Chief Justice Akhri Gaind Khelne Ko Hain
چیف جسٹس آخری گیند کھیلنے کو ہیں
ہمارے بچپن میں موجودہ جدید ٹیکنالوجی والے کھیل نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ کبڈی، گلی ڈنڈا، چھپن چھپائی اور پیٹھو گرم جیسے کھیل ہوا کرتے تھے۔ ان کھیلوں میں پیٹھوگرم بہت ہی دلچسپ ہوا کرتا تھا۔ دیہاتی علاقوں کے رہنے والے تو جانتے ہونگے کہ اس کھیل میں چھوٹےچھوٹے چوڑے ٹھیکرے کے ٹکڑے اوپر نیچے جوڑ ے جاتے تھے اور تھوڑے سے فاصلے سے ایک کھلاڑی نے گیند سے ضرب لگا کر گرانے ہوتے تھے اور جب یہ گرکر بکھر جاتے تھے تو بال کے واپس آنے تک ان کو دوبارہ سے جوڑنا ہوتا تھا۔ اور جب تک یہ دوبارہ سے اپنی پہلی ترتیب میں جڑ نہیں جاتے تھے اس کھیل کے باقی کھلاڑی بار بار اس کے بدن کو گیند کی زور دار ضربوں سے ہٹ کرتے رہتے تھے۔
اب اس نے بال کی ضربوں سے اپنے آپ کو بچاتے ہوئے ان ٹھیکروں کو اوپر نیچے جوڑ کر پورا کرنا ہوتا تھا اور جب وہ اپنی پہلے ترتیب میں جوڑنے میں کامیاب ہوجاتے تھے تو پھر گیند سے مارنے کا سلسلہ رک جاتا تھا۔ اس کھیل میں نہ صرف جسمانی مشق ہوتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ، ذہانت اور چستی بھی درکار ہوتی تھی۔ اس میں سست کھلاڑیوں کی بالوں سے پیٹھ لال ہوجایا کرتی تھی۔ اسے لئے شاید اس کو پیٹھو گرم کہا کرتے تھے۔
ہمارے نظام انصاف کے ارباب اختیار لوگوں نے عدل کو بھی انصاف کا پٹھو گرم بنائے رکھا ہے۔ سیاست کے کھیل میں انصاف کا پٹھو گرم کھیلتے رہے ہیں اور بعض ججز بڑے ہی شوق سے اس کھیل کا حصہ رہے ہیں۔ چیف جسٹس اپنے اختیاراتی بندوبست کی ڈھال کے عقب سے اب تک بالوں کی ضربیں لگا کر انصاف کے ٹھیکروں کو بکھیرتے رہے ہیں مگر کہیں سے بھی ان کی طرف پھینکی گئی گیند کی کوئی خاص ضرب ان پر اثر نہیں کر سکی۔ لیکن اب لگتا یوں ہے کہ چیف جسٹس انتظامی اختیارات کی ڈھال سے محروم ہونےسے پہلے اپنی آخری بال کھیل کراس کھیل کا اختتام کرنے کو ہیں۔ انکے آخری ہفتے میں فیصلوں سے یوں تاثر مل رہا ہے کہ گویا وہ آخر ی گیند کھیل کر بھاگنے کو ہیں تاکہ واپسی گیندوں کی ضربوں سے محفوظ رہ سکیں مگران کے ساتھی ججز جوا ان کے ان اختیاراتی گیندوں کو کھیلنے میں ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں انکو اب انصاف کے اس پیٹھو گرم کھیل کے ٹھیکرے اکیلے ہی ترتیب دینے پڑیں گے۔
جب تک یہ اپنی اصلی حالت میں جڑ نہیں جاتے اس وقت تک ان کو ریاست، عوام اور نظام انصاف کی طرف سےپھینکی جانے والی گیندوں کی ضربوں کی بوچھاڑ کو برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ اب ان کو چیف جسٹس کے اختیارات کے بندوبست کی ڈھال کا سہارا تو میسر نہیں ہوگا کہ جس کی عقب میں بیٹھ کر بکھرے ہوئے ٹھیکروں کا تماشہ دیکھتے رہیں۔ اب انکو یا تو یہ سارے بکھرے ہوئے ٹھیکرے گیندوں کی ضربوں کی بوچھاڑ میں سمیٹ کر ترتیب دینے پڑیں گے یا پھر آسان حل یہی ہے کہ وہ بھی ان ٹھیکروں کو بکھرا چھوڑ کر چیف جسٹس کی امامت میں کھیل کو ادھر ہی چھوڑ کر بھاگ نکلیں وگرنہ اختیاراتی بندوبست کی ڈھال کے بغیر گیندوں کی ضربیں برداشت کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔
پچھلے کئی ماہ سے تکنیکی بندوبست کے زریعے سے بنائے گئے خاص بنچوں کے کئی فیصلے ابھی آنا باقی ہیں جن کے بارے کہا جارہا ہے کہ چیف جسٹس اپنے آخری ہفتے میں سنائیں گے جن کے اندر کئی سرپرائز ہونے کی پیش گوئیاں بھی کی جارہی ہیں۔ اب نہ جانے یہ سرپرائیز کن کے لئے ہونگے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن ایک بات واضح ہے کہ آمریت کی قربت اور وفاداری کے تحت انصاف بانٹنے کی ایک بہار دیکھنے والے ججز کے لئے احتساب کی کالی گھٹاؤں کےدور کے تجربات کٹھن ہوا کرتے ہیں۔ اور جب اختیارات چھن جاتے ہیں تو ان کے اپنے خیالات کا اظہار ہی ان کا محاصرہ کرنے لگتا ہے اور پھر وہ لوگوں سے چھپنے لگتے ہیں۔ اپنے ان سیاہ کارناموں کے پیچھے کارفرما حربوں کے ری ایکشن کی تاب کو برداشت نہ کرنے کی عدم سکت کی وجہ سے انکشافات کو بھی اپنی موت کے بعد تک چپھنے والی کتابوں کی صورت موخر کر دیتے ہیں۔
