Akhri Moqa
آخری موقع
قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ سے استعفوں کی تصدیق کے لئے نوٹسز جاری کردئے گئے ہیں جس کا عمل چار سے دس جون تک چلے گا اور اس کے بعد جو تصدیق کردیں گے ان کے استعفےٰ قبول کرکے معلومات الیکشن کمیشن کو بھیج دی جائیں گی۔
اب تحریک انصاف کو سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ وہ اسمبلی کے اندر سیاست کرنا چاہتے ہیں یا چوک چوراہوں میں۔ سیاست کا صحیح مقام جہاں عوام کی خدمت کی ذمہ داریاں ادا کی جاسکتی ہیں وہ اسمبلی ہے جہاں عوام اپنے نمائندوں کا انتخاب کرکے بھیجتی ہے اور وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں ملک و قوم کی فلاح کے لئے کام کرتے ہیں یہی عوامی خدمت ہوتی ہے۔
دوہزار چودہ میں بھی میں نے مشورہ دیا تھا کہ آپ کو اسمبلی کا فورم نہیں چھوڑنا چاہیے۔ اس وقت کے کالم "کپتان کے نام" سے پیرے ملاحظہ فرمائیے جو درج ذیل ہیں :
"بے شک اصل سر چشمہ طاقت عوام ہی ہوتے ہیں اور عوامی رائے کافی ہموار ہو چکی اور اب جلسے جلوس چھوڑ کر پارلیمنٹ کا رخ کیا جائے، عوامی نمائندوں کو پارلیمنٹ کے اندر بھیجا جائے، جو حقیقی تبدیلی لانے کی جگہ ہے۔ اگر عوامی پریشر کو آپ ڈویلپ رکھنا ہی چاہتے ہیں تو علامتی طور پر ڈی چوک میں آپ اسے دھرنے کے طور پر رکھ سکتے ہیں اور مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور پھر آپ کا یہ مطالبہ کہ جب تک جائز اور جمھوری مطالبات پورے نہیں ہوتے میں یہاں سے نہیں جاؤں گا اصولی اور اہمیت کا حامل ہوگا۔ اور اس طرح آپ عوامی پریشر بھی رکھ سکتے ہیں اور اپنی روزانہ کی بنیا د پر کارکردگی رپورٹ بھی ان کے سامنے رکھ سکتے ہیں۔
اسی طرح بعض حلقوں میں جلوسوں سے جو ترقی کی راہ میں رکارٹ کے خدشات ہیں نہ صرف وہ دور ہوں گے بلکہ وہ لوگ جو ہر تبدیلی آئینی حدود کے اندر رہ کر لانے کے اصولی خیال پر کاربند ہیں او ر تبدیلی آتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، بہرحال وہ بھی اس ریاست کے شہری ہیں ان کی خواہش کا بھی احترام ہوگا اور عوامی مینڈٹ کا بھی۔ اس طرح میں سمجھتا ہوں کہ آپ وہ تمام مقاصد جو عوامی فلاح اور اصولی تبدیلی کے ہیں پورے کر سکتے ہیں۔ اور عوام کی امیدوں پر پورا اترنے کا بھی آپکو موقعہ مل سکتا ہے۔ "
"سیاست تو ایسی خدمت کا نام ہے جس میں عوامی خواہشات اور امنگوں کے مطابق حتی الوسع کوشش کرکے ریاست کے اندر بہتری لائی جائے۔ اور یہ کوششیں تفویض کردہ حکومتی ذمہ داریوں کے ساتھ یا اپوزیشن میں رہ کر عوامی امنگوں اور خواہشات کی تکمیل کو یقینی بننے کی کوششوں کے ساتھ عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ "
"سیاسی پارٹیاں خواہ حکومت کے اندر ہوں یا عوام کے اندر ان کا کام عوامی خدمت ہوتا ہے اور وہ عوامی امیدوں اور امنگوں کے مطابق سر انجام دیتی رہتی ہیں اگر اپو زیشن میں ہوں تو بھی ان کی مثبت سرگرمیاں قابل تحسیں ہوتی ہیں۔ وہ حکومت کی اچھی پالیسیوں کی حمائت کرتی ہیں اور اگر پالیسیاں غیر پسندانہ ہوں تو آئینی حدود کے اندر رہ کر ان کی تصیح میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔
اسی طرح وہ جماعتیں جو پارلمنٹ میں نمائیندگی نہیں حاصل کر پاتیں وہ بھی خدمت کا کام اپنی بساط کے مطابق جاری رکھتی ہیں۔ صحیح عوامی اور قومی سیاسی جماعتوں کی اصلی مقصود منزل عوامی خدمت ہی ہوتا ہے نہ کہ اقتدار کا حصول اگر عوام ان کو ذمہ داری سونپ دیں تو قانونی اور آئینی حدود میں رہ کر خدمات کی ترسیل میں لگی رہتی ہیں۔ "
آج ایک بار پھر تحریک انصاف کی سیاست اسی موڑ پر کھڑی ہے۔ آپ درج بالا پیرے پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ آج کے حالات کے ساتھ کتنی مماثلت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے عوامی زور کی رفتار اور مقدار کا اندازہ لگا لیا ہے اب ان کو اسمبلی میں اپنی نمائندگی کی طرف توجہ دینی چاہیے۔
خیبر پختونخواہ میں ان کے پاس حکومت ہے تو اس نے ان کے لئے کتنے فائدے کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح اگر قومی اسمبلی میں بھی موجود ہوں گے تو ان کی عوامی بھلائی کی بات کوئی سنے یا نہ سنے عوام تو سن رہی ہوگی۔ بجائے اس کے کہ وہ صوبے میں بیٹھ کر وفاق کے ساتھ آمنے سامنے والا تاثر پیش کریں انکو قومی اسمبلی میں بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ابھی جو اپوزیشن ہے اس کو لوگ ڈمی کہہ رہے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ اسے مفاہمتی اپوزیشن تو کہا جاسکتا ہے مگر ڈمی نہیں۔ وہ بھی عوامی مینڈٹ رکھتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ آپ حکومت کے لئے ہر حال میں مشکلات پیدا کریں تو ہی صحیح اپوزیشن کا کردار ہوتا ہے۔ اچھی پالیسیوں پر ساتھ دینا بھی ملک و قوم کی خدمت ہی ہے۔
رہی بات نئے الیکشن کی تو تحریک انصاف کو حقیقت پسندانہ سوچ کے ساتھ موجودہ حالات کا جائزہ اعداد و شمار کے اندازے پر لگانا ہوگا کہ وہ کہاں کھڑے ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان کے بلدیاتی الیکشن کے نتائج ان کے سامنے ہیں حالانکہ وہاں صوبائی حکومت بھی انکی ہے اور نتائج کے اعداد و شمار کے مطابق وہ نوویں نمبر پر ہیں۔
حالیہ مارچ میں پکڑدھکڑ اپنی جگہ مگر خیبر پختونخواہ میں تو تحریک انصاف کی اپنی حکومت تھی، کسی بھی قسم کی کوئی رکاوٹ درپیش نہیں تھی، اس کے باوجود وہاں سے وہ بیس ہزار لوگ نہیں نکال سکے۔ اسی طرح کشمیر، بلوچستان اور گلگت بلتستان کی بھی صورتحال ہے۔
ابھی اگر پنجاب کے ضمنی الیکشن کا ماحول بنتا ہے تو یہ ایک بہت بڑا ٹیسٹ ہے اس سے واضح ہوجائے کہ پنجاب میں آپکی کیا پوزیشن ہے۔ اس ضمنی الیکشن تک قومی اسمبلی میں مثبت اپوزیشن کرکے اپنے بارے منفی تاثر کو درست کرنا چاہیے اور ساتھ ساتھ عوامی رابطہ مہم جس طرح باقی سیاسی جماعتوں نے جاری رکھی ہوئی ہے چلاتے رہیں۔
جہاں تک عدالت عالیہ سے اپنے حقوق کی پاسداری کے لئے ضمانت والی حکمت عملی کا تعلق ہے وہ اچھا تاثر نہیں دے رہی۔ اس سے نہ صرف انکی بے بسی کا عنصر سامنے آرہا ہے بلکہ عدالت عالیہ کی حکم عدولی کے واقعات ان کے پلڑے میں بھی ہیں جن کا تحفظ کرنا مشکل ہوجائے گا۔
ویسے بھی قومی اسمبلی میں ایک بھاری تعداد ہونے کے باوجود اپنے آئینی حقوق کی خلاف ورزی پر عدالت کی طرف رجوع کرنا اتنا پر اثر نہیں جتنا قومی اسمبلی میں تحریک استحقاق کے زریعے سے حکومتی اقدامات کو بے نقاب کرنا ہے۔ حکومت کا انتظامی امور میں کوتاہی یا نااہلی پر اسمبلی میں ہی مواخذے کا طریقہ موجود ہے جس کو اپنانا چاہیے۔ ہر معاملے میں عدالت پہنچ جانا پارلیمنٹ کی آئینی حیثیت کی رسوائی ہے۔ پارلمنٹ قانون ساز ادارہ ہے جس کو اپنی عظمت کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔
اگر پرامن احتجاج کے لئے ساری رکاوٹیں بھی ختم ہوجاتی ہیں اور وہ ایک جم غفیر اکٹھا بھی کر لیتے ہیں تو بھی اس میں آئینی اور قانونی اعتبار سے اسمبلیوں کے ختم ہونے کا کوئی حل نہیں ہے نہ ہی یہ جمہوریت کی خدمت ہوگا۔ وہ اسمبلیاں جن کے جائز ہونے کی فقط ان کی پارٹی حامی تھی اور اب صوبائی اسمبلیوں سے تو استعفے اس لئے نہیں دے رہی کہ وہاں ان کی حکومت ہے مگر چونکہ مرکز میں انکی حکومت ختم ہوگئی ہے تو دوبارہ الیکشن کا مطالبہ کررہی ہے جبکہ یہی مطالبہ پچھلے پونے چار سال سے ہوتا آرہا تھا جسے وہ نظر انداز کررہے تھے۔
ابھی دوبارہ مارچ کی کال سے پہلے تو ویسے بھی عوام اور جماعت کے ورکروں کے تحفظات، شکوے اور مایوسیاں جو سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں، جوابات کا حق رکھتے ہیں۔ پہلے دوبارہ سے تنظیم سازی کیجئے، حوصلے بڑھائیے، مسائل اور ضروریات کو پورا کرنے پر توجہ دیں۔ دوبارہ سے عوامی زور کی رفتار اور مقدار کو بحال کرنے کی ضرورت ہے نہیں تو پہلے سے بھی کم مقدار دیکھنے کو ملے گی۔
اپنی غلطیوں کی وجہ سے اب وہ خیبر پختونخواہ میں محصور ہوکر رہ گئے ہیں۔ تمام کی تمام مرکزی قیادت وہاں بیٹھی ہے۔ بارہ کروڑ کی آبادی کا صوبہ پنجاب خالی پڑا ہے اور کوئی بھی انکے بیانیے کو لے کر چلنے والا نہیں۔ آنے والے دنوں میں ان کے لئے اور زیادہ مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔ جیسے کہ پہلے ہی یہ تاثر عام ہے کہ وہ گرفتاریوں کے خوف سے وزیر داخلہ ہاؤس میں پناہ لئے بیٹھے ہیں۔ جو ان کی اس حکومت کو بھی متنازع اور مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
پریس کانفرنسز کا پول بھی کھل کر سامنے آگیا ہے کہ وہ صرف اے آر وائی کے تجویزاتی سوالوں کا جواب دینے کی سکت رکھتے ہیں اور اگر طبیعت کے خلاف کوئی سوال کر لیا جائے تو پریس کانفرنس چھوڑ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں اچھا تاثر نہیں مل رہا۔ ہر سطح پر میڈیا کا سامنا کرکے تاثر کو بدلنا ہوگا۔
اب بھی بہتری اسی میں ہے کہ الیکشن مالیخولیا سے اپنے آپ کو باہر نکالیں اور حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے دلیرانہ سیاست کریں۔ گرفتاریوں کا سامنا کریں۔ جیلیں کاٹیں تب جاکر اس ملک کی روایات کے مطابق سیاست کرنا آتی ہے۔ حوصلے کی تربیت ملتی ہے۔ اپنے بیگانے کی تمیز آتی ہے۔ اپنے محسنوں کی قدر کا احساس جاگتا ہے۔ اور ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی سکت پیدا ہوتی ہے۔
قومی اسمبلی کے استعفوں کو واپس لیں اور وہاں جانے کا ماحول بنائیں۔ مشکل سہی مگر اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جو آئینی امیج کو بحال کرسکے۔ مذاکرات کا دور شروع کریں۔ امید ہے حکومت ان کو خلا مہیا کرے گی۔
پاکستان کی قومی اسمبلی میں دس کروڑ کے لگ بھگ عوام کا مینڈٹ آپکے پاس ہے جس کی نمائندگی محرومیت کا شکار ہے۔ اسمبلی کا توازن بگڑا ہوا ہے۔ وہاں ایک جاندار اپوزیشن کی ضرورت ہے اور آپ چھپتے پھر رہے ہیں۔ اب ٹچ سکیمیں چلنے والی نہیں اب سنجیدگی کے ساتھ جمہوری روایات کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوری حلقوں میں اپنی ساکھ کو بہتر بنا کر حقیقی جمہوری دوڑ میں شامل ہونے کا وقت ہے۔
عوام کو چوکوں چوراہوں میں نہ رلائیں بلکہ قوم اسمبلی میں ان کی آواز بنیں ایسا نہ ہو کہ غلط پالیسی کی وجہ سے یہ حق بھی چھن جائے۔