیں۔

Check Also

Ghair Islami Mulk Ki Shehriat Ka Sharai Hukum

By Noor Hussain Afzal