طوفانوں کی طرح ماتحت عدالتوں، ہسپتالوں اور عوامی اجتماعات میں جم غفیر کی صورت پروٹوکول کے ساتھ وارد ہونے والے پھر نجی تقریبات سے بھی بھاگنے لگتے ہیں۔ چند ماہ قبل ایک چیف جسٹس صاحب کا صحافیوں سے سامنا ہوا تو ان سے ایک سنئیر صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے اپنے دور سربراہی میں جن وزراء اور وزیر اعظموں کو گھر بھیجا ہے اس پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی تو ان کے حواس خطا ہوگئے اور ان سےاس کا کوئی جواب نہ بن پایا لیکن ان کو اپنی اس غلطی کا احساس ہوا یا نہیں مگر انہوں نے اس کے بعد پریس کانفرنس کرنےجیسی کوئی غلطی نہیں کی۔
کون نہیں جانتا کہ کس طرح سےاختیاراتی بندوبست کو عدالتی رائے پر فوقیت کے تحت عدالتی کاروائیوں کو چلانے کی کوشش کی جاتی رہی اور آئین کی تشریحات سے لے کر قانون کی نگرانی تک جو انہونی مثالیں قائم کی گئیں وہ عدالتی تاریخ پر ایک بہت بڑا قرض رہے گا جس کو اتارنے کا بوجھ اب اگلے چیف جسٹس پر آن پڑا ہے جس کی ریکوری کا عمل بھی شروع ہوسکتا ہے۔
آمریت کی وفاداری کی موروثی سوچ کے نظام انصاف پر غلبے نے ریاست کو وہ نقصان پہنچایا ہے جس نے نظام عدل سے عوام کا اعتماد اٹھا کر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور لاقانونیت کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ جمہوریت کی بنیادوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اور ان کی بنیاد وہ فیصلے ہیں جنہوں نے سیاستدانوں اورعدل کو ٹھیکرے بنائے رکھا ہے، جن کو ریورس کرنا انتہائی ضروری ہے جن کو عدلیہ کی تاریخ میں ہم خیال بنچز کے فیصلوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جو نظریہ ضرورت کی ایک نئی انصافی جہت ہے۔
اب سپریم کورٹ کے اندر پچھلے چند سالوں کے انصاف کا تقابلی جائزہ لیں تو انتظامی اختیارات کا بندوبست عدالتی رائے پر حاوی رہا اور اس نے آزاد عدالتی رائے کو اپنے زیرعتاب رکھا لیکن اب ماحول بدلنے سےحقیقی انصاف ابھرنے کو انگڑائیاں لے رہا ہے جس کا یقیناً آغاز بنچوں کی آزادانہ نئے قوانیں کے تحت تشکیل سے ہوگاجس کا اظہار نامزد چیف جسٹس فائز عیسیٰ عدالتی کاروائیوں کے دوران کر چکے ہیں اور وہ اپنی سربراہی میں عدالت کے نئے دور کا آغاز یقیناً کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرل ایکٹ کے فیصلے یا اگر موجودہ چیف فیصلہ کردیتے ہیں تو اس کے خلاف اپیل کے فیصلے سے کریں گے تاکہ انصاف کی بنیاد کو درست کیا جاسکے اور جو فیصلے اس دوران بننے والے بنچز نے کئے ہیں انکی اہلیت کو بھی واضح کریں گے تاکہ تذبذب کو ختم کیا جاسکے۔
اس دوران کچھ ایسے انکشافات بھی ہوئے اور کئی آڈیوز بھی لیک ہوئیں جن کی مبینہ طور پر بتایا جارہا ہے کہ فرانزک بھی ہوچکی ہے جن کی انتظامی اختیارات کی ڈھال کے پیچھے چھپ کر کاروئی کو روک دیاگیا تھا جو اب دوبارہ سے شروع ہوگی اور اسی طرح ججز کی تعیناتیوں میں جو سنیارٹیز کے اصولوں کی خلاف ورزیاں ہوئیں جس میں اتحادی حکومت بھی برابر کی شریک ہے کو بھی امید کی جارہی ہے کہ ریورس کیا جائے گا اور نظام انصاف کو قابل اعتماد بنانے میں نئے چیف جسٹس صاحب کو اپنا کردار ادا کریں گے۔
جو اختیارات کی ڈھال کے عقب سے انصاف کے ٹھیکرے اڑاتے رہے ہیں اور ان کے خلاف ریفرنسززیر التوا پڑے ہیں ان کا بھی فیصلہ دوسروں کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے سے قبل ہوا جانا ضروری ہے تاکہ انصاف کے بنیادی اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بلا شک و شبہ، شفاف اور غیرجانبدارانہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